شام سے ہی پٹاخوں کی آواز دھیمے سروں میں شروع ہو چکی تھی اور وقفے وقفے سے آسمان رنگ برنگی آتش بازی سے روشن ہوتا رہا۔ اپنے اپارٹمنٹ کے شیشوں کے پیچھے سے یہ منظر بڑا بھلا محسوس ہوا لیکن جیسے ہی رات بارہ بجے کا وقت قریب آتا گیا ایسا محسوس ہونے لگا جیسے ہمارے چاروں طرف رنگین بمباری شروع ہو چکی ہے۔ اتنی شدت اور برق رفتاری سے بلند ہوتے شراروں اور پھل جھڑیوں نے جیسے گنگ کر کے رکھ دیا۔ ایک دو نہیں بلکہ درجنوں مقامات سے ہر دوسرے سیکنڈ پر کوئی شرارہ بلند ہوتا اور پورا ماحول روشنیوں سے سج جاتا۔ بارہ بجے تو ان کی شدت میں بے پناہ تیزی آچکی تھی اور ہم مختلف کمروں میں جا کر اپنے چاروں اطراف میں جاری اس آتش بازی کو ایک چھوٹے بچے کی سی حیرت اور خوشی سے دیکھتے۔ یہ ہمارا نئے سال کی پہلی رات کے جشن سے وہ تعارف تھا جو ہمارے وہم وگمان میں بھی نہ تھا۔ روشنیوں اور پٹاخوں کی دھمال کا یہ مظاہرہ جتنا متاثر کن رہا‘ وہیں آنے والے دنوں میں لوگوں سے بات کر کے اندازہ ہوا کہ ہر کسی کو یہ دھماچوکڑی اتنی نہیں بھاتی کہ رات میں سکون سے سونا محال ہو جائے۔ وہ تو بھلا ہو ہمارے رہائشی کمپائو نڈ کی انتظامیہ کا کہ غیر ملکیوں کی ایک بڑی تعداد کے رہائش پزیر ہونے کی وجہ سے انھوں نے کمپائونڈ کے باہر آتش بازی کی جگہ مخصوص کی تھی تاکہ اس کا شور شرابہ کنٹرول میں رہے ورنہ عام رہائشی بلاکس میں تو سمجھیں جیسے آپ خود پٹاخوں کے اوپر بیٹھے پھلجھڑی بن رہے ہوں۔
چین کا نیا سال یہاں کے ہزارہا برس سے قائم قمری (Lunar)کیلنڈر کے مطابق جنوری کے آخری تاریخوںسے لے کر فروری کے درمیان کی مختلف تاریخوں میں آتا ہے۔ بنیادی طور پر یہ تہوار قدیم قصوں‘ روایات‘ رسم و رواج اور علم فلکیات (Astrology) کا ایک مکمل پیکج ہے جو ہزاروں سال سے چلا آرہا ہے اور رنگ برنگی کہانیوں سے مزین ہو کر ایک فیسٹیول کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ ہر سال ایک جانور کے نام سے منسوب ہوتا ہے جبکہ کل بارہ جانوروں پر مشتمل بارہ سالوں کا ایک چکر ہوتا ہے ۔ یہ چکر چوہے سے شروع ہو کر بیل‘ شیر‘ خرگوش‘ ڈریگن‘ سانپ‘ گھوڑے‘ بکری یا بھیڑ‘بندر‘ مرغے اور کتے سے ہوتا ہوا بالآخر (Pig) پر ختم ہوتا ہے۔ آخری جانور انگریزی میں لکھنے کی وجہ یہ ہے کہ میں ہر قابل اعتراض لفظ انگریزی میں بہت سہولت سے کہہ سکتا ہوں۔ ان تمام جانوروں میں صرف ڈریگن ہی ایک بڑے اژدھے کی طرح کی شکل کا تصوراتی جانور ہے جو چینی کلچر میں کافی اہمیت رکھتا ہے ‘ باقی سب سے تو ہم واقف ہی ہیں ۔ ہر سال ایک جانور سے منسوب ہونے کے باعث اُس سال پیدا ہونے والوں کی خصوصیات اُسی سال کے جانوروں سے قریب تر سمجھی جاتی ہیں۔ اب ہر معاشرے میں جانوروں کی عزت افزائی مختلف طریقوں سے ہوتی ہے مثلاً امریکہ کی ڈیمو کریٹک پارٹی گدھے کے نشان سے جانی جاتی ہے ‘ یہ اعزاز ذرا پاکستان کی کسی سیاسی پارٹی کو تو دے کر دیکھیں‘ انہوں نے کہنا ہے کہ ہمیں کیا اُلو سمجھ رکھا ہے جو کہ عموماً یورپ کے لوگوں میں عقل و دانش کی علامت سمجھا جاتا ہے ۔ اسی طرح اگر کوئی چینی فخر سے یہ بتائے کے وہ چوہے کے سال میں پیدا ہوا ہے توگھبرائیں نہیں اُس کی نظر میں وہ بہت اچھے جانور کے سال میں پیدا ہواہے۔ اس بارنیا شروع ہونے والا سال اس چکر بلکہ گھن چکر کا آٹھواں سال ہو گا جو بھیڑ اوربکری سے منسوب کیا جاتا ہے۔ قدیم چینی زمانوں میں بھیڑ بکری میں کوئی فرق نہ سمجھا جاتا تھا اور اس کے لئے یانگ (Yang) کا لفظ مروج ہے اب یہ آپ کی مرضی ہے کہ بھیڑ کہیں یا بکری بات ایک ہی طرف جائے گی کہ چینی اس سال کو ان جانوروںسے منسوب ہونے کے باعث زیادہ پسند نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک یہ جانور بیچارے سیدھے سادے شریف سے ہوتے ہیں اسی لئے ہر کوئی ان کو ہڑپ کرنے کے لئے تیار رہتا ہے۔ اس سال پیدا ہونے والے بچے نسبتاً کم خوش قسمت ٹھہرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس دوران بچوں کی شرح پیدائش کم ہونے کی توقع ہوتی ہے کیونکہ زیادہ توہم پرست لوگ اپنے بچوں کو بکری یا بھیڑ کی طرح شرمیلا اور شریف نہیں دیکھنا چاہتے۔ شاید اسی لئے ہمارے ہاں بھی عوام کو طنز کا نشانہ بناتے ہوئے بھیڑ بکریاں کہہ دیا جاتا ہے اس اعتبار سے تو یہ ایک عوامی سال بھی ٹھہرتا ہے۔ اسی تاثر کو دور کرنے کے لئے چائنا ڈیلی نے بکری یا بھیڑکے سال میں پیدا ہونے والے بعض لوگوںکے انٹرویو بھی شائع کئے ہیں جو سب ہی کافی کامیاب زندگیاں گزار رہے ہیں اور اپنی زندگیوں میں کوئی ایسی کمی محسوس نہیں کرتے جو بھیڑ اوربکریوں کی وجہ سے پیدا ہوئی ہو۔ جب میں نے اپنے پیدائش کے سال کو چیک کیا تو وہ چینی روایات کے مطابق بیل کا نکلا‘ اب تاریخ پیدائش کے لحاظ سے میرا ستارہ جدی (Capricorn) ہے جس کی علامت پہاڑی بکرا ہوتی ہے سو یہاں ہونے کے باعث میں خود کوبیل اور پہاڑی بکرے کے سینگوں کے درمیان ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کررہا ہوں۔
