میرا خیال تھا کہ فتح اللہ گولن کے انتقال پر ترکیہ میں دکھ اور افسوس کی ایک بڑی لہر اُٹھے گی اور بستی بستی صفِ ماتم بچھ جائے گی۔ اب تک کی اطلاعات یہ ہیں کہ ایسا نہیں ہوا۔ بعض بڑے خبر رساں اداروں کی خبریں میں نے پڑھیں۔ ان کا اجتماعی تاثر یہ تھا کہ دکھ تو ایک طرف‘ لوگ اس خبر پر اطمینان کا اظہارکر رہے ہیں۔ میرے لیے یہ سب کچھ حیران کن ہے۔
بیسویں صدی کے آخری عشروں میں فتح اللہ گولن کو ترکیہ کی سب سے بااثر شخصیت مانا گیا۔ تاثر یہ تھا کہ ایک مصلح کی حیثیت سے انہوں نے ترکیہ کے سماج پرغیرمعمولی طور اثرات مرتب کیے ہیں۔ وہ 1960ء کی دہائی میں دعوت و اصلاح کے عنوان سے نمایاں ہوئے اور ان کا حلقۂ اثر پھیلتا چلا گیا۔ یہ وہ دور تھا جب ترکیہ کمال ازم کی گرفت میں تھا جو سیکولر ازم کی ایک متشدد صورت تھی۔ اس دور میں انہوں نے تعلیم اور خانقاہ کے اداروں کے ذریعے سماج کے اسلامی تشخص کو زندہ کیا۔
'خدمت‘ کے نام سے اٹھنے والی اس تحریک نے سماج کو ہمہ جہت طور پر متاثر کیا۔ گولن کے متاثرین زندگی کے ہر شعبے میں موجود تھے اور بااثر بھی تھے۔ انہوں نے میڈیا اور تعلیم کے بڑے نیٹ ورک قائم کیے اور سماج پر اپنی فکری اور شخصی گرفت کو مضبوط کیا۔ اس کے ساتھ صوفیانہ روایت کا احیا کیا جو سعید نوری کی وجہ سے پہلے سے موجود تھی۔ یہی نہیں‘ انہوں نے عوام کی بہبود کے لیے سماجی ادارے بھی قائم کیے۔ اس سے سماج کا دینی تشخص زندہ ہوا اور یہ اس سیاسی تبدیلی میں بھی معاون بنا جس نے طیب اردوان جیسے اسلام پسندوں کو مسندِ اقتدار تک پہنچایا۔
طیب اردوان کے بر سرِ اقتدار آنے کے بعد حالات نے پلٹا کھایا۔ اچانک معلوم ہوا کہ یہ صاحب تو حکومت کے خلاف سازش میں مصروف تھے اور اس کا تانا بانا مغرب سے جا ملتا ہے۔ فتح اللہ گولن کے لیے ترکیہ میں رہنا ممکن نہیں رہا۔ وہ امریکہ جا آباد ہوئے۔ ترکیہ نے سرکاری سطح پر امریکہ سے مطالبہ کیا کہ انہیں واپس بھیجا جائے۔ اس مطالبے کو قبول نہیں کیا گیا۔ با لکل ایسے ہی جیسے بھارت نے ملائیشیا سے مطالبہ کیا کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کو واپس کیا جائے اور ملائیشیا کی حکومت نے انکار کر دیا۔
میں یہ نہیں جان سکا کہ فتح اللہ گولن کو اس سازش کی کیا ضرورت پیش آئی اور اس کا ثبوت کیا ہے۔ طیب اردوان اور ان کی جماعت قائل ہیں کہ ایسی سازش ہوئی ہے۔ فتح اللہ گولن کے مذہبی خیالات میں کوئی ایسی بات نہیں جس سے یہ معلوم ہو کہ وہ مغرب کی خوشنودی کے لیے مسلم فکر کی کانٹ چھانٹ کررہے تھے۔ وہ روایتی دین کے علم بردار تھے جو تصوف اور فقہ کی قدیم تعبیر سے عبارت ہے۔ وہ سرمایہ داری‘ اشتراکیت اور ہیومن ازم جیسے تصورات کے ناقد تھے۔ یہ امکان تو موجود ہے کہ یہ داخلی مفادات کا تصادم ہو لیکن یہ کوئی غیرملکی سازش تھی‘ مجھے اس کی کوئی دلیل نہیں ملی۔
ان سے منسوب ایک وڈیو ہے جس میں وہ اپنے معتقدین کو یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ وہ مختلف ریاستی اداروں میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھائیں۔ یہ بات بھی ساز ش نہیں ہو سکتی کہ ہر نظریے کے راہنما اپنے پیروکاروں کو یہی کہتے اور اعلانیہ کہتے ہیں۔ پاکستان میں مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی یہی کہتے تھے۔ اس میں خرابی کی کوئی بات نہیں۔ جو نظام کو تبدیل کرنے کا علمبردار ہے‘ یہ اس کی فطری خواہش ہے اورحکمتِ عملی بھی۔ پھر یہ کہ گولن نے عوام میں جو سوچ پیدا کی‘ وہ بھی مسلم روایت کے لیے اجنبی نہیں۔ اس کے باوجود ریاستی اقدام کے خلاف‘ ان کے حق میں ترکیہ میں کوئی تحریک نہیں اٹھی۔ ریاست نے ان کے تمام ادارے بند کر دیے۔ ہزاروں لوگ جیل میں ڈال دیے۔ عوام میں پھر بھی اضطراب کی کوئی بڑی لہر نہیں پیدا ہوئی۔ اگر یہ کوئی مقبول گروہ یا طاقتور مافیا تھا تو اس کا اظہار ہونا چاہیے تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ترکیہ کا سیکولر یا لبرل طبقہ بھی ان کے حق میں نہیں اٹھا۔ اسلام پسندوں کی مخالفت تو سمجھ میں آتی ہے کہ اردوان ان کے خلاف تھے مگر سیکولر کیوں نہیں بولے؟ مجھے اس سوال کا کوئی جواب ہنوز نہیں مل سکا۔ بعض لوگوں نے اردوان کی آمریت پسندی کو نمایاں کرنے کے لیے ان کا ذکر ضرور کیا لیکن ان کے حق میں کوئی مثبت بات کم ہی سننے کو ملی۔ ایک خاموشی رہی جو تاحال قائم ہے۔
بیسویں صدی میں مسلم دنیا میں تین بڑی تحریکیں اٹھیں جنہوں نے سیاسی تبدیلی کے بجائے سماجی تبدیلی کو اپنا ہدف بنایا۔ ایک ہندوستان میں سرسید کی تحریک‘ جو برپا تو انیسویں صدی میں ہوئی لیکن اس کے اثرات اگلی صدی میں سامنے آئے۔ دوسری ترکیہ میں سعید نوری کی تحریک‘ فتح اللہ گولن جس کا تسلسل قرار دیے جاتے ہیں۔ تیسری انڈونیشیا کی نہضۃ العلما۔ اس میں دوسری تحریک‘ محمدیہ کو بھی شامل کرنا چاہیے۔ انہوں نے اقتدار کی سیاست سے دور رہ کر سماج کے اسلامی تشخص کے لیے جد وجہد کی۔ گولن کی واحد تحریک ہے جس کا ریاست کے ساتھ تصادم ہوا۔ یہ بھی مطالعہ کا موضوع ہونا چاہیے کہ اس تحریک میں ایسی خاص بات کیا تھی جس کا نتیجہ تصادم کی صورت میں نکلا؟
یہ سوال بھی اہم ہے کہ سماجی اثرات کے حوالے سے گولن صاحب کے بارے میں جو تاثر تھا‘ ان کی موت سے اس کی تائید نہیں ہوئی۔ مثال کے طور پر کہیں ان کی غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھی جانے کی خبر نہیں ملی۔ عالمِ اسلام میں بھی اس دکھ کو محسوس نہیں کیا گیا۔ کیا ان کی مقبولیت محض ایک افسانہ تھا یا ترکیہ میں ریاست کا جبر اتنا ہے کہ کوئی ان کے ساتھ تعلق کے اظہار کی جرأت نہیں کر سکتا؟ پھران کا نیٹ ورک‘ کہا جاتا ہے کہ بہت سے ممالک میں قائم تھا‘ ان ممالک میں بھی ان کی یاد میں کسی تعزیتی تقریب کی اطلاع نہیں ملی۔ اس کا سبب کیا ہے؟
میرے لیے یہ ایک پُراسرار معاملہ ہے۔ اس کا سبب معلومات کی کمی ہو سکتا ہے‘ تاہم ان کی موت پر میں نے بی بی سی‘ الجزیرہ اور رائٹر جیسے اداروں کی خبریں دیکھیں۔ ان میں کہیں بھی ان سوالات کے جواب موجود نہیں۔ چاروں طرف ایک سناٹا اور خاموشی ہے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ میرے لیے یہ بات اس لیے بھی اہم ہے کہ میں ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔ مجھے ان کے دینی تصورات سے زیادہ مناسبت محسوس نہیں ہوتی لیکن میرے نزدیک ان کی حکمتِ عملی درست تھی۔ سماج ہی اصل ہے جسے تبدیلی کا ہدف ہونا چاہیے۔ تعلیم اور میڈیا ہی اس کے اہم ترین ذرائع ہو سکتے ہیں جنہیں انہوں نے خوبی کے ساتھ استعمال کیا۔ کیا مسلم سماج پر روایتی تصوف اور سیاسی اسلام کا اتنا غلبہ قائم ہو چکا کہ اس سے ہٹ کر تبدیلی کی کوئی تحریک نتیجہ خیز نہیں ہو سکتی؟
میرے پاس اس وقت اس سوال کا جواب بھی موجود نہیں۔ میں اس کا جواب اثبات میں نہیں دے سکتا کہ میں نے انڈونیشیا میں نہضہ اور محمدیہ کے اثرات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ تاہم اس کے ساتھ گولن تحریک کو بے ثمر ہوتا بھی دیکھ رہا ہوں اور ساتھ اردوان کی مقبولیت بھی جو اسرائیل کی ننگی جارحیت کے بعد بھی اس سے سفارتی تعلقات قائم رکھے ہوئے ہیں۔
ان سوالات کے جواب جو بھی ہوں‘ ان سے یہ بات واضح ہے کہ مسلم معاشرے فکری انتشار کا شکار ہیں۔ ان میں تبدیلی کے کسی پیٹرن کو تلاش کرنا‘ اس وقت ممکن نہیں۔ یہ بات اپنی جگہ باعثِ تشویش ہے کہ کسی معاشرے کی کوئی سمت ہی نہ ہو۔