سود کیسے ختم کیا جا سکتا ہے ؟ (آخری قسط)

سوال:بینکوں کے حصہ داروں کا کیا بنے گا؟ جواب:جب بینکوں نے حصص جاری کیے تو ان کی قیمت بہت کم تھی۔ اگر بازارِ حصص میں قیمت بڑھ گئی تو اس میں ان کا کوئی کمال نہ تھا۔ وہ اب تک وصول کیے گئے منافع کو غنیمت سمجھیں۔ سوال:غیرملکی بینکوں کا کیا ہوگا؟ جواب:غیرملکی بینک صرف منافع کمانے کے لیے یہاں ہیں۔ کئی بینک جا چکے ہیں کیوں کہ انھیں توقع کے مطابق منافع نہ ہوا۔ جو رہ گئے ہیں، وہ بھی چلے جائیں گے تو ہمارے بینک ان کا چھوڑا ہوا کاروبار سنبھال لیں گے ۔ سوال:ہمارے بینکوں کی دوسرے ملکوں میں شاخیں بھی بلا سود بینکاری کریں گی؟ جواب:دوسرے ملکوں میں بلاسود بینکاری کرنے میں کوئی رکاوٹ نہ ہوگی۔ اگر اخراجات نکال کر کچھ بچا پائیں تو صدر دفتر بھیج دیا کریں گے ۔ اگر خرچ اور آمدنی برابر رہیں تو بھی حرج نہیں کیونکہ وہ برآمدات کو فروغ دے رہی ہوں گی۔ ہمارے بینکوں کی دوسرے ملکوں میں بلاسود بینکاری متعارف کرانا بہت بڑی خدمت ہوگی۔ مسلم ہی نہیں، غیر مسلم ملکوں میں بھی بلا سود بینکاری کی ترغیب ملے گی۔ عوام سود کی لعنت ختم کرانے کے لیے اپنی حکوتوں پر زور دیں گے ۔ البتہ ان کی کامیابی کا امکان زیادہ نہیں ہوگا کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام تو چلتا ہی سود پر ہے ۔ سود کھانے والے آسانی سے یہ کمائی نہیں چھوڑیں گے ۔ تاہم ہو سکتا ہے جب عوام کی اکثریت قائل ہو جائے اور ان کے منتخب نمائندے ان کے مطالبہ کے سامنے سر جھکا دیں تو وہاں بھی سود ختم نہیں تو نہایت کم ضرور ہو جائے گا۔ سوال:اگر بینک کے حصہ داروں نے عدالت سے رجوع کر کے موقف اختیار کیا کہ انھیں منافع کے حق سے محروم کیا جا رہا ہے تو کیا ہوگا؟ جواب:حصہ دار اپنے حق میں کوئی ٹھوس دلیل نہیں دے پائیں گے ۔ بینک منافع کما کر ہی انھیں دے سکتا ہے ۔ جب خود بینک کو منافع کی بجائے اخراجات پورے کرنے کے لیے صرف سروس چارج ملے گا تو وہ حصہ داروں کو کیا دے سکے گا؟ بینک اپنی طرف سے بھی شرح سود نہیں بڑھا سکتا کیونکہ بینک دولت پاکستان بنیادی شرح سود طے کرتا ہے ، جس کی بنا پر بینک اپنی شرح طے کرتے ہیں۔ بینک کو صرف اتنا اختیار ہوتا ہے کہ کسے قرض دیں اور کسے نہ دیں۔ پبلک لمیٹڈ کمپنی کے حصہ دار منافع بطور حق نہیں مانگ سکتے ۔ کمپنی پر منحصر ہے کہ وہ منافع میں سے انھیں کچھ دے ۔ کراچی بازار حصص میں جن کمپنیوں کے حصص کی خرید و فروخت کی جاتی ہے ، ان میں سے بیشتر حصہ داروں کو کوئی منافع نہیں ملتا۔ سارے بینک پبلک لمیٹڈ کمپنیاں ہیں: چنانچہ ان پر کوئی پابندی نہیں کہ وہ حصہ داروں کو باقاعدگی سے منافع دیں۔ سوال:اس وقت حصہ دار سالانہ جنرل باڈی میٹنگ میں بینکوں کی انتظامیہ، یعنی ڈائریکٹروں کے بورڈ کا انتخاب کرتے ہیں۔ جب انھیں معلوم ہوگا کہ انھیں آئندہ بینک سے منافع نہیں ملے گا تو وہ جنرل باڈی میٹنگ میں شریک ہی نہیں ہوا کریں گے ۔ پھر انتظامیہ کو کون کنٹرول کرے گا؟ جواب:سالانہ جنرل باڈی میٹنگ تکلف ہی ہوتا ہے ۔ ہزاروں بلکہ بعض اوقات لاکھوں حصہ داروں میں سے چند سو ہی شریک ہوتے ہیں۔ انتخاب بھی رسمی کارروائی ہوتی ہے ۔ جو نام انتظامیہ تجویز کرتی ہے وہی منظور ہو جاتے ہیں۔ نئے نظام میں حصہ داروں کی بجائے بینک کے گاہکوں کا دخل ہوگا اور صحیح معنوں میں ہوگا۔ بینک کی ہر برانچ کے تمام کھاتہ داروں کو ہر ششماہی ایک سوال نامہ بھیجا جائے گا، جس میں ان سے بینک کی خدمات کے بارے میں پوچھا جائے گا، جیسے عملہ کا گاہکوں سے رویہ، چیک کیش کرانے میں لگنے والا وقت، بینک کا ماحول، استفسار کا جواب، وغیرہ۔ سوال نامہ کے آخر میں کھاتہ داروں سے پوچھا جائے گا کہ کیا وہ موجودہ بینک منیجر کے کام سے مطمئن ہیں؟ اگر دو تہائی گاہکوں نے ہاں میں جواب دیا تو تو مینیجر کام کرتا رہے گا۔ ورنہ اسے کھڈے لائن (یعنی کسی کم اہم کام پر) لگا دیا جائے گا ۔ جب مینیجر کی ملازمت کے جاری رہنے کا انحصار گاہکوں کے اطمینان پر ہی ہوگا تو وہ ہمہ وقت ان کی خدمت کرے گا۔ نہ صرف یہ بلکہ عملہ کو بھی ایڑیوں کے بل کھڑا رکھے گا۔ سوال نامہ میں کھاتہ داروں نے جو شکایات درج کی ہوں گی، مینیجران کا فوراً ازالہ کرے گا۔ سوال نامہ تمام گاہکوں کو ڈاک سے براہ راست بھیجا جائے گا۔ جواب بھی براہ راست ایک آزاد اور خود مختار فرم کو وصول ہوں گے ، جو ان کا تجزیہ کرے گی اور بینک کے سربراہ کو رپورٹ دے گی۔ اس طرح، کسی برانچ مینیجر کو معلوم نہیں ہوگا کہ کھاتہ دار اس کی برانچ کی کارکردگی اور خود اس کے بارے میں کیا رائے دے رہے ہیں۔ سوال: اعلیٰ انتظامیہ کا انتخاب کیسے ہوگا؟ جواب: بینک کی اپنی اعلیٰ انتظامیہ برانچ منیجروں کی تائید کی محتاج ہوگی۔ چونکہ برانچ مینیجر ہی ریجن اور صدر دفتر سے رابطہ میں ہوتا ہے ، اس لیے وہی رائے دے سکتا ہے کہ اس کے باس کیسا کام کر رہے ہیں۔ نائب صدر، سینئر نائب صدر، وغیرہ، اپنی کارکردگی کی بنا پر ملازمت میں رہیں گے ۔ آخر میں بینک کا صدر ملک بھر میں بینک کے سارے عملہ سے اعتماد کا ووٹ لے گا۔ جب تک اعتماد کا ووٹ دو تہائی اکثریت سے ملتا رہے گا، وہ کام کرتا رہے گا۔ سوال:چھوٹے بینکوں کا کیا مستقبل ہوگا؟ جواب:سرمایہ داروں نے چھوٹے بینک اپنے فائدہ کے لیے بنائے ہیں۔ جب انھیں کوئی فائدہ نظر نہیں آئے گا تو وہ انھیں بڑے بینکوں کے ہاتھ بیچ دیں گے ۔ اگر بیچ نہ سکے تو بند کر دیں گے ۔ اب تک انھوں نے بہت فائدہ اٹھا لیا ہوگا۔ سوال:عملہ کی کارکردگی کیسے بہتر ہو سکتی ہے ؟ جواب:تمام بینک مشترکہ طور پر سلیکشن بورڈ بنائیں۔ سب اپنی اپنی خالی اسامیوں کی تعداد اسے بتائیں۔ بورڈ عملہ کا انتخاب صرف میرٹ پر کرے ۔ منتخب عملہ کو ایک ہی اکیڈمی میں تربیت دی جائے تاکہ سب کا معیار ایک جیسا ہو۔ تربیت کے دوران ہی ہر بینک کے نمائندے اپنے لیے عملہ چنیں تاکہ وہ تربیت ختم ہوتے ہی کام کرنے لگے ۔ تجویز کردہ طریقہ سے بینکوں سے سود ختم کرنا بہت آسان ہوگا۔ نہ کسی آئینی ترمیم کی ضرورت ہوگی، نہ پارلیمنٹ کی منظوری کی۔ البتہ جن کے مفاد کو نقصان ہوگا، وہ چار دن واویلا کرتے رہیں گے ۔ اتنا تو برداشت کرنا ہوگا۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں