وہ کیا لوگ تھے اور ہم کیا لوگ ہیں:
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
دو ماہ سے ایک شخصیت کے سحر میں ہوں۔ نادم ہوں کہ اُن کو پہلے اس طرح دریافت نہ کر پایا۔ یہ تو جانتا تھا کہ انہیں 'لسان العصر‘ کہا گیا۔ ان کے دوچار ظریفانہ اشعار بھی یاد تھے۔ چند متفرق باتیں اور واقعات اس ذخیرۂ معلومات میں مزید شامل کر لیجیے اور بس۔ اب آکے معلوم ہوا کہ اکبر الہ آبادی اس سے بڑھ کر تھے۔ ان میں کچھ ایسا خاص تھا کہ اقبال نے انہیں اپنا پیر مانا اور ان سے ملنے کے لیے ہمیشہ بے چین رہے۔
اس دریافت کا سہرا ڈاکٹر زاہد منیر عامر کے سر ہے۔ 'اکبر بنام اقبال‘ ان کی نئی تالیف ہے۔ وہ علامہ اقبال کے نام اکبر الہ آبادی کے 133 خطوط‘ پہلی بار سامنے لائے ہیں۔ آخری خط پانچ اگست 1921ء کو لکھا گیا۔ یہ ایک خزانہ تھا جو 103 برس دنیا کی نگاہوں سے مخفی رہا۔اس سے پہلے لوگ اقبال کے نام اکبر کے صرف چھ خطوط سے واقف تھے جومختلف جرائد اور مجموعوں میں شامل تھے۔ یہ خطوط اکبر ہی نہیں‘ اقبال کی عظمت کی بھی نئی گواہی ہیں۔ یوں تو زاہد منیر عامر صاحب 60 کتب کے مصنف و مؤلف ہیں مگر ان کی یہ کتاب تنہا انہیں ادب کی تاریخ میں زندہ رکھنے کے لیے کفایت کرتی ہے۔
شخصیت فہمی میں خطوط کا کردار بڑا اہم ہے۔ خط دو افراد کی نجی گفتگو ہے۔ اگر یہ افراد ہمدم و ندیم ہوں تو ایک دوسرے سے احوالِ خاطر کے بیان میں بے تکلف ہوتے ہیں۔ خطوط میں لوگ کھلتے ہیں اور ان کے حقیقی شخصیت کو سمجھنے کا موقع پیدا ہوتا ہے۔ ایسی باتیں بھی سامنے آتی ہیں جو کسی بھری بزم کے بجائے کسی قریبی دوست ہی سے کہی جا سکتی ہیں۔ بڑے لوگ‘ ممکن ہے یہ بات ذہن میں رکھتے ہوں کہ یہ خطوط شائع بھی ہو سکتے ہیں۔ اس لیے کچھ باتیں بالمشافہ ملاقات کیلئے اٹھا رکھتے ہوں۔ خطوط اس امکان کے باوصف‘ کسی شخصیت کو سمجھنے کیلئے اہم ہیں۔ زیرِ نظر مکاتیب اقبال اور اکبر کی ایسی تصاویر ہیں کہ سبحان اللہ۔ علم کی ایسی وسعت اور اخلاص کا ایسا وفور‘ کیا کہنے۔
اقبال اکبر کو اپنا پیر مانتے تھے۔ ان خطوط سے معلوم ہوتا ہے کہ اکبر نے اس منصب کو قبول کر لیا تھا مگر ایک ذمہ داری کے طور پر۔ اس 'پیری‘ کا تعلق عمر سے بھی تھا۔ اکبر اقبال سے 25 برس قبل آب و گل کی اس دنیا میں تشریف لائے۔ اقبال یہ سمجھتے تھے کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں یہ اکبر ہی کی صدائے بازگشت ہے۔ اکبر کا خیال تھا کہ اقبال کے آنے سے اب ان کی ضرورت نہیں رہی۔ ان کا جانشین پیدا ہو گیا‘ تاہم ان کی یہ شدید خواہش معلوم ہوتی ہے کہ اقبال جیسا عبقری سطحی‘ سیاسی و کلامی بحثوں سے بلند رہے۔ اس کا مقام و مرتبہ یہی ہے کہ وہ 'حکیم الامت‘ بنے۔ وہ اقبال کو ان باتوں کا جس طرح احساس دلاتے ہیں‘ وہ اکبر کی علمی اور اخلاقی رفعت کا بھی اظہار ہے۔اقبال عملی سیاست سے بھی دلچسپی رکھتے تھے۔ سیاسی امور اور اداروں کو اسلام کی نظر سے دیکھنا بھی‘ ان کا خاص ذوق تھا۔ اس پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے اکبر ان کو لکھتے ہیں: ''پولیٹکل اسلام کے نوحہ خواں ملحد بھی نظر آتے ہیں لیکن ریلیجس اور روحانی اسلام کے ساتھ دلبستگی بہت کم ہے اور بنیادی ترقی وہی ہو سکتی ہے۔ بڑا حصہ قوم (برائے نام قوم) کے جوشِ طبع کا پولیٹکل اور ریلیجس اسلام کی مضرت رسانی میں صرف ہو رہا ہے‘‘۔ ایک دوسرے خط میں اقبال کو نصیحت کی: ''آپ میں ممبری کونسل کی قابلیت بدرجہ کمال ہے لیکن آپ کی شان سے فروتر ضرور ہے۔''تم تماشائی بنو اکبر‘ تماشا کیوں بنو‘‘۔اور یوں تو نہیں معلوم‘ پولیٹکل اورسوشل ضرورتیں بالآخر کس کس بات پر مجبور کریں‘‘۔ ایک اورخط میں لکھا: ''آپ کو شاید حیرت آمیز مسرت ہو جب میں یہ کہوں کہ 'لا مذہب لہ‘ سے صرف پولیٹکس سے علیحدہ رہنا میرا مقصود ہے‘‘۔
کیا اچھا مشورہ دیا انہوں نے ایک نابغۂ عصر کو۔ اگر اقبال عملی سیاست میں پڑے رہتے تو برصغیر کی مسلم قوم کیسی بڑی علمی متاع سے محروم ہو جاتی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اکبر نے اس خط میں 'پولیٹکل اسلام‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ بطور اصطلاح یہ اب علمِ سیاسیات کا حصہ بنی۔ میرا خیال ہے اکبر پہلے آدمی ہیں جنہوں نے یہ اصطلاح وضع کی۔اقبال تصوف کا ذوق رکھتے تھے اور اکبر تو تھے ہی صوفی۔ خواجہ حسن نظامی بھی تصوف کے نمائندہ تھے جن سے دونوں کے تعلقات تھے۔ اکبر کے کچھ زیادہ گہرے۔ اقبال اور نظامی صاحب کے مابین ایک بحث چل نکلی جس کا تعلق اقبال کے چند اشعار سے تھا جو انہوں نے حافظ شیرازی کے نقد میں کہے۔ نظامی حافظ کے دفاع میں شمشیر زن ہو گئے۔ اکبر کو یہ بات پسند نہیں تھی کہ اقبال جیسا بڑا آدمی کسی ایسی بحث میں اُلجھے۔ وہ ان کو توجہ دلاتے ہوئے لکھتے ہیں: ''آپ کی اور خواجہ صاحب کی فضول جنگ پر سخت افسو س ہوتا ہے۔ مجھ کو سخت تعجب ہوتا ہے اگر کوئی ذی علم مسلمان خدا کا ڈیفینیشن کرنے بیٹھتا ہے۔ اس سے زیادہ فضولی ناممکن ہے۔ قولِ فیصل یہ ہے کہ قرآن مجید میں جن الفاظ میں جس طور پر بیان کیا گیا ہے اس پر ایک حرف کم وبیش نہ کرنا چاہیے۔ ابن عربی‘ ابن اردو کی ایک نہ سنیں اتنا ہی کہہ دینا کافی ہے کہ ہم اس کو نہیں مانتے۔ اس تحریر سے یہ نہ سمجھیے کہ میں آپ کے علم میں اضافہ کرنا چاہتا ہوں۔ استغفراللہ! مجھے آتا کیا ہے۔ برسوں آپ سے پڑھوں پھر بھی وہ ذخیرۂ معلومات جو اللہ نے آپ کو عطا فرمایا ہے‘ بہم نہ پہنچے۔ نہ وہ عالی خیالی پیدا ہو جو آپ کے لیے نیچرل ہے۔ التماس یہ ہے کہ آپس میں شیریں خیالی رہے۔ عبادتِ الٰہی میں کیوں نہ وقت صرف کیا جائے۔ یا احکام ومسائلِ شریعت کے متعلق کیوں نہ کتابیں تصنیف ہوں... اظہارِ علم اور حصولِ شہرت کے لیے اور ذرائع بھی موجود ہیں...‘‘۔
سبحان اللہ‘ کیا اسلوب ہے نصیحت کا۔ ممکن ہوتا تو میں مکمل خط نقل کرتا۔ ہمارا مسئلہ آج بھی وہی ہے جو اکبر نے بیان کیا ہے۔ لیکن افسوس کہ نہ اکبر جیسا پیر ہے اور نہ اقبال جیسا مرید۔ ذرا یہ خط دیکھیے: ''افلاطون کی تردید ارسطو نے کی۔ ارسطو پر کینٹ نے اعتراض کیا۔ مل نے ارسطو کی غلطیاں دکھائیں... وغیرہ وغیرہ۔ آپ خوش نصیب ہیں کہ 'قرآن کو لیے‘ ہیں... آپ مجھ سے محبت رکھتے ہیں۔ میری عزت کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ بَک جاتا ہوں۔ بوڑھوں کی بَک بَک کچھ معاف بھی ہے۔ یہ نہ سمجھیے گا کہ آپ کو کچھ بتانا چاہتا ہوں۔ برسوں آپ سے سیکھ سکتا ہوں‘‘۔ (زاہد عامر صاحب نے ''...قرآن بولتے ہیں‘‘ لکھا ہے جو شاید خط کی درست قرات نہیں)۔
میں کئی دن سے ان خطوط کے سحر میں ہوں۔ ان کے مطالعہ سے نہ صرف اکبر بلکہ میں نے ایک نئے اقبال کو دریافت کیا ہے۔ ان حضرات کا علمی مرتبہ‘ اخلاص‘ تہذیب‘ اسلوبِ کلام‘ ادبی ذوق... خط کا ہر جملہ ایک ایسی شاخ ہے جس پر گل ہائے خوش رنگ کھلے ہیں۔ اقبال نے دل سے اکبر کو پیر مانا اور اکبر نے بھی مرید خاص سمجھ کر ان کی تربیت کی۔ اکبر نے جان لیا تھا کہ ا قبال نے ان کی مسند سنبھال لی ہے۔ اب وہ خوشی کے ساتھ دنیا سے رخصت ہو سکتے ہیں۔ ایک خط میں لکھا: ''خدا نے آپ کے سینے میں وہ شعلہ مشتعل کر رکھا ہے جو کفر سوز ہے۔ مجھ کو اب ضرورت شعر کہنے کی نہ رہی‘‘۔
اقبال نے اکبر کے بارے میں کہا تھا کہ 'فطرت ایسی ہستیاں پیدا کرنے میں بڑی بخیل ہے‘۔ یہی بات اقبال کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے۔ یہ بخل ہمارے عہد میں اپنے عروج کو پہنچ گیا۔
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا