چینی معاشرے کی نپی تُلی روحانیت

اگر آپ کے کان بڑے اور نیچے سے ذرا لمبے ہیں تو یہ بڑی خوش قسمتی کی بات ہے‘ یہی معاملہ بڑی پکوڑے جیسی ناک والوں کا ہے۔ سرخ رنگ بھی نہایت پسندیدہ سمجھا جاتا ہے جو اچھی قسمت لاتا اور بلائوں کو بھگاتا ہے۔ 4 کا عدد بدقسمتی کی علامت ہے اور لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ اس عدد سے بچا جائے اور اگر بات 44 کی ہو