تحریک انصاف کے لیے اس کی پہلی حکومت کڑا امتحان ہے۔ اس کے سربراہ، وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کی کامیابی پر ان کی جماعت کے مستقبل کا انحصار ہوگا۔ اگر وہ اپنے ایجنڈا میں درج ذیل نکات بھی شامل کر لیں تو ان کے لیے دوسروں پر سبقت لے جانا آسان ہو جائے گا۔ شکایات کی شنوائی نہایت آسان کر دیں۔ ہر محکمہ کے سیکرٹری، ہر ادارہ کے سربراہ، صوبائی پولیس افسر (آئی۔ جی۔) اور ہر ضلع کی انتظامیہ کے سربراہ کو ہدایت کریں کہ اپنے اپنے دفتر میں سیل بنائیں، جو ای میل اور ویب سائٹ پر عوام سے شکایات وصول کریں اور اسی دن متعلقہ افسر سے ای میل سے جواب طلب کریں اور پھر جتنی جلدی ممکن ہوسکے تسلی بخش جواب لے کر شکایت کنندہ کو بھیجا جائے ۔ ای میل اب خاصی عام ہے ۔ اس کے استعمال سے کاغذ پر لکھی شکایت پر کارروائی میں تاخیریا اس کے گم ہو جانے کا امکان نہیں رہے گا۔ مقامی حکومتوں کا2001ء کا قانون اصل حالت میں نافذ کریں۔ بعد میں کی جانے والی ترامیم نظر انداز کر دیں کیوںکہ وہ سیاست کاروں نے اپنے فائدہ کی خاطر اور نظام کمزور کرنے کے لیے کی تھیں۔ جب تین چار دفعہ الیکشن ہو جائیں تو پھر ظاہر ہونے والی خامیوں کو دور کرنے کے لیے ضروری ترامیم کی جا سکتی ہیں۔ مقامی حکومتوں کے قانون کے تحت ہر ضلع میں ضلع محتسب کا تقرر کریں، جو مقامی انتظامیہ کی خلاف قانونی کارروائی منسوخ کر سکے ۔ یوں عوام کو فوری انصاف ملے گا اور بیشتر معاملات میں عدالت سے رجوع کی ضرورت نہیں رہے گی۔ نچلی سطح پر ججوں کی تعداد کئی گنا بڑھا دیں۔ سول جج و جوڈیشل مجسٹریٹ اتنے زیادہ کر دیں کہ مقدمہ کی کارروائی دنوں میں پوری ہو جایا کرے ۔ جلد فیصلوں سے انصاف ملے گا، جو تحریک انصاف کا بڑا مقصد ہے ۔ جب تک عمارتیں نہ بنیں، خیموں میں عدالتیں لگائیں۔ یکساں نصاب جلد از جلد نافذ کریں۔ اگر ایک سال میں ایک جماعت میں نصاب تبدیل کریں گے تو وہی غلطی ہوگی، جو صدر ضیاء الحق کے دور میں کی گئی۔ اس وقت فیصلہ ہوا کہ ذریعہ تعلیم اردو کر دیا جائے ۔ ایک سال میں ایک جماعت میں تبدیلی لائی گئی۔ جب آخر تک پہنچے تو محمد خاں جونیجو وزیر اعظم بن چکے تھے ۔ انھوں نے سائنس کے مضامین انگریزی میں پڑھانے کی اجازت دے دی۔ نجی سکولوں نے ، جو انگریزی میڈیم ہی کی بدولت کمائی کرتے تھے ، پیر پھیلا لیے اور وہیں پہنچ گئے جہاں سے چلے تھے ۔ یکساں نصاب کے لیے اگلے مارچ تک تیاری کریں۔ اساتذہ کو نئے نصاب کی کتابیں ابھی سے دے دیں۔ جہاں تک ہو سکے تحصیل اور ضلع صدرمقامات پر ان کی تربیت کا انتظام کریں۔ اگلے تعلیمی سال سے پہلی سے آٹھویں جماعت تک کا سارا نصاب بدل دیں۔ ایک سال تھوڑی سی مشکل ہوگی۔ اس کے بعد روانی آ جائے گی۔ اس کے بعد نویں جماعت سے نصاب بدلیں اور ایک ایک سال میں 12ویں تک تبدیلی لے آئیں۔ یکساں نصاب کے ساتھ ذریعہ تعلیم بھی سب کے لیے اردو کریں ورنہ طبقاتی تقسیم برقرار رہے گی۔ نجی سکول بدستور انگریزی میں سب کچھ پڑھا کر بچوں میں احساس برتری پیدا کرتے رہیں گے ۔ اس طرح طبقاتی تقسیم جاری رہے گی۔ مقامی حکومتوں کے انتخابات ہوتے ہی ضلع حکومتوں سے کہیں کہ اپنی تعلیمی ضرورتیں پوری کرنے کے منصوبے بنائیں۔ جہاں ضرورت ہو نئے سکول بنائیں۔ موجودہ سکولوں میں مزید کمرے ، چاردیواری، پانی، بجلی، ٹائلٹ، وغیرہ کے لیے تخمینے تیار کریں۔ پھر صوبائی حکومت ہر ضلع کو صوبائی مالیاتی کمشن کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ رقوم دے ۔ پہلے سال ہی میں تعلیم میں انقلاب نظر آ جائے گا۔ صحت کا نظام درست کریں۔ ایلوپیتھ ڈاکٹر کبھی بھی مطلوبہ تعداد میں دیہات کے شفاخانوں میں کام نہیں کریں گے ۔ صوبائی حکومت ان کے نخرے اٹھانے کی بجائے اپنے ہومیوپیتھ اور طبیہ کالج کھولے ۔ دیہی طلبہ کو داخلہ میں ترجیح دی جائے ، اعلیٰ معیار کی تعلیم دی جائے اور ریسرچ میں دلچسپی پیدا کی جائے ۔ یہاں سے سند لے کر نکلنے والے دیہات میں کام کرنے کو تیار ہوں گے ۔ دوائوں کی منظوری کے لیے تجربہ گاہیں بنائی جائیں۔ مقصد مریضوں کا علاج ہونا چاہیئے ، کسی بھی طریقہ سے ہو۔ پن بجلی کے منصوبوں کے لیئے نجی سرمایہ کاری کرائیں۔ صوبہ میں 40، 50 ہزار میگاواٹ پن بجلی پیدا کی جا سکتی ہے ۔ مرکزی حکومت سے پالیسی منظور کرائیں۔ اس کے بعد ملکی و غیرملکی سرمایہ کاروں کو دعوت دیں کہ وہ جہاں چاہیں چھوٹے بڑے ڈیم بنائیں اور بجلی بنا کر مقررہ ریٹ پر نیشنل گرڈ میں داخل کریں۔ ممتاز انجینئر شمس الملک کو اس کام کا نگران بنائیں۔ پیداوار میں اضافہ کے ساتھ ساتھ مہنگی بجلی سسٹم میں سے نکلتی جائے گی اور ملک بھر میں بجلی سستی ہوتی جائے گی۔ کالاباغ ڈیم تعمیر کرائیں۔ کالاباغ سندھ دریا پر واحد جگہ ہے ، جہاں پانی کی سطح زمین سے اونچی ہے ۔ چنانچہ صرف یہیں سے نہریں نکال کر صوبہ میں اراضی سیراب کی جا سکتی ہے ۔ پچھلی حکومتوں نے اپنے پائوں پر خود کلہاڑی مارتے ہوئے اپنے صوبہ کو پانی کا جائز حصہ بھی نہ لینے دیا، صرف اس لیے کہ پنجاب کو بجلی کی رائلٹی نہ ملے ۔ صوبہ کا نام تبدیل کرائیں۔ عوامی نیشنل پارٹی کو 2003 ء میں جوش آیا کہ صوبہ کا نام ’’پختون خوا‘‘ رکھا جائے ۔ وہ بھی اس لیے کہ امریکیوں کا منصوبہ تھا کہ اس نام سے ہمارے اور افغانستان کے پٹھان علاقوں پر مشتمل ایک نیا ملک بنایا جائے ۔ تحصیل، ضلع اور ڈویژن کا نام اس کے صدر مقام کے نام پر ہوتا ہے ۔ صوبہ بھی انہی کی طرح انتظامی یونٹ ہے ۔ ہمارے کسی صوبے کے نام کی بنیاد لسانی یا نسلی نہیں۔ سندھ کا صوبہ بمبئی کو اور شمال مغربی سرحدی صوبہ پنجاب کو تقسیم کر کے بنایا گیا۔ پنجاب کا نام جغرافیائی ہے ۔ بلوچستان تو 1970 ء تک صوبہ ہی نہ تھا۔ پھر بلوچوں کی آبادی آدھے سے بھی کم ہے ۔ ویسے بھی ’’خیبر پختون خوا‘‘ابھی تک زبانوں پر نہیں چڑھ سکا۔ بہت سے لوگ صحیح طرح نہ تلفظ ادا کرتے ہیں اور نہ لکھتے ہیں۔ پھر جس طرح دو لفظوں والے ناموں میں سے پہلا ہی زیادہ بولا جاتا ہے (جیسے ’’ریموٹ کنٹرول ‘‘کی بجائے صرف ’’ریموٹ‘‘)، آخرکار نام ’’خیبر‘‘رہ جائے گا۔ شمال مغربی سرحدی صوبہ بھی آخر کار صرف ’’سرحد‘‘رہ گیاتھا۔صوبائی اسمبلی سے قرارداد منظور کرا کے مرکزی حکومت سے کہیں کہ آئین میں ترمیم کرے اور صوبہ کا نام وہی رکھا جائے ، جو اس کا صدر مقام ہے ۔ اس طرح تحریک انصاف صوبائِیت، لسانیت اور نسل پرستی سے بالاتر ہو کر دوسرے صوبوں کے لیے مثال قائم کرے گی کہ وہ بھی اپنے اپنے صدر مقام کے مطابق نام رکھیں۔ صوبہ کا نام ’’پشاور‘‘ رکھنے سے ہزارہ صوبہ کی مانگ بھی ختم ہو جائے گی کیونکہ انھیں نئے نام والے صوبہ میں رہنے پر کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ اگر پرویز خٹک پہلے 100 دنوں میں دھاک بٹھانا چاہتے ہیں تو انھیں ہر روز کئی کئی بڑے قدم اٹھانے ہوں گے ۔ اسی طرح وہ لوگوں کو قائل کر سکیں گے کہ تبدیلی آ رہی ہے اور اسی طرح وہ دوسروں پر سبقت لے جا سکتے ہیں۔