نئے سال کی رات خاندان کا ایک پرتکلف عشائیہ (Dinner) سب سے اہم سمجھا جاتا ہے جہاں خصوصی طور پر تیار کردہ کھانے اور مشروبات سے لوگ لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اس موقع پر تحائف اور سرخ لفافوں کاتبادلہ ہوتا ہے جن کو ہونگ بائو (Hong bao) کہا جاتا ہے۔ ان لفافوں کو آپ بچوں اور کم عمر لوگوں کی عیدی سمجھیں اس موقعے پر بچے اکثر ایک گانا بھی گا لیتے ہیں جس کا آزاد ترجمہ کریں تو کچھ یوں ہو گا کہ 'نیا سال مبارک ہو اب ذرا لال لفا فہ جلدی سے ہمارے حوالے کردیں‘۔ اس میں موجود رقم اتنی ضرور ہو نی چاہیے کہ لفافہ موٹا لگے اور ویسے بھی چین میں سو کا نوٹ ہی سب سے بڑا ہوتا ہے اس لئے لفافے کو بھاری کرنے کے لئے چند سو کافی ہوتے ہیں اور بالکل ہماری عیدی کی طرح اس میں نوٹ بھی نئے اور کرارے ہوتے ہیں۔ اس موقعے پر بچے کافی تگڑی رقم کی توقع کرتے ہیں اور دینے والے اکثر لوگ اپنی سال بھر کی بچت اس کام میں لے آتے ہیں۔ یہ موقع غیر شادی شدہ نوجوانوں کے لئے بھی بڑی آزمائش بن کر آتا ہے۔ ہر ملنے والا ان لڑکے اور لڑکیوں سے شادی کے متعلق تابڑ توڑ سوالات کر کے مصیبت میں ڈال دیتا ہے۔ بعض نوجوان خصوصاً لڑکیاں تو اس صورت حال سے بچنے کے لئے کوشش کرتی ہیں کہ کوئی بوائے فرینڈ ہی ساتھ لے جائیں بے شک وہ وقتی طور پر ہی ہو۔ عموماً یہاں خاندان سال میں صرف اس ایک ہی موقع پر اکٹھے ہوتے ہیں۔ اس اعتبار سے بڑے اہم خاندانی مسائل بھی اسی دوران زیر بحث آتے ہیں اور میرے اندازے کے مطابق بالکل پاکستانی انداز میں رشتہ داروںکے درمیان جاری سٹیٹس اور دولت کا مقابلہ اور غیبت (Gossip)بھی خوب چلتی ہوگی۔ مثلاً منگ لی تو بڑی اچھی نوکری پر لگ گیا ہے سنا ہے سسر کا ہاتھ ہے ورنہ اتنا تو قابل نہیں ہے یا سو چھن نے جس گورے سے شادی کی تھی وہ چلتی نظر نہیں آرہی ہے۔ کتنا سمجھایا تھا لڑکی کو‘ جلد بازی نہ کرو وغیرہ وغیرہ ۔
دنیا بھر میں آباد چینی نسل کے لوگ جہاں بھی بڑی تعداد میں آباد ہیں یہ سال اسی اہتمام اورجوش وخروش سے منایا جاتا ہے۔ سنگا پور‘ تائیوان‘ ملائشیا‘ انڈونیشیا‘ تھائی لینڈ اور ویتنام سمیت دنیا کے ہر قابل ذکر شہر کے چائنا ٹائونز اس تہوار کو بھرپور طریقے سے مناتے ہیں۔ یوں تو اس نئے سال کی اصل گہما گہمی اس کے آغاز پر ہی ہوتی ہے لیکن یہ جشن نئے سال کی پندرہویں شب کے شاندار لالٹینوں کے فیسٹیول(Lantern Festival) تک جاری رہتا ہے جسے ہم چودہویں کی رات کا جشن بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس دوران رنگ برنگی لالٹینیں گرم غباروں کی طرز پر فضا میں بلند کی جاتی ہیںاور یہ منظر بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس فیسٹیول کو نئے چینی سال کی تقریبات کا رسمی اختتام سمجھا جا سکتا ہے جس کے بعد چھٹیوں اور سیر سپاٹے کا سیزن ختم ہو جاتا ہے ا ور یہ قوم پھر سے کام میں جُت جاتی ہے جس کے لئے یہ اصل میں جانی جاتی ہے۔