اُردو زبان میں پائوں یا پیروںکے حوالے سے بڑے دلچسپ محاورے موجود ہیں مثلاً پیر وں کی خاک بن جانا، پیر دھو دھو کے پینا، پیر پڑ جانا یا پائوں کی جوتی سمجھنا وغیرہ۔ کسی کے پیر چھو لینا تو اس کو بہت بڑا مرتبہ دینے کے برابر سمجھا جاتا ہے۔ شاعر حضرات نے بھی پائوں خصوصاً نسوانی پیروں کی پائل اور گھنگرو ئوںپر کافی طبع آزمائی کی ہے۔ ہمارے چینی بھائی لیکن ذرا مختلف قسم کے لوگ ٹھہرے ہیں۔ باتیں بہت کرتے ہیں لیکن کام سے زیادہ نہیں۔اسی لئے جب بات پیروں کی ہو تو انہوں نے اسے شاعری کے بجائے اپنے روایتی طر یقہ علاج کا سب سے نمایاں حصہ بنا دیا ہے۔ آپ کے سر میں درد رہتا ہے پیر دبانے سے ٹھیک ہو گا،ہاضمہ ٹھیک سے کام نہیں کر رہا لائیں ذرا ایک انگوٹھا مسل کر دیکھیں، بلڈ پریشر ٹھیک رکھنا ہے ،آئیے ذرا اپنا پیر کا تلوا چیک کروائیں ،اعصابی تھکن کا شکار ہیں تو بس اتارئیے مو زے جوتے اور صوفے پر آنکھیں بند کر کے نیم دراز ہو جائیے ابھی تازہ دم کر دیتے ہیں۔ یوںسمجھیں کہ پورے جسم کے ہر اہم عضو (Organ) کا ایک بٹن آپ کے پیروں تلے لگا ہوا ہے بس ان کو دباتے جائیں اور تکلیفوں کا علاج حاضر ہے۔ بات جتنی آسانی سے لکھ دی گئی ہے اتنی بھی سہل نہیں ۔پیروں کی مالش اور ان پر مخصوص طریقے سے انگلیوں کا دبائو دینا ایک مکمل طریقہء علاج بن چکا ہے جس کو (Reflexology) یعنی حسیات کے ذریعے علاج کاطریقہ کہا جاتا ہے اور اس کے ماہر کو اسی نسبت سے (Reflexoligist) کا نام دیا جاتا ہے۔ اس طریقے کے مطابق آپ کا پیر خصوصاً اس کے تلووں پر آپ کے جسم کے ہر اہم عضو کی حسReflexes) ( موجود ہے اور اگر ان کو صحیح طریقے سے دبایا جائے تویہ ان اعضاء اور جسم کے لئے بہت مفید ثابت ہوسکتے ہیں۔گو کہ جدید میڈیکل سائنس نے اب تک اس کے مختلف تصورات پر اپنی تصدیق کی مہر ثبت نہیں کی لیکن اس کی افادیت اور مقبولیت اپنی جگہ برقرار ہے اور بے شمار لوگ اس روایتی طریقے سے اپنی صحت اور اعصاب کا خیال رکھتے ہیں۔
چین میں علاج یا آرام پہنچانے کے اس طریقے کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے ،تقریباً چار ہزار پہلے اس تصور کو نہ صرف تحریری طور پر لائے جانے کا انکشاف ہوا ہے بلکہ پیروں کے نچلے حصے کے ابتدائی نقشے کی بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ جسم کا کون سا عضو یا حصہ پیروں میں کس جگہ پایا جاتا ہے۔ آج اس پورے چارٹ کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے جس میں ہما رے پورے جسم کا ہر اہم عضو کا تعلق ہمارے پیروں سے جڑا نظر آتا ہے جن کو (Reflexpoints) کہا جاتا ہے بس آسانی کے لئے یہ سمجھ لیں کہ ہمارے اعضاء اگر بجلی کے بلب ہیں تو ان کے بٹن ہما رے پیروں تلے ہیں۔اب یہ طریقہ کام کیسے کرتا ہے اس کے لئے پیچھے بھی ایک دلچسپ فلسفہ موجود ہے۔ قدیم چینی فلسفے کے مطابق ہمارے جسم میں برقی رو کی مانند ایک توانائی دوڑ رہی ہوتی ہے جس کو چھی(Qi) کہا جاتا ہے اور یہ مخصوص راستوں کے ذریعے جسم کے مختلف حصوں کے درمیان رابطوں کاکام کرتی ہے۔ یہ توانائی دو متحارب قوتوں ین(Yin) اور یانگYang) (کے توازن سے قائم رہتی ہے۔ ین اور یانگ چینی روایتی طریقہء علاج میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے ۔اس پیچیدہ موضوع پر فی الحال اتنا سمجھ لینا کافی ہے کہ اس نظرئیے کی رو سے یہ دونوں قوتیں با لکل اسی طرح ہیں جیسے ٹھنڈک کا توڑ حرارت ہو سکتی ہے اور بہترین حل وہ ہے جس میں ٹھنڈاا اور گرم ایک دوسرے پر حاوی ہونے کے بجائے ایک توازن قائم کر لیں۔ چینیوںکے اس تصور کے مطابق جسم کے مختلف اعضاء میں ان دونوں قوتوں کا توازن بگڑنے سے 'چھی‘ کی روانی متاثر ہوتی ہے اور انسانی جسم تکالیف اور امراض کا شکار ہوتا ہے ۔اس توازن کو ٹھیک رکھنے کے لئے پیروں، گردن اور کانوں کے مختلف حصوں پر مخصوص دبائو اور مالش کے ذریعے اس بہائو کورواں رکھا جاتا ہے اور کیونکہ انسانی پیروں تلے ان کے سب سے زیادہ پریشر پوائنٹس موجود ہوتے ہیں،اس لئے پائوں کا مساج اور دبائو اس توازن کو ٹھیک کر کے جسم کو آرام پہنچاتا ہے۔
پیروں کی یہ تھراپی نہ صرف چین بلکہ دنیا بھر میں مقبول ہو رہی ہے۔ یہاں سینکڑوں کی تعداد میں ایسے ہیلتھ تھراپی سینٹر موجود ہیں جہاں تر بیت یافتہ عملہ نہایت مہارت اور مشاقی سے آپ کے پیروں کے پریشر پوائنٹس دباتے ہوئے مالش کر دیتا ہے۔ اس طریقے میں سب سے پہلے پیروں کو کچھ دیر کے لئے گرم پانی کی ایک مخصوص بالٹی میں رکھا جاتا ہے ۔اس پانی میں مختلف نوعیت کر جڑی بوٹی ٹائپ پتے بھی موجود ہوتے ہیں، تقریباً دس منٹ میں جب پیروں کے مسامات کھل جاتے ہیں تو انہیں خشک کر کے ان پر کوئی مخصوص کریم مل کر مالش شروع کر دی جاتی ہے ۔ایک پیر کی مالش کے دوران دوسرے پیر کو گرم تولیے نما کپڑے سے ڈھانپ دیا جاتا ہے۔ اس عمل کے دوران جب انگوٹھوں یا تلووں کے مختلف حصے پر دبائو ڈالا جاتا ہے تو خاصا درد بھی محسوس ہوتا ہے اور کوئی بھی تجربہ کار فرد آپ کو اس بنیاد پر یہ تک بتا سکتا ہے کہ جسم کا کون سا حصہ تکلیف میں ہے یا ٹھیک سے کام نہیں کر رہا۔ اس عمل کے دوران اکثر جگہوں پر مخصوص چینی چائے بھی پیش کی جاتی ہے جس کا مقصد جسم کے اندر خون کے دبائو کو بہتر بناتے ہوئے فاسد چیزوں کو علیحدہ کر دینا ہوتا ہے ۔ اسے آپ ایک طرح کا (Detoxication) کا عمل سمجھیں چائے کے گھونٹ بھریں اوراپنی آنکھیں بند کر کے صوفے پر نیم دراز ہو جائیں۔ بیماریوں اور تکالیف سے بچنے کے علاوہ یہ عمل اعصاب کو پرسکون کرنے لئے بھی بہت مفید ہے۔ وہ لوگ جو کام یا کسی بھی مسئلے کی وجہ سے ذہنی دبائو کا شکار ہوں اس عمل کے نتیجے میں کافی آرام پا تے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ڈنمارک کی بعض کمپنیوں نے اپنے ملازمین کے لئے پیروں کی مالش کے اس طریقے کو استعمال کیا جس سے نہ صرف ان ملازمین کی کارکردگی بھی بہتر ہوئی بلکہ بیماریوں کے سبب لینے والی چھٹیوں کے تعداد میں بھی کمی دیکھنے میں آئی۔ یہ وضاحت ضروری ہے کہ جدید میڈیکل سائنس ان روایتی طریقوں سے مکمل علاج کی تصدیق نہیں کر تی۔چینی یونیورسٹیوں میں روایتی طریقہء علاج کے ڈگری کورسز ہوتے ہیں جو ایک ایم بی بی ایس کی ڈگری کی طرح کئی برسوں تک پڑھائے جاتے ہیں۔ایکو پنکچر کا چینی طریقہء علاج آج پوری دنیا میں مقبول ہے۔
اکثر چینی باشندے جسم میں خون کی روانی کو درست کرنے کے لئے ننگے پیر پتھروں والے فرش پر چلنے کو مفید تصور کرتے ہیں بالکل اسی طرح جیسے ہم لوگ صبح کے وقت تازہ گیلی گھاس پر ننگے پائوں چلتے ہیں۔ اسی طرح روایتی چینی میڈیسن کی دکانوں پر ایسی مخصوص چپلیں (Slippers)بھی دستیاب ہوتی ہیں جن پر ایک خاص ڈیزائن سے چکنے پتھر پیوست ہوتے ہیں جن کو پہن کر چلنے سے وہی دبائو ملتا ہے جیسے پیروں کی مالش کے دوران دیا جاتا ہے۔ اس طرح کے سلپرز اور دیگر مصنوعات فروخت کے لئے عام دستیاب ہیںاور وہ لوگ جو اس طریقے کی افادیت کے قائل ہیں یا تجربہ کرنا چاہتے ہیں ان میں بہت دلچسپی لیتے ہیں۔ یہاں کی ہزاروں سالہ تہذیب اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والی حکمت کے بے شمار نرالے رنگ ہیں جو متاثر بھی کرتے ہیں اور حیران کن بھی ہیں۔پیروں کے تلووں اور انگلیوں کو مروڑ اور مسل کر طبیعت بحال کرنا بھی اسی تہذیب کا تحفہ سمجھئے ،یہ عمل جو بمشکل ایک گھنٹے کا ہوتا ہے اکثر لوگ اپنی تھکن دور کرنے اور ریلیکس ہونے کے لئے روٹین کا حصہ بھی بنا لیتے ہیں۔ ہمارے تجربے کے مطابق دس بیس منٹ گرم پانی میں اپنے پیر ڈبوئیں ،آنکھیں اور ٹی وی بند کرکے کرسی پر دراز ہوجائیں تو طبیعت بحال کرنے کے لئے اتنا بھی کافی ہے ۔ممکن ہے سر کا دبائو پیروں کے راستے خاموشی سے نکل جائے ۔ باقی ایک اطلاع جو عموماً سر درد یا ہاضمے وغیرہ کی دوائوں کے اشتہارات کے آخر میں دی جاتی ہے ذرا ردوبدل کے ساتھ ہم بھی دیتے چلیں کہ طبیعت زیادہ خراب ہو تو پیروں کی مالش سے پہلے ڈاکٹر سے رجوع کریں اور گرم پانی کا برتن بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں۔