''میں نے 15 ماہ پہلے تہجد کی نماز پڑھنا شروع کی۔ وہ باتیں اور اپنے دکھ درد‘ جن کے بارے میں پہلے اپنے قریبی لوگوں کو بتایا کرتی تھی‘ اب میں وہ سب اللہ تعالیٰ کے سامنے بیان کرتی ہوں کیونکہ اب میں نے اپنے قریبی لوگوں کو کھو دیا ہے۔ تہجد کی نماز میں اللہ تعالیٰ سے بات کرنے سے مجھے بہت مدد ہوئی ہے اور زندگی میں وہ سکون ملا ہے جس کا میں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ میں نے فرض نماز تو ہمیشہ پڑھی ہے لیکن تہجد کی نماز میرے سامنے زندگی کا ایک نیا مطلب لے کر آئی ہے‘‘۔
اداکارہ ریشم نے یہ باتیں ایک ویب انٹرویو میں کیں۔ میں نے یہ انٹر ویو نہیں دیکھا۔ ایک اخبار میں اس کی رپورٹنگ پڑھی ہے۔ اس انٹر ویو کو دیکھنے کے دو زاویے ہیں۔ ایک زاویہ تو وہ ہے جو اکثریت کا ہو گا۔ یہ استہزا کا رویہ ہے۔ لوگ پڑھیں گے اور ہنسیں گے: ''فلم اور تہجد... ہاہاہا‘‘۔ کوئی اس پر 'منافقت‘ کا عنوان باندھے گا کہ 'اس کے کرتوت دیکھو اور باتیں سنو‘۔ کرتوت سے مراد فلمی زندگی ہے جس کے بارے میں عمومی تصور یہی ہے کہ گناہ سے اَٹی ہے‘ جس میں کسی خیر کا کوئی گزر نہیں۔
اس کو دیکھنے کا ایک دوسرا زاویہ بھی ہے۔ یہ ہمدردانہ اورانسانی زاویہ ہے۔ اس میں ایک فرد کے سماجی پس منظر‘ تعلیم اور شعوری سطح سمیت بہت سے عوامل کو سامنے رکھتے ہوئے ایک رائے قائم کی جاتی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اس میں حسنِ ظن کا پہلو غالب ہوتا ہے۔ اگر دیکھنے والے کا مزاج داعیانہ ہو تو اس میں ہمدردی اور اخلاص کا زاویہ خود بخود شامل ہو جاتا ہے۔ میں اس انٹرویو کو اسی زاویے سے دیکھ رہا ہوں۔
خدا ور بندے کا رشتہ عجیب ہے۔ یہ اصلاً تعلقِ خاطر ہے۔ ایک فقیہ یا عالم ظواہر کی بات کر سکتا ہے۔ کسی ظاہری فعل پر حکم لگا سکتا ہے۔ کسی مسئلے میں شریعت کا منشا واضح کر سکتا ہے۔رہا دل کا معاملہ تو اس کی صحیح نوعیت فرد جانتا ہے یا اس کا پروردگار۔ جو شب کی تنہائیوں میں راز و نیاز ہوتے ہیں‘ ان تک کسی تیسرے کی رسائی نہیں ہوتی۔ جو آسودگی ان لمحوں میں کسی کو میسر آتی ہے‘ اس کی کیفیت وہی جان سکتا ہے جس پر طاری ہوتی ہے۔
میرے لیے اس کیفیت کو سمجھنا مشکل نہیں۔ یہ ہو سکتا ہے کہ ایک خاتون دن کو فلم میں کوئی کردار نبھاتی ہو۔ ناچ گانا بھی ہوتا ہو اور رات کی تنہائی میں وہ مصلے پر بھی کھڑی ہوتی ہو۔ بظاہر ان رویوں میں تضاد دکھائی دیتا ہے مگر اس کی امید ہمیشہ رہتی ہے کہ ایسی خاتون خود کو اس کشمکش سے آزاد کرا لے اور یکسو ہو جائے۔ پھر اس امکان کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا کہ اداکاری کے ساتھ پاک دامنی کو برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ ہم ایسے لوگوں کے احوال پڑھتے ہیں جو فلمی دنیا میں رہتے ہوئے بھی کسی بد اخلاقی میں ملوث نہیں ہوئے۔ اس کے برخلاف ہم ایسے لوگوں کی داستانیں بھی سنتے آئے ہیں جنہوں نے پارسائی کا چغہ پہنا ہوتا ہے مگر اعمال ایسے کہ الامان و الحفیظ۔
مذہب میں دو باتیں اہم ہیں: شریعت اور احوال۔ شریعت سے مراد خدا کے وہ احکام ہیں جن کا تعلق ظاہری اعمال سے ہے۔ ان کی پابندی لازم ہے‘ جیسے نماز۔ جیسے حج۔ یہ اعمال کیسے کیے جائیں‘ ان کے بارے میں دین راہنمائی کرتا ہے جو قرآن و سنت میں محفوظ ہے۔ فقہا اور علما اسی کی تعلیم دیتے اور اسی کی شرح کرتے ہیں۔ اجتہاد کا تعلق بھی اسی سے ہے۔ احوال سے مراد وہ قلبی کیفیت ہے جو ان اعمال کے پس منظر میں کارفرما ہے۔ فقیہ یہ تو بتائے گا کہ جسمانی طہارت کیسے حاصل کی جا سکتی ہے مگر دل کی طہارت کے بارے میں وہ کچھ نہیں جانتا۔ اس قلبی طہارت کا تعلق احوال سے ہے۔ یہ خدا اور عبادت کا وہ شعوری احساس ہے جو نماز پڑھتے وقت ایک فرد کو اپنے حصار میں لے لیتا ہے۔
مسلم سماج میں جب علما کا غلبہ ہوا تو فقہی مباحث نے دینی روایت کو احاطہ کر لیا۔ ہر طرف علمی موشگافیاں تھیں اور قیاس کے گھوڑے دوڑائے جا رہے تھے۔ اس نے 'احوال‘ کو نقصان پہنچایا۔ لوگ نماز میں رفعِ یدین جیسی بحثوں میں الجھنے لگے اور اس بات کو فراموش کر دیا کہ اصل شے جو مطلوب ہے‘ وہ اللہ تعالیٰ کی بندگی کا احساس اوراس کی منشا کے سامنے سرافگندگی ہے۔ اس پہلو کو نمایاں کرنے کے لیے صوفیا کی تحریک اٹھی۔ تصوف کے فلسفیانہ پہلو سے صرفِ نظر کیا جائے تو خانقاہی نظام 'احوال‘ کی طرف متوجہ کرنے کا ایک شاندار نظام ہے۔ بدقسمتی سے اس ادارے پر فلسفیانہ پہلو غالب ہوا جس سے ایک متوازی فلسفۂ زندگی سامنے آیا۔ اس نے 'روحانیت‘ کے ایک متبادل نظام کو جنم دیا جس میں قطب و ابدال جیسے مناصب کو اس کا حصہ بنا دیا گیا۔ یوں تزکیہ‘ جو اس کا مقصد ہونا چاہیے‘ پس منظر میں چلا گیا۔
علم اور روحانیت کے نام پر اس افراط و تفریط کا سامنا صرف ہمیں نہیں ہوا۔ یہود اور نصاریٰ بھی اس میں مبتلا ہوئے۔ ظواہر پر بڑھتے ہوئے اصرار اور 'احوال‘ سے لاتعلقی نے یہود میں فریسیوں اور علما کا ایک طبقہ پیدا کیا جو دین کے جوہر سے خالی تھا۔ سیدنا مسیحؑ اسی کی اصلاح کے لیے مبعوث ہوئے۔ 'عہدنامہ جدید‘ اسی کی کہانی ہے۔ خود مسیحیوں میں روحانیت کے نام پر جو رہبانیت پیدا ہوئی‘ اس نے ایک اور طرح کی انتہا پسندی اختیار کر لی۔ ہم مسلمان ان دونوں غلطیوں کا مجموعہ بن گئے۔
اب ظواہر پر نظر رکھنے والوں کے لیے ریشم کی باتیں قابلِ اعتنا نہیں کیونکہ اس کی ظاہری زندگی ان کے خیال میں 'غیر شرعی‘ ہے۔ جو 'احوال‘ کی بات کرتے ہیں‘ ان کے لیے نماز روزہ غیر اہم ہیں۔ جوہر کی طرف لوگوں کی توجہ کم ہی ہے۔ اگر ہم ریشم کی باتوں کو صحیح تناظر میں رکھ کر دیکھیں تو ہمیں اس میں جو تضاد دکھائی دیتا ہے‘ وہ قابلِ فہم ہو جاتا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ ہم سب کی زندگی عملاً تضادات ہی کا شکار رہتی ہے۔ دنیا کی رغبتیں کبھی غالب آتی اور ہم غفلت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ پھر کسی لمحے خیال آتا ہے تو ہم رجوع کرتے ہیں۔ یوں ہمارے دامن میں اچھے اعمال کے ساتھ بعض ایسی باتیں بھی شامل ہو جاتی ہیں جو درست نہیں ہوتیں۔ اہم بات یہ ہے کہ غلط اور صحیح کا احساس زندہ رہنا چاہیے۔ اس سے خود احتسابی کا ایک خود کار نظام وجود میں آ تا ہے۔ یہی وہ نظام ہے جس کے بارے میں اللہ کے آخری رسولﷺ نے متوجہ فرمایا تھا۔ آپﷺ کے ایک ارشاد کا مفہوم ہے کہ نیکی اور بدی کی شہادت انسان کے داخل سے آتی ہے۔ اچھے کام سے طبیعت خوش اور برائی سے مکدر ہوتی ہے۔ اسی کو اللہ کی آخری کتاب بیان کرتی ہے کہ ہم نے گناہ و ثواب کو انسان میں الہام کر دیا ہے۔
ریشم کے اس انٹر ویو کو پڑھ کر میرے دل میں ان کے لیے احترام کا جذبہ پیدا ہوا۔ اسی انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ ان کے والد‘ ان کی پیدائش سے پہلے وفات پا گئے۔ والدہ سات برس کی عمر میں دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے زندگی بتانے کے لیے کتنی مشقت اٹھائی ہو گی۔ اب وہ اپنے پروردگارسے جُڑ گئی ہیں اور اس سے راز و نیاز کرتی ہیں۔ ہم میں سے کتنے ہوں گے جنہوں نے اپنے رب سے ایسا تعلق استوار کیا ہوگا؟ کیا حرج ہے کہ ہم ریشم سے یہ بات سیکھیں کہ انسان کا اصل مولیٰ اور غم خوار اس کا پروردگار ہے۔ ہمیں ہر حال میں اس کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ اس سے زندگی آسودہ ہو جائے گی۔