قصّہ ایک صنعتی کوہ قا ف کا

ہمار ے دیو ہیکل جھولے کا کیبن بلند ہو رہا تھا اور خوبصورت چنگ چی جھیل کا منظر اور اطراف میں ہرے بھرے شہر کی جدید عمارتیں ایک دلکش پینٹنگ کی صورت میں سامنے آتی جا رہی تھیں۔ شنگھائی سے بمشکل سو کلو میٹر کے فاصلے پر واقع خوبصورت جھیلوں‘ نہروں اور باغات کے شہر ْسوچو (Suzhou) کے فیرس وہیل پارک کے اس بلند قامت جھولے میں جو ایک بڑے پہیئے Wheel) (کی صورت میں تھا ‘ تقریباً تیس منٹ کے چکر نے پورا شہر ہمارے لئے ایک دلکش لینڈ اسکیپ میں تبدیل کر کے رکھ دیا۔ مزے کی بات یہ تھی کہ اس شہر آنے کی اصل وجہ اس کی قدرتی خوبصو رتی دیکھنے سے زیادہ اس کے کامیاب ترین صنعتی زون کا مشاہدہ کرناتھا جسے سْوچو انڈ سٹریل پارک کہا جاتا ہے۔ سچ بات تو یہ ہے کہ کسی صنعتی علاقے کو دیکھنے کا تصور میرے لئے کوئی بہت خوشگوار نہ تھا ‘ ذہن میں وہی دھواں ْاڑاتی فیکٹریوں اور ناقص سڑکوں پر سامان سے لدے بڑے ٹرالر وں کا شور تھا جو عموماً کسی بھی فیکٹری ایریاکے لئے مخصوص ہوتا ہے۔ اتفاق سے ہماری گاڑی سوچو شہر کے جس علاقے سے داخل ہوئی وہ شاید وہاں کا پرانا نواحی علاقہ تھا جو اپنی تنگ دکانوں اور چند بوسیدہ عمارتوں کے باعث کافی مایوس کن لگا لیکن چند ہی منٹ کی ڈرائیو کے بعد جیسے ہی اس شہر کا مشہورانڈسٹریل پارک شروع ہوا تو ایک نئی دنیا سامنے تھی۔ خوبصورت کشادہ سڑکوں اور اطراف کے ہرے بھرے درختوں اور گارڈنز کے درمیان بلند وبالا عمارات ایک اور ہی نقشہ پیش کر رہی تھیں جو کم از کم میرے ذہن میں دور دور تک نہ تھا ۔ ایسا محسوس ہوا جیسے کسی پر فضا گولف کے میدان کو شہر میں تبدیل کر دیا گیا ہے جبکہ حقیقت میں یہ اپنی ہی طرز کا صنعتی علاقہ تھا جس کا خواب چین اور سنگا پور کی لیڈر شپ نے اکیس برس قبل دیکھا تھا۔
چینی قیادت نے جب ملک میں اصلاحات اور معاشی ترقی کے لئے نئی پالیسیاں شروع کیں تو ان کا آغاز کرنے والے چینی لیڈر ڈینگ ژیائو پھنگ نے سنگا پور کے چینی نژاد بانی اور عظیم لیڈر لی کوآن یو کے مشوروں کو بہت اہمیت دی۔ حال ہی میں وفات پانے والے سنگاپور کے اس کرشماتی لیڈر کی شہرت جہاں دنیا بھر میں پھیلی ہوئی تھی وہیں چینی لیڈر شپ نے بھی ان کے تجربات سے فائدہ ْاٹھانے کا فیصلہ کیا۔ شنگھائی آمد سے قبل میں ڈیڑھ برس کا عرصہ سنگا پور میں گزارچکا ہوں اور ملائیشیا کے ایک کونے پر واقع اس چھوٹے سے جزیرہ نما ملک‘ جو درحقیقت ایک شہر پر مشتمل ہے ‘ کی بے مثال ترقی اور خوبیوں کا عینی شاہد ہوں۔ سنگا پو ر میں چینی نژاد باشندوں کی بڑی تعداد آبادہے جو اس سابقہ برطانوی کالونی میں مزدوری اور تجارت کی غرض سے آئے تھے ۔ ان لوگوں نے اپنی محنت‘ کاروباری سمجھ بوجھ اور ذہین قیادت کے باعث اس چھوٹے سے شہر کو ایک مالدار اور ترقی یافتہ ملک میں تبدیل کر دیا۔ چینی لیڈر شپ نے جب سنگا پور ماڈل سے فائدہ ْاٹھانے کے لئے مشورے شروع کئے تو اس کا ایک عملی نتیجہ ْسو چو انڈسٹریل پارک کی شکل میں سامنے آیا۔ اس خوبصورت شہر کو شنگھائی جیسے بڑے کمرشل شہر کے نزدیک ہونے کا فائدہ بھی ہوا اور یوں 1994ء میں سنگاپور کی حکومت نے یہاںایک ماڈل صنعتی شہر بسانے کے لئے چینی حکومت سے باقاعدہ معاہدہ کیا۔ سنگا پوری ماڈل پر بے شمار لٹریچر موجود ہے لیکن اگر اس کو ایک جملے میں سمیٹنے کی کوشش کی جائے تو یہ ماڈل تین بنیادوں پر کھڑا ہے ۔ اہل اور مستعد انتظامیہ کا تقرر‘ بہترین انفراسٹرکچر کی فراہمی اور باصلاحیت لوگوں کو ہر کام میں لازمی ترجیح دینا۔ کہنے میں یہ جملہ بڑا کتابی لگتا ہے لیکن سنگا پور والوںنے اس پر عمل کر کے دکھا یا اور ایک قابل رشک اقتصادی طاقت بن گئے۔
سُوچو انڈسٹریل پارک کی تعمیر دراصل ایک نئے شہر کی تعمیر تھی جس میں سنگاپوریوں کی مہارت ہی نہیں بلکہ بیس ارب ڈالر کی مشتر کہ سر مایہ کاری بھی تھی ۔ اس سپر اسٹار ٹائپ کے شہر میں چھ لاکھ سے زائد لوگوں کے لئے بہترین رہائشی سہولیات ‘ صنعتی اورکمرشل اداروں کا قیام شامل تھا اور اس اعتبار سے یہ ایک بہت بڑا اور منفرد منصوبہ تھا ۔ اس مقصد کے لئے 80 کلو میٹر رقبے کا علاقہ چین اور سنگاپور کے مشترکہ انڈسٹریل پارک کے لئے مختص کیا گیا ۔ چند ہی برس میں تیزی سے انفراسٹرکچر کی تر قی اور انٹرنیشنل کمپنیوں کے لئے سرمایہ کاری کی سہولت نے اس مقام کو سب کی تو جہ کا مر کز بنا دیا۔ تمام تر چیلنجز کے ساتھ اس تخلیقی منصوبے پر کام جاری رہااور آج اس کا شمار چین کے کامیاب ترین انڈسٹریل پارکس میں ہوتا ہے۔ اس خوبصورت شہر میںجو روایتی طور پر باغات اور جھیلوں کا شہر ہے یہ منصوبہ اس انداز میں تعمیر کیا گیا ہے کہ ہزاروں کمپنیوں اور صنعتوں کے ہوتے ہوئے بھی یہ صنعتی علاقے سے زیادہ ایک سیاحتی مقام محسوس ہوتا ہے۔ دنیا کی پانچ سو بہترین کمپنیوں میں سے تقریباً سوکے انڈسٹریل یونٹس اور دفاتر یہاں موجود ہیں جس کے باعث اس شہر میں اربوں ڈالر سالانہ کی کاروباری سر گرمیاں ہوتی ہیں۔ اب اس انڈسٹریل پارک میں چین کے شیئرز 65 فیصد تک پہنچ گئے ہیں جبکہ سنگاپور کی سرمایہ کاری 35 فیصد سے بھی کچھ کم ہی رہ گئی ہے لیکن دونوں حکومتوں کا بھرپور اشتراک جاری ہے۔
دنیا کی تمام کامیاب اقوام اور ان کی قیادت نے ایک بات پر تو اتفاق کر لیا ہے کہ اصل سر مایہ تعلیم یافتہ اور ہنر مند افرادی قوت ہی ہوتی ہے۔ اگر یہ تیار کر لی جائے تو مٹی کو سونا بنایا جا سکتا ہے اور اگر یہ نہ ہو تو قدموں تلے پڑے ہیرے بھی کوئلے کی طرح ہوتے ہیں۔ اس انڈسٹریل پارک کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہاں کا ایک بڑا حصہ چین اور دنیا بھر کے بہترین تعلیمی اداروں کے لئے مخصوص کر دیا گیا ہے۔ اس حصے کو جو دوشو نامی جھیل کے اطراف میں بنایا گیا ہے‘ سائنسی تعلیم اور نئی ایجادات کی تحقیق کے لئے قائم ڈسٹرکٹ کا نام دیا گیا ہے۔ غیر ملکی یونیورسٹیوں اور ریسرچ انسٹیٹیوٹس سمیت 65 کے لگ بھگ بین الا قوامی کارپوریشنز کے منصوبے یہاںجاری ہیں۔ ان اداروں کا مقصد اس شہر میں ریسرچ اور ڈویلپمنٹ کے ذریعے نت نئی ٹیکنالوجیز کی تخلیق اور ترقی کو فروغ دینا ہے۔ اس منصوبے کے تحت اس ڈسٹرکٹ میں آنے والے سالوں میں چار لاکھ پیشہ ورانہ مہارت کے حامل لوگوں کے ساتھ ساتھ ایک لاکھ طلباء کو تیار کرنا ہے جو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اس دوستانہ ماحول میں بھر پور استعمال کر سکیں۔ اس اعتبار سے یہ انڈسٹریل پارک نہ صرف ایک ماڈل صنعتی علاقہ ہے بلکہ مستقبل میں ایجادات کا مر کز بھی بنے گا۔ دنیا کی بہترین کمپنیوں کی قربت میں رہنے والے ذہین طلباء جہاں ان کمپنیوں کے لئے ایک اثاثہ ثابت ہو ں گے وہیں ان اداروں کی موجودگی طلباء کے لئے بھی مواقعوں کی ایک دنیا فراہم کرے گی۔
سوچو شہر میں اپنے قیام کے دوران دنیا کے نامور برانڈز کی کمپنیوں کے نام نظروں سے گزرے۔ ہر طرف منفرد ڈیزائنز کی عمارتیں نظر آئیں جبکہ ایک بڑی تعداد میں بلڈنگز اور صنعتی یونٹس کی تعمیر جاری وساری ہے۔ اس جگہ کے رہائشیوں کی اکثریت دوسرے علاقوں سے ہے جو اپنے ہنر اور تعلیم کے باعث یہاں معقول معاوضوں پر کام کر رہے ہیں۔ جھیل کے نیچے سے ایک طویل سرنگ اس انڈسٹریل پارک کو مر کزی شہر سے ملاتی ہے۔ سُوچو کے روایتی علاقوں سے متصل یہ انڈسٹریل پارک ہر اعتبار سے ترقی یافتہ دنیا کا ایک ماڈل محسوس ہوتا ہے ۔ اکیس برس قبل جنم لینے والے آئیڈئیے پرآج ایک نئی دنیا کھڑی ہے ۔ اس جگہ کو دیکھنے کے دوران اندازہ ہوا کہ جو قومیں ترقی کی ٹھان لیں وہ معجزے برپا کر دیتی ہیں۔ ان منصوبوں میں ہم پاکستانیوں کے سیکھنے کے لئے بھی بہت مواقع ہیں اگر ہماری لیڈر شپ ملک کے طول وعرض خصوصاً ساحلی علاقوں میںانڈسٹریل زونز کی تعمیرپر توجہ دے تو ملک کی معاشی تقدیر بدلی جا سکتی ہے چینی لیڈر ڈینگ ژیائو پھنگ اور سنگاپور کے لیڈر لی کیوآن یو اب موجود نہیں رہے لیکن ان کے فیصلوں اور وژن نے کروڑوں لوگوں کی زندگیاں بدل دی ہیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں