بڑے اداروں کی نجکاری

مقصد زیادہ اہم ہوتا ہے ، طریق کار نہیں۔ بیمار کو صحت سے غرض ہوتی ہے ، اس سے نہیں کہ علاج کس طرح ہو اور کون کرے ۔ 1960ء کی دہائی میں نور خاں اور اصغر خاں نے پی آئی اے کی بنیاد مضبوط کر کے بلندی کی طرف محوِ پرواز کر دیا۔ میڈیا اور دانشوروں نے توجہ نہ دی۔ جیسا کہ عام رویہ ہے ، گھر کی مرغی دال برابر سمجھی گئی۔ جب امریکی ہفت روزہ، ’’ٹائم‘‘ نے تعریفی مضمون شائع کیا تو ایک دم ہر طرف سے پی آئی اے کی واہ واہ ہونے لگی۔ زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ ایئرلائن کی بہتری پر توجہ کم اور اپنے چہیتوں کو نوازنے پر زیادہ ہو گئی۔ پھر بھرپور لُوٹ مار کا دور آیا۔ سفارش پر نااہل افراد بھرتی کیے جانے لگے ، وہ بھی ضرورت سے کہیں زائد۔ ہر قسم کی خریداری میں کمیشن کے لیے بے تابی ظاہر ہونے لگی۔ ہر شعبہ میں بدعنوانی حاوی ہوگئی۔ جسے اس کا سربراہ بنایا جاتا وہ جلد از جلد زیادہ سے زیادہ مال بنانے کی کوشش کرتا۔ حالات اتنے خراب کر دیے گئے کہ اب نج کاری کے سوا کوئی صورت نظر نہیں آ رہی۔ نج کاری کا صحیح وقت وہ تھا جب پی آئی اے اچھی حالت میں تھی لیکن اس بارے میں کوشش ہی نہ کی گئی۔ حکمرانوں کو سمجھ ہی نہ آئی کہ حکومت کا کام کاروبار کرنا نہیں ہوتا۔ یہی نہیں، انھوں نے فرض کر لیا کہ وہی پی آئی اے کے مالک ہیں‘ اس لیے انھیں اس کی زیادہ سے زیادہ قیمت لینی چاہیے۔ انھوں نے نظرانداز کر دیا کہ ایئرلائن عوام کے پیسہ سے بنائی گئی‘ حکومت تو صرف امین تھی۔ اس کی ذمہ داری اتنی تھی کہ اسے اچھے انداز میں چلایا جائے ۔ زیادہ سے زیادہ قیمت کے انتظار میں حالت خراب تر ہوتی رہی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ قیمت چڑھنے کی بجائے گرتی گئی۔ اب لینے کی بجائے دینے کی نوبت آسکتی ہے۔ یہ سوچنا کوتاہ اندیشی ہوگی کہ حالات سدھار کر نج کاری کی جائے۔ اوّل تو ایسا منتظم ملنا بہت مشکل ہے جو یہ کارنامہ سرانجام دے سکے ۔ اگر مل جائے اور منافع بخش بنا دے تو پھر کیوں نہ اسی کی سربراہی میں ہی ایئر لائن چلتی رہے ؟ نج کاری کیوں کی جائے ؟ دوسرے ، جتنا خرچ ہوگا‘ نج کاری کے بعد لگ بھگ اتنا ہی وصول ہوگا۔ پھر فائدہ؟ مسئلہ کا حل یہ ہے کہ ’’جیسی ہے‘‘ کی بنا پر ہی پی آئی اے کے 26 فی صد حصص کسی پاکستانی کو ایک روپیہ میں دے دیے جائیں۔ (لین دین کے معاہدہ میں قانون کی رو سے رقم کا درج ہونا ضروری ہوتا ہے ، جو کم از کم ایک روپیہ ہوگی۔) ایک روپیہ میں بھی یہ سودا خریدار کے لیے کسی طرح سستا نہیں ہوگا۔ ذرا حساب لگائیں: (الف) اب تک کے تمام قرضے اور واجبات اس کے ذمہ ہوں گے ۔ (ب) تمام جاری اخراجات برداشت کرنے ہوں گے۔ (ج) بہتری لانے کے لیے اپنی طرف سے بھی سرمایہ کاری کرنی ہوگی۔ حکومت کی یہ ساری بچت اس رقم سے کہیں زیادہ ہوگی جو ایئر لائن کی حالت بہتر بنا کر نجکاری سے ملنے کی توقع کی جا سکتی ہے ۔ روز بروز بڑھتے خسارہ سے بھی فوری طور پر چھٹکارا مل جائے گا۔ حالت بہتر بنانے کے لیے بھی اپنی طرف سے کچھ نہیں دینا ہوگا۔ خریدار کو کاروبار کا خسارہ کاروبار ہی سے پورا کرنا ہوگا۔ ایک طرف اخراجات گھٹانے ہوںگے اور دوسری طرف آمدنی بڑھانی ہوگی۔ وہ جو کچھ خرچ کرے گا آمدنی سے کرے گا یا اپنے سرمایہ سے۔ اسے کوئی جہاز، عمارت، زمین یا کوئی اور اثاثہ بیچنے کی اجازت نہ ہو۔ ہوائی جہاز اڑتا رہے تو کمائی دیتا ہے ، کھڑا رہے تو کمائی کھاتا ہے۔ اس لیے سب سے پہلا کام تمام جہازوں کو اُڑنے کے قابل بنانا ہوگا۔ آمدنی بڑھانے کے لیے وہ تمام پروازیں بحال کی جائیں جو بھلے وقتوں میں اُڑا کرتی تھیں۔ اندرونی اور بیرونی کرائے کم کیے جائیں تاکہ ہر پرواز میں خالی سیٹیں کم سے کم ہوں۔ جب راج چوپٹ ہوتا ہے تو بہت سے اخراجات بلاجواز ہونے لگتے ہیں۔ ایسے اخراجات ختم کرنے سے خاصا فرق پڑے گا۔ نہایت حساس مسئلہ ملازموں کا ہوگا۔ ان میں (الف) نااہل اور کام چور ہیں، جو سفارش یا رشوت سے بھرتی ہوئے ، (ب) اہل ہیں لیکن ان کے لیے کام نہیں، اور (ج) اہل ہیں اور ان کے لیے کام پیدا کیا جا سکتا ہے ۔ جن ملازموں کی ضرورت نہیں‘ انھیں یک لخت گولڈن شیک ہینڈ سے فارغ کرنے کی بجائے چھ سے بارہ ماہ کی مہلت دی جائے تاکہ وہ کوئی اور ملازمت یا کام ڈھونڈ سکیں۔ وہ بوجھ تو ہیں لیکن آخر انسان ہیں، ان کے بال بچے ہیں، اور ایک کی تنخواہ پر کئی فراد پلتے ہیں۔ حکومت کو غیرملکی ایئرلائنوں کو پہنچایا گیا بلاجواز فائدہ ختم کرنا ہوگا۔ تسلیم شدہ طریقہ ہے کہ دوسرے ملک پی آئی اے کو اپنے جتنے شہروں کو جانے دیں اور جتنی پروازوں کی اجازت دیں، وہی سہولت جواب میں دی جانی چاہیے۔ دوسرے ملکوں کی ایئر لائنوں کو دیے گئے زائد شہر اور روٹ ختم کرنے ہوں گے ۔ آملہ اور سیانے کی بات کی طرح ایک روپیہ میں نجکاری کا فائدہ بعد میں ظاہر ہوگا۔ جب پی آئی اے کو منافع ہونے لگے گا تو اس میں سے حکومت کو اپنے 74 فی صد حصص پر منافع ملے گا۔ اس طرح حکومت کو منافع ملنے لگے گا اور کوئی درد سر بھی نہیں رہے گا ۔ خسارہ میں چلنے والی دوسری کمپنیوں کے لیے بھی ایسا ہی کیا جا سکتا ہے۔ یہ کوئی انوکھی صورتِ حال نہیں ہوگی۔ پرویز مشرف دور میں بینکوں کی نج کاری کی گئی۔ زیادہ رقم وصول نہ ہوئی۔ لگا کہ گھاٹے کا سودا ہے۔ لیکن جب بینکوں کی حالت بہتر ہوئی تو خریداروں کے حصص کے ساتھ حکومت کے حصص کا منافع بڑھ گیا اور ان کی مالیت بھی۔ اس طرح پیشگی ملنے والی رقم میں کمی کی تلافی ہو گئی۔ حکومت کو بہت اہم فیصلہ یہ کرنا ہوگا کہ خریدار اپنے ملک کا ہو۔ ایک حصہ بھی کسی غیرملکی یا دُہری شہریت والے کو اب یا بعد میں ہرگز نہ دیا جائے ۔ کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی غیرملکی سرمایہ کاروں کو دینے کا نتیجہ ہمارے سب سے بڑے شہر کے باشندے بڑی بری طرح بھگت رہے ہیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں