حکومت انتظامی اخراجات کیسے کم کرے؟

اخراجات ہمیشہ بڑھ کر آمدنی میں متوقع اضافہ کے برابر ہو جاتے ہیں۔ مثلاً، جب سرکاری ملازموں کی تنخواہوں میں اضافہ کی خبریں آنے لگتی ہیں تو ان کی بیویاں اضافہ سے پہلے ہی طے کر لیتی ہیں کہ اضافی رقم کیسے خرچ کرنی ہے ۔ مرکز اور صوبوں میں حکومتوں کی سوچ بھی عورتوں جیسی ہی ہوتی ہے ۔ ان کے بجٹ اصل آمدنی کی بنا پر نہیں بلکہ متوقع آمدنی کی بنا پر بنائے جاتے ہیں۔ جب سال کے آخر تک آمدنی میں متوقع اضافہ نہیں ہوتا تو اگلے سال اخراجات کم کرنے کا عزم کیا جاتا ہے ۔ اس کے بعد، بقول شاعر، وہی ہے چال بے ڈھنگی، جو پہلے تھی سو اب بھی ہے ۔ حکومت کے انتظامی اخراجات کل بجٹ کا بڑا تھوڑا سا حصہ ہوتے ہیں‘ پھر بھی ان میں خاصی بچت ممکن ہے ۔ گہری نظر سے پتہ چلتا ہے کہ، بقول شاعرع، مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی۔ آئیں دیکھیں کہ خرابی کی صورتیں کیا ہیں اور کیسے ختم کی جا سکتی ہیں۔ ہر اسامی کی مجموعی لاگت شمار کریں۔ نئی اسامی کی لاگت کا تخمینہ لگانے کے لیے صرف بنیادی سکیل کے مطابق تنخواہ ہی دیکھی جاتی ہے ۔ اصل لاگت میں یہ مدیں شامل ہوتی ہیں: کرایہ مکان، ٹرانسپورٹ الائونس، خصوصی الائونس، دفتر یا کام کی جگہ کی لاگت یا کرایہ، فرنیچر، آلات کار (جیسے ، کمپیوٹر)، فون، بجلی (ایئرکنڈیشننگ سمیت)، گیس، سٹیشنری وغیرہ۔ یوں ہر اسامی پر خرچ تنخواہ سے کہیں زیادہ ہوتا ہے ۔ ہر دفعہ کل لاگت شمار کی جائے تو نئی اسامیوں کا جواز پیدا کرنا مشکل ہو جائے گا۔ بنیادی سکیل ختم کر دیں۔ ذوالفقار بھٹو کے دور میں سرکاری ملازموں کے چار درجے ختم کر کے 22بنیادی سکیل بنائے گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایک ایک سکیل سے ہوتے ہوئے اوپر جانے کے لیے بیشتر ملازمین کو عمر خضر درکار ہوتی ہے ۔ اب صرف ترقی دینے کے لیے بلا ضرورت نئی اسامیاں پیدا کرنی پڑتی ہیں۔ اگر اوپر والے سکیل میں اسامی نہ ہو تو ملازم کو ترقی نہیں مل سکتی۔ اور ترقی نہ ملے تو تنخواہ میں اضافہ نہیں ہو سکتا۔ بنیادی سکیل ختم کر کے ہر ملازم کا ذاتی سکیل مقرر ہونا چاہیے۔ بھرتی سے لے کر 50سال کی عمر تک ہر ملازم کو ہر سال تنخواہ میں اضافہ ملتا رہے ۔ یہ اضافہ بھی مقررہ میعاد کے بعد خود بخود بڑھتا رہے ۔ اس طرح ملازم ترقی نہ ملنے پر بھی یکسوئی سے کام کرتا رہے گا۔ ہر ادارہ اور دفتر اپنے وجود کا جواز دے ۔ ہر ادارہ، شعبہ، دفتر، وغیرہ، کا سربراہ سال کے آخر میں بتائے کہ اس کے ادارہ نے سال بھر میں کیا اہم کام کیا اور اگر ادارہ ختم کر دیا جائے تو کیا نقصان ہوگا۔ مبالغہ آرائی اور لمبی چوڑی تحریر روکنے کے لیے ہدایت کی جائے کہ کارکردگی اور جواز صرف ایک ایک صفحہ پر لکھا جائے ۔ وزارت خزانہ تمام رپورٹوں کا جائزہ لے اور سفارش کرے کہ جن اداروں کی کارکردگی اور جواز تسلی بخش نہ ہو، ان کے لیے رکھی گئی رقم اگلے سال کے بجٹ سے نکال دی جائے ۔ اس طرح وہ ادارے اور دفتر ختم ہو جائیں گے ، جو صرف کسی منظور نظر کی خاطر بنائے گئے ۔ خالی رہ جانے والی اسامیاں ختم کر دیں۔ اگر کوئی اسامی چھ ماہ سے زیادہ خالی رہے تو اس کا مطلب ہوگا کہ اس کے بغیر بھی کام چل سکتا ہے ۔ اس لیے اسے ختم کر دیا جائے ۔ نقد خرید کی بجائے لیزنگ کریں۔ کاریں، فرنیچر، کمپیوٹر اور دیرپا آلات خریدنے کی بجائے لیز پر لیں، جس میں مرمت اور دیکھ بھال کی لاگت شامل ہو۔ اس طرح قیمت یک مشت کی بجائے کئی سالوں پر تقسیم ہو جائے گی اور مرمت کا معقول انتظام بھی ہو جائے گا۔ ٹینڈر نوٹس اب غیرضروری ہو گئے ہیں۔ ٹھیکیدار براہ راست معلومات لے لیتے ہیں۔ اس لیے ٹینڈر نوٹس محکمہ کی ویب سائٹ پر ڈالے جائیں اور ای میل اور رجسٹرڈ ڈاک سے منظور شدہ ٹھیکیداروں کو بھیجے جائیں۔ اخباروں کو ڈسپلے اشتہار دیے جائیں، جو معلومات افزا ہوں اور سرکاری کاموں کی تشہیر کریں۔ موبائل فون کمپنیوں کے تعاون سے اپنا فون نظام بنائیں، جس میں مرکزی، صوبائی اور مقامی حکومتوں کے تمام تین ملین اہل کار آپس میں مفت بات کر سکیں۔ اپنی بجلی خود پیدا کریں۔ سارے ملک کو سستی بجلی دینے میں وقت لگے گا۔ فی الحال، حکومت اپنی ضرورت کے مطابق سستی ترین بجلی والے بجلی گھر لگائے ۔ ان کی بجلی نیشنل گرڈ میں دے اور اسی ریٹ پر بجلی تمام سرکاری اداروں اور دفتروں کو دی جائے۔ سبک دوشی کی عمر بڑھائیں۔ سرکاری ملازموں کی سبک دوشی کی عمر1950 کی دہائی میں 55 سے 58 سال کی گئی۔ پھر 60 سال ہوئی۔ اب زیادہ لمبی اوسط عمر اور بہتر صحت کی بنا پر زیادہ عرصہ کام کیا جا سکتا ہے ۔ عمر کی حد بڑھانے سے کئی فائدے ہوں گے : پراویڈنٹ فنڈ، گریجویٹی اور پنشن کا نصف پیشگی دینے سے خزانہ پر یک لخت بھاری بوجھ پڑتا ہے ۔ نئی بھرتی کا بوجھ بھی آ جاتا ہے ۔ سبک دوشی کی عمر بڑھانے کی بجائے بہتر ہوگا کہ عمر کی حد ہی ختم کر دی جائے ۔ 60 سال کے بعد ہر ملازم کا ہر سال طبی معائنہ ہو۔ اگر وہ جسمانی اور ذہنی طور پر تندرست ہو تو بدستور کام کرتا رہے ۔ سبک دوشی کی حد ختم ہونے سے ملازمت میں توسیع کے لیے بھاگ دوڑ ختم ہو جائے گی۔ ملازم کو بچوں کی تعلیم اور شادی کے لیے وقت مل جائے گا اور گھر کا خرچ بھی چلتا رہے گا۔ دفاتر اور رہائش گاہیں ایک ساتھ بنائیں۔ دس یا پندرہ سالہ منصوبہ کے تحت دفاتر اور ان میں کام کرنے والے تمام ملازموں کے لیے رہائش گاہیں ایک ساتھ بنائیں۔ اس سے ٹرانسپورٹ کا مسئلہ ختم ہو جائے گا۔ بھاری کرایہ پر عمارتیں لینے کی بھی ضرورت نہیں رہے گی۔ سائلوں کو بھی دفتروں کی تلاش میں شہر میں بھٹکنا نہیں پڑے گا۔ ساری تجویزوں پر عمل سے انتظامی اخراجات نہ صرف کم ہو جائیں گے بلکہ آئندہ بھی قابو میں رہیں گے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں