دشت تو دشت دریا بھی نہ چھوڑے چینیوں نے

چین کے شمالی علاقے بشمول دارلحکومت بیجنگ‘ حالیہ عشروں میں پانی کی کمیابی اور مستقبل میں شدید قلت کے خطرے سے دوچارہیں۔ ان علاقوں میں پانی کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں ۔ سینکڑوں چھوٹے ندی نالے اور جھیلیں خشک ہو چکی ہیں اور زیر زمین پانی تیزی سے نکالنے کی وجہ سے اس کی سطح بھی خطرناک حد تک نیچے جا رہی ہے۔ چین کا شمالی علاقہ ملک کی کل آبادی کا تقریباً 45فیصد بنتا ہے جبکہ اس میں پانی کے ذخائر صرف19فیصد تک ہیں۔ اس کے مقابلے میں ملک کے جنوبی علاقوں میں پانی کی مقدار اور دریائوں کا بہائو تسلی بخش ہے بلکہ اس قابل ہے کہ اس بحران میں شمالی چین کی مدد کر سکے۔ شمالی علا قوں میں پانی کی قلت کا معاملہ اتنا پرانا ہے کہ چین کے بانی مائو زے تنگ نے آج سے ساٹھ برس قبل ہی اس بات کا اشارہ دے دیا تھا کہ جنوبی علاقوں سے شمال کے لئے پانی حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ چینی ریاست نے مستقبل میں پیدا ہونے والے اس ممکنہ بحران سے نمٹنے کے لئے ایک ایسے منصوبے کا آغاز کیا ہے‘ جسے انجینئرنگ اور تعمیرات کی تاریخ کا عجوبہ قرار دیا جائے تو مبالغہ نہ ہو گا ۔ سادہ الفاظ میں بیان کیا جائے تو ایک ایسا پروجیکٹ شروع کیا گیا ہے‘ جس میں دریائوں سے پانی حاصل کر کے سرنگوں اور نہروں کے ذریعے شمال کے علاقوں اور شہروں تک پہنچایا جائے گا۔ اس پروجیکٹ کا نام ہی جنوب سے شمال کی طرف پانی کی منتقلی یعنی (South to North water diversion project) ہے۔
اس پروجیکٹ کی کل لاگت فی الحال 62 ارب ڈالرکے لگ بھگ ہے‘ جو پاکستانی کرنسی میں 60 کھرب روپے سے اوپر بنتی ہے۔ اندازہ یہ ہے کہ اس سے کہیں زیادہ لاگت آئے گی اور اس لحاظ سے یہ دنیا کی تاریخ کا مہنگا ترین تعمیراتی منصوبہ ہے۔ اس پروجیکٹ میں تین روٹس پر چین کے چار بڑے دریائوں کے پانی کو ہزاروں کلو میٹر کے رقبے سے گزار کر شمالی علاقوں اور شہروں تک پہنچایا جائے گا۔ ان دریائوں میں دنیا کا تیسرا اور چین کا سب سے بڑا دریائے یانگ زی(Yangtze)بھی شامل ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس پانی کی مقدار انگلینڈ کے مشہور زمانہ دریائے تھیمز (Thames) کے پانی جتنی ہو گی۔ ان دریائوں کے پانیوں کے حصول لئے بے حد طاقتور اور بڑی ٹربائنز نصب کی جائیں گی‘ جو ان کے پانی کو کھینچ کر ٹنلز اور کینالوں میں منتقل کریں گی۔ اس منصوبے پر کام شروع ہو چکا ہے اور یہ مرحلہ وار مکمل ہو گا۔ اس کی تکمیل کے لیے برسوں کی مدت درکار ہے۔ اس کے تینوں راستوں یا روٹس پر‘ جو مشرقی‘ وسطی اور مغربی روٹس کہلاتے ہیں‘ ہزاروں کلو میٹر کی کینالز اور ٹنلز کی تعمیر بذات خود ایک بڑا کارنامہ ہو گا۔ اس تعمیر کی وجہ سے متاثرہ لاکھوں لوگوں کو ان کے آبائی علاقوں سے دوسرے علاقوں میں منتقل کیا جائے گا‘ جو ایک اور دشوار مرحلہ ہے‘ لیکن چینی ریاست ان معاملات میں بہت مضبوط ہے۔ بڑے منصوبوں کے نتیجے میں ْمکمل آبادیوں کی منتقلی یہاں کوئی نئی بات نہیں۔ لوگوں کی بڑے پیمانے پر منتقلی کے علاوہ اس منصوبے کے بارے میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے بھی کچھ تحفظات ہیں‘ جو اس نوعیت کے پروجیکٹس میں پیدا ہونا انوکھی بات نہیں۔ منصوبے کی ذمہ دار اتھارٹی ان سب معاملات کو اچھی منصوبہ بندی سے نمٹانا چاہتی ہے اور ساتھ ہی اس پروجیکٹ کے نتیجے میں چین کے آبی مستقبل کو محفوظ بھی بنانا چاہتی ہے۔
چین میں اتنے بڑے بڑے منصوبے بننے اور وقت پر مکمل ہونے کی ایک وجہ غالباً یہاں کا ایک جما عتی نظام (One Party System)بھی ہے۔ یہاں گلیوں‘ محلوں کی صفائی سے لے کر راکٹ خلا میں بھیجنے تک کے سارے ادارے اپنی حدود کے اندر کاموں میں مصروف رہتے ہیں۔ شہروں‘ قصبوں اور دور دراز کے دیہات تک نہایت متحرک مقامی انتظامیہ موجود ہے‘ جو محدود طرز کے انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آتی ہے‘ لیکن ایک ہی پارٹی کی موجودگی کے باعث حکومت اور ریاست کو ایک ہی تصور کیا جا سکتا ہے۔ عام مغربی طرز کی جمہوریت میں‘ جہاں بولنے اور شور مچانے‘ دونوں کی آزادی میسر ہے‘ اس نوعیت کے منصوبے منظور ہونے میں ہی اتنے برس لگ سکتے ہیں‘ جتنے عرصے میں چینی ان کو مکمل کر لیتے ہیں۔ پاکستان کی مثال تو چھو ڑ ہی دیں‘ جہاں کالا باغ ڈیم جیسے منصوبے تنازع کا شکار ہو گئے‘ امریکہ جیسے ملک میں بھی اتنے بڑے منصوبے کا بننا مشکل ہے۔ وہاں بھی ہر ریاست‘ جو اس کی گزر گاہ ہو گی‘ اپنے قو انین اٹھا کر لے آئے گی۔ پاکستان میں تر بیلا اور منگلا ڈیم جیسے منصوبے مکمل ہونے کے نتیجے میں بھی لوگوں کی منتقلی ہوئی تھی۔ ا نگلینڈ میں قیام کے دوران مجھے منگلا کے متاثرہ علاقوں سے یہاں برسوں قبل آنے والے پاکستانی نژاد برطانوی ملے‘ جو کم از کم پاکستان کے مقابلے میں خاصے بہتر معاشی حالات میں رہ رہے تھے۔ ان میں سے چند ایک نے جذباتی انداز میں اپنے آبائی علاقوں کے متاثر ہونے کا ذکر کیا‘ جو یقینا ایک کمیونٹی کی بہت بڑی قربانی ہے لیکن ذرا منگلا ڈیم کے بغیر پاکستان کا تصور کریں ۔ اسی طرح اس چینی منصوبے کے نتیجے میں چند ایک مسائل اور لوگوں کی منتقلی جیسے امتحان تو پیش آئیں گے‘ لیکن اس کے نتیجے میں چالیس پچاس کروڑ لوگ مستقبل میں پانی کی شدید قلت سے بچ سکیں گے۔
