بجٹ :اوپر سے نیچے

اگر کل کو کوئی وزیر اعظم آیا، جس نے بجٹ کو اوپر سے نیچے کرنے کا تہیہ کر لیا، تو وہ اپنے وزیر خزانہ سے غالباً کچھ اس طرح کی گفتگو کرے گا۔ وزیر اعظم: ڈاکٹر صاحب، جس طرح میں نے ساری زندگی چادر دیکھ کر پائوں پھیلائے ، میں چاہتا ہوں میری حکومت بھی اسی طرح کرے ۔ یہ ہمارا پہلا بجٹ ہے ۔ پچھلے حکمران عوام کو خوش کرنے کے لیے خواہشات کو بتدریج بڑھاتے جاتے اور پھر چادر کو لمبا کرنے کی کوشش میں انھیں ہی مقروض کرتے جاتے ۔ آپ فرض کر لیں کہ اس سال جو حقیقی آمدنی ہوئی، اتنی ہی اگلے سال ہوگی۔ ہاں، وفاقی بورڈ آف ریونیو سے کہیں کہ سب استثنا ختم کرے ۔ کسی نے کاروبار کرنا ہے تو اپنے پیروں پر کھڑا ہو، حکومت سے بیساکھیاں نہ مانگے ۔ جن ٹیکس نہ دینے والے کی نشاندہی ہو چکی ہے ان سے وصول کرے ۔ وزیر خزانہ: سر، اس طرح تو بجٹ بہت چھوٹا ہو جائے گا۔ وزیر اعظم: دیکھیں، اقتصادیات لامحدود خواہشات اور محدود وسائل میں توازن پیدا کرنے کا نام ہے ۔ آُپ منصوبوں کو موجود وسائل کی حد میں رکھیں۔ وزیر خزانہ: وسائل بڑھانے کے لیے قرضے بھی تو لیے جا سکتے ہیں۔ وزیر اعظم: قرض ام الخبائث ہے ۔ ہم کسی بینک سے قرضہ نہیں لیں گے تاکہ وہ صرف صنعت اور کاروبارکے لیے قرضے دیں۔ اس سے نجی شعبہ پھلے پھولے گا۔ وزیر خزانہ: بیرونی قرضوں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ؟ وزیر اعظم: اگر کم سود پر قرض ملے تو لے کر زیادہ سود والے موجودہ قرضے ادا کر دیں گے ۔ ورنہ معذرت کر لیں گے ۔ بانڈ بھی جاری نہیں کریں گے ، نہ یہاں، نہ باہر۔ وزیر خزانہ: بجٹ کا خسارہ کیسے کم ہوگا؟ وزیر اعظم: ہم صرف اس منصوبہ پر خرچ کریں گے ، جس سے عوام کو زیادہ سے زیادہ فائدہ ہو۔ بلند عمارتیں، لمبے پل، بڑی شاہراہیں، دریائوں پر بڑے ڈیم، وغیرہ حکومت نہیں بنائے گی۔ نجی شعبہ سے کہیں گے کہ وہ بنائے اور حکومت کا منظور کردہ کرایہ یا ٹول ٹیکس20 سال تک لے کر اپنی لاگت اور منافع وصول کرے ۔ اس دوران مرمت اور دیکھ بھال بھی اس کے ذمہ ہوگی۔ پی آئی اے ، ریلوے ، سٹیل مل، وغیرہ کے سربراہ لکھ کر دیں گے کہ وہ ایک سال میں انھیں منافع میں نہ لا سکے تو کم از کم حکومت سے مالی مدد نہیں مانگیں گے ۔ دوسرے سال کے آخر تک خسارہ بالکل ختم کرنا ہوگا۔ وزیر خزانہ: نجی بجلی گھروں کو تو بہر حال واجب رقوم دینی ہوں گی۔ وزیر اعظم: واجب ادائیگی کے بعد بجلی کا مسئلہ دو طریقوں سے حل کریں گے ۔ بجلی کی ہر تقسیم کار کمپنی کو پبلک لمیٹڈ کمپنی بنا دیا جائے گا۔ اس کے حصہ دار وہی لوگ ہوں گے جن کے پاس بجلی کے کنیکشن ہوں گے ۔ وہ عدم اعتماد کے ذریعہ کمپنی کے سربراہ کو جب چاہیں ہٹا سکیں گے ۔ دوسری طرف، بجلی گھروں سے کہِیں گے کہ ہر تقسیم کار کمپنی سے براہ راست کم سے کم ریٹ پر سپلائی کا معاہدہ کریں۔ جتنی بجلی دیں گے ، اتنے ہی پیسے ملیں گے ۔ ہر سال ریٹ طے ہوگا۔ سستی بجلی دینے والے نئے بجلی گھروں کو ترجیح دی جائے گی۔ وزیر خزانہ: اگر ہم بجلی گھروں سے معاہدے منسوخ کریں گے تو وہ عدالتوں میں چلے جائیں گے ۔ وزیر اعظم: جم جم جائیں۔ جب ہم ملکی مفاد میں کارروائی کریں گے تو عدالتیں ہماری بات مانیں گی۔ بلوچستان میں ریکوڈک کا معاہدہ بھی تو سپریم کورٹ نے نامناسب ہونے کی بنا پر منسوخ کر دیا تھا۔ وزیر خزانہ: نہائت محدود آمدنی سے بیرونی قرضے کیسے اتاریں گے ؟ ہزاروں بلین ڈالر درکار ہوں گے ۔ وزیر اعظم: اس کا حل بھی نکال لیں گے ۔ آپ اپنے لوگوں سے کہیں کہ درآمدات کا خوردبین سے جائزہ لیں۔ ایک ایک مد کو دیکھیں کہ ضروری ہے یا نہیں۔ مشینری اور خام مال تو بلاشبہ منگانے ہوں گے ۔ جو اشیا ملک میں بنتی ہیں ان کی درآمد کچھ عرصہ کے لیے بند کر دیں یا ان پر بھاری کسٹم ڈیوٹی لگا دیں تاکہ درآمد کم ہو جائے ۔ عام استعمال اور کھانے پینے کی اشیا تو کسی صورت نہیں آنی چاہییں۔ ٹارگٹ یہ ہوگا کہ درآمدات برآمدات سے کم از کم پانچ بلین ڈالر کم ہوں۔ اس بچت سے قرضے ادا کریں گے ۔ دوسری طرف، دنیا بھر میں ہر سفارت خانہ کو حکم دیا جائے گا کہ وہ برآمدات کم ازکم پانچ سو ملین ڈالر سالانہ تک بڑھائے ۔ جہاں اس وقت اس سے زیادہ برآمدات ہیں، وہاں ہر سال کم از کم 25 فی صد اضافہ ہو۔ اس کوشش میں سفیر سے چپڑاسی تک سب تندہی سے کام کریں۔ وزارت تجارت بھی پورا زور لگائے ۔ اگر کوئی سفارت خانہ ٹارگٹ پورا کر لیتا ہے تو عملہ کو اگلی پوسٹنگ اس کی پسند کی دی جائے گی۔ اگر نہیں کر پاتا تو سارے عملہ کو واپس بلا لیا جائے گا اور آئندہ کبھی بیرون ملک پوسٹنگ نہیں ملے گی۔ ہمارا ٹارگٹ یہ ہوگا کہ برآمدات دو تین سال میں دگنی ہو جائیں۔ یوں، سارے بیرونی قرضے اتر جائیں گے اور زرمبادلہ کے ذخائر اتنے بڑھ جائیں گے کہ روپیہ مضبوط کرنسیوں میں شمار ہونے لگے گا۔ وزیر خزانہ: ترقیاتی منصوبوں کا کیا ہوگا؟ وزیر اعظم: ہم یہ سوچ بدل دیں گے کہ صوبے جیسے چاہیں مرکز سے ملنے والی رقوم خرچ کریں۔ ہم مالیاتی ایوارڈ کو تین حصوں میں تقسیم کر دیں گے ۔ ایک حصہ مرکز کا، دوسرا صوبوں کا اور تیسرا مقامی حکومتوں کا ہوگا۔ کسی صوبہ کو صرف اس ترقیاتی منصوبہ کے لیے رقم ملے گی، جس سے کم از کم تین اضلاع کو فائدہ ہو۔ انتظامی اخراجات کے لیے کچھ نہیں ملے گا۔ وہ اپنے ٹیکسوں سے ضرورت پوری کریں یا خرچ کم کریں۔ اس وقت صوبے ضلع حکومتوں کو بہت کم رقوم دیتے ہیں، حالانکہ وہیں سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے ۔ ہم مقامی حکومتوں کے آرڈیننس 2001 ء کو مرکزی قانون کے طور پر نافذ کریں گے ۔ الیکش کمشن سے کہیں گے کہ اس کے تحت ملک بھر میں فورا ًالیکشن کرا دے ۔ مقامی حکومتوں سے کہا جائے گا کہ وہ اپنی ترجیحات کے مطابق منصوبے بنائیں۔ ان کی کارکردگی کے مطابق انھیں رقوم براہ راست دی جائیں گی۔ وزیر خزانہ: لیکن، سر، مقامی حکومتیں تو آئین کے تحت صوبائی حکومتوں کے ماتحت ہیں۔ اس طرح تو آئین کی خلاف ورزی ہوگی۔ وزیر اعظم: ڈاکٹر صاحب، آئین ہمارے لیے ہے ، ہم اس کے لیے نہیں۔ منتخب حکومتیں بھی اپنی مصلحت یا سیاسی فائدہ کے لیے اس کی خلاف ورزی کرتی رہی ہیں۔ ہم تو عوام کے مفاد میں کام کریں گے ۔ ہم مقامی حکومتوں کو اتنے پیسے دیں گے کہ وہ چند سالوں میں تعلیم، صحت، پانی، اور دوسرے بنیادی مسائل حل کر لیں۔ ہم بجٹ اوپر سے نیچے اور ترقی اور خوشحالی نیچے سے اوپر کی طرف لے جائیں گے ۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں