ذوالفقار علی بھٹو وزیر اعظم کی حیثیت سے جو چاہتے کر گزرتے‘ لیکن پاکستان ٹیلی ویژن والوں نے ایسا چکر چلایا کہ اپنے معاملہ میں ان کی نہ چلنے دی۔ جب پاکستان ٹیلی ویژن نے 1964ء میں نشریات شروع کیں تو بھٹو ایوب خاں کی کابینہ میں وزیر تھے ۔ جب وہ دسمبر 1971ء میں خود برسراقتدار آئے تو ٹیلی ویژن ابھی پیروں پر کھڑا ہونے کی کوشش کر رہا تھا؛ چنانچہ ان کا عوام سے پہلا خطاب چک لالہ میں ایک بیرک سے ہوا، جہاں ان دنوں پاکستان ٹیلی ویژن کا ’’راولپنڈی اسلام آباد مرکز‘‘کام کر رہا تھا۔ بھٹو نے فیصلہ کیا کہ ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن کو ملا کر ایک ادارہ بنا دیا جائے ۔ اس کا نام ’’پاکستان براڈکاسٹنگ کارپوریشن‘‘ تجویز کیا گیا۔ ابتدائی کارروائی ہو رہی تھی کہ پاکستان ٹیلی ویژن والوں نے کچھ ایسا کیا کہ ادغام ہوتے ہوتے رہ گیا۔ بعد میں کسی حکومت نے اس پر توجہ نہ دی۔جس ملک میں ریڈیو پہلے سے موجود تھا، وہاں ٹیلی ویژن کو اس کا حصہ بنایا گیا۔ بعد میں ٹیلی ویژن کا دائرہ بہت بڑھ گیا تو بھی انتظامی طور پر دونوں ایک ہی ادارہ میں رہے ۔ ہمارے ہاں ریڈیو سرکاری محکمہ کے طور پر چلایا جا رہا تھا جبکہ ٹیلی ویژن کے لیے کارپوریشن بنا دی گئی‘ پھر بھی دونوں کو ایک کرنا اتنا مشکل نہ تھا۔ تاہم مشکلات کا عذر تراش کر ادغام رکوا دیا گیا۔ صرف اتنا ہوا کہ ریڈیو پاکستان کا نام پاکستان براڈکاسٹنگ کارپوریشن ہو گیا۔ مسئلہ کا حل یہ ہے کہ پاکستان براڈکاسٹنگ کارپوریشن کی تشکیل نو کی جائے اور ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن اس کے دو ڈویژن ہوں۔ ادغام ابتدا میں بالائی سطح پر ہو، یعنی دونوں کا ایک ہی بورڈ اور ایک ہی چیئرمین ہو۔ ان کے نیچے ایک ایم ڈی اور ایک چیف ایڈیٹر ریڈیو کے لیے اور دوسرے ٹیلی ویژن کے ہوں۔ دونوں ڈویژنوں کا ایک کیڈر ہو۔ جو موجودہ ملازم اسے قبول کریں ان کا تبادلہ ایک ڈویژن سے دوسرے میں ہو سکے ‘ جو قبول نہ کریں وہ سبک دوشی تک وہیں کام کرتے رہیں جہاں ہیں۔ وقت کے ساتھ سبھی کیڈر کو قبول کرنے والوں میں ہو جائیں گے اور دونوں ڈویژنوں کی انتظامیہ میں بھی ہم آہنگی آتی جائے گی۔ ادغام کے بڑے فائدے ہوں گے ۔ کچھ کا ذکر ہم کر دیتے ہیں: اول، دونوں کے رپورٹر ملا کر مجموعی تعداد بہت بڑھ جائے گی۔ ایک ہی رپورٹر آڈیو اور ویڈیو میں خبریں دیا کرے گا۔ ریڈیو کے رپورٹروں کو بھی تھوڑی سی تربیت سے اس قابل بنایا جا سکتا ہے کہ کم از کم گزارہ لائق ویڈیو بنا کر بھیج سکیں۔ اس طرح زیادہ مقامات سے خبریں آنے لگیں گی۔ دوم، ریڈیو پاکستان کے تمام سٹیشنوں ہی میں ٹیلی ویژن کے بھی مرکز بن سکتے ہیں۔ یہاں سے صبح سے سہ پہر تک مقامی دلچسپی کی نشریات ہو سکتی ہیں۔ عمارت تو پہلے سے موجود ہوگی اور ٹرانسمیٹر کے لیے ٹاور بھی۔ صرف ایک چھوٹا سا سٹوڈیو بنانا ہوگا۔ چونکہ اس وقت ریڈیو سٹیشن 20 سے زیادہ ہیں، ٹیلی ویژن مرکزوں کی تعداد بھی بہت کم خرچ سے کئی گنا ہو جائے گی۔ مقامی نشریات بڑی دلچسپی سے دیکھی جائیں گی۔ سوم، بہت سے مقامی فنکار چھوٹے مرکزوں تک آسانی سے پہنچ سکیں گے ، جہاں ان کی آڈیشن اور ابتدائی تربیت ہو جائے گی۔ جن میں صلاحیت زیادہ ہوگی وہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے بڑے مرکزوں پر جا سکیں گے۔ چہارم، ٹیلی ویژن پر خبریں پڑھنے والوں اور ڈراموں میں کام کرنے والوں کی پہلی تربیت ریڈیو پر ہوگی۔ یہاں وہ آواز کے زیر و بم اور تلفظ سیکھیں گے ۔ جب آواز پر پورا عبور ہو جائے گا تو ٹیلی ویژن پر کام کرنا آسان ہو جائے گا۔ پنجم، ہر قسم کی تقریبات کی ریکارڈنگ کے لیے ایک ہی ٹیم کافی ہوگی۔ بیرونی دوروں پر صدر اور وزیر اعظم کے ساتھ بھی ایک ہی ٹیم جایا کرے گی۔ کھیلوں کے لیے بھی یہی صورت ہوگی۔ ششم، ٹیلی ویژن کی آواز کو ریڈیو بہت دور تک لے جا سکتا ہے ۔ ہر ٹیلی ویژن مرکز اپنی آڈیو کی موجودہ فریکوئنسی کے ساتھ ریڈیو کی ایف ایم کی آڈیو فریکوئنسی بھی الاٹ کرا سکتا ہے ، اسے ریلے کرنے کے لیے ریڈیو کے ٹرانسمیٹروں کے ساتھ ٹیلی ویژن کے ایف ایم ٹرانسمیٹر لگائے جا سکیں گے ۔ اس طرح کار میں سفر کرنے والے ، لوڈ شیڈنگ کے مارے ہوئے اور دوردراز علاقوں کے رہائشی اپنے ریڈیو پر کم از کم ٹیلی ویژن کی آواز سن سکیں گے ۔ ریڈیو بوسٹر کے ساتھ ٹیلی ویژن بوسٹر بھی لگائے جا سکیں گے۔ ہفتم، ٹیلی ویژن کی آمدنی سے ریڈیو کے اخراجات بھی پورے ہو جایا کریں گے ۔ اس وقت ٹیلی ویژن لائسنس فیس بھی لیتا ہے اور اشتہارات بھی، جبکہ ریڈیو کی لائسنس فیس عرصہ ہوا ختم کی جا چکی ہے ۔ ترقیاتی کاموں کے لیے حکومت امداد دیا کرے ، جیسے نئی عمارت، نئی مشینری، نئے مرکز۔ ہشتم، پاکستان ٹیلی ویژن اپنا ذیلی ادارہ، شالیمار ٹیلی ویژن نیٹ ورک، جو ٹھیکہ پر دے دیا گیا تھا، واپس لے سکتا ہے اور اس کے سٹیشنوں سے تیسرا چینل چلایا جا سکتا ہے۔ انہی سٹیشنوں سے ریڈیو کے نئے چینل شروع کیے جا سکتے ہیں۔ یہ سب زمینی سٹیشن ہیں، جو کیبل کے بغیر بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ سیٹلائیٹ کی ضرورت نہ ہونے کی بنا پر بہت کم خرچ سے چینل چلائے جا سکتے ہیں۔ نہم، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ایم ڈی صرف انتظامی اور فنی امور دیکھیں گے جبکہ چیف ایڈیٹر نشر ہونے والے مواد پر نظر رکھے گا۔ چیف ایڈیٹر صاحب ذوق و ادب ہوگا، جس کی توقع انتظامی افسروں سے نہیں کی جا سکتی۔ اس طرح، خبریں، تبصرے ، ڈرامے ، موسیقی، غرض جو کچھ بھی نشر ہوگا اعلیٰ معیار کا ہوگا۔ چیف ایڈیٹر اور اس کا ماتحت عملہ کسی ایم ڈی کے ماتحت کسی انتظامی عہدہ پر متعین نہیں ہوگا، کیوں کہ وہ اس کے اہل نہیں ہوں گے ۔ ہر ایک کا ذاتی سکیل ہوگا، جس میں ہر سال خود بخود ترقی ملتی جائے گی۔ ترقی نہ بھی ہو تو بھی فرق نہیں پڑے گا۔ آواز اور تصویر کا ملاپ نہ صرف دونوں اداروں کے لیے فائدہ مند ہوگا بلکہ عوام کو بھی نہایت اعلیٰ معیار کی نشریات ملیں گی، جس کی توقع نجی چینلوں سے نہیں کی جا سکتی۔