یہاں اس بات کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ ابھی چند برس قبل ہی چین نے یہاں کے سب سے بڑے دریا یانگ زی پر ایک عظیم الشان ڈیم مکمل کیا ہے‘ جو (Three Gorges)کے نام سے مشہور ہے۔ اس کی تعمیر پر 180 بلین چینی یوآن کے اخراجات کا اندازہ لگایا گیا تھا اور یہ تقریباً 14 سال کی مدت میں تعمیر ہونے والا دنیا کا سب سے بڑا کنکریٹ کا سٹرکچر سمجھا جاتا ہے۔ اس کی تعمیر کے نتیجے میں دس لاکھ سے زیادہ لوگوں کو دوسری جگہ منتقل کیا گیا اور کئی تاریخی علاقے متاثر ہوئے۔ صرف اس ایک ڈیم سے بائیس ہزار پانچ سو میگا واٹ بجلی پیدا ہوتی ہے‘ جو شاید پاکستان میں بجلی کی مجموعی ضرورت سے بھی زیادہ ہے۔ ہائیڈرو الیکٹرک یعنی پانی کی مدد سے تیار ہونے والی بجلی نہ صرف سستی پڑتی ہے بلکہ اس سے چین کا کوئلے کی بجلی پر سے انحصار بھی کم ہوا ہے؟ جو آلودگی کی ایک بہت بڑی وجہ ہے۔
آج کل پاکستان میں بھی میگا پروجیکٹس کا بڑا چرچا ہے‘ جن میں چین ہمارا پارٹنر ہے۔ ان منصوبوں کی بہت اہمیت ہے‘ جن میں نیلم جہلم ایک بڑا متاثر کن ہائیڈروالیکٹرک منصوبہ ہے۔ اسی طرح گوادر سے کاشغر تک سڑک کی تعمیر بھی اس خطے میں بڑی دور رس تبدیلیاں لے کر آئے گی۔ پاکستان کو ایک اچھے انفراسٹرکچر کی اشد ضرورت ہے اور اس کے لیے اس طرح کے بڑے منصوبے ناگزیر ہیں۔ جہاں ہم چین سے ان معاملات میں مدد اور تعاون حاصل کر رہے ہیں‘ وہیں ایک اوربہت اہم سبق بھی سیکھ لیں تو اچھی بات ہو گی۔ چینیوں نے اپنی حکومت اور انتظام کا دائرہ گلی محلوں تک پھیلا رکھا ہے۔ مقامی حکومتیں عام لوگوں کے روز مرہ کے مسائل دیکھنے کے لئے موجود ہیں کہ گلیاں پختہ ہوں اور گٹر نہ ابلیں۔ بنیادی صحت کے مراکز اور سرکاری سکول بھی چل رہے ہیں۔ ٹرانسپورٹ کا بھی ایک بہتر نظام وجود میں آچکا ہے۔ امن و امان مثالی نہ سہی اور جرائم بھی ہیں لیکن عام آدمی اپنی حفاظت کے لئے حکومت پر اعتماد کر سکتا ہے۔ ہم بے شک بیسیوں بڑے منصوبے بنائیں لیکن اگر لوگوں کے گھروں کے باہر گندا پانی بہتا ہو اور ایک بارش کاروبارِ زندگی معطل کردے یا پھر آگ لگنے پر فائر بریگیڈ ہی بر وقت نہ پہنچ سکے تو پھر میگا پروجیکٹس کی تعریف کے لئے بھی کوئی نہ ملے گا۔ لوگوں کے مقامی مسائل حل کرنے کا چینی انتظام سیکھ لیں اور لوگوں کو ان کے کونسلرز اور مقامی حکومتیں دے دیں تو بڑا فرق پڑے گا۔ لوگوں کے مسئلے حل ہوں یا نہ ہوں‘ کم ازکم انہیں گریبان پکڑنے کے لئے تو کوئی مل جائے گا۔ ہما رے لوگ تو اس پر بھی خوش ہو جاتے ہیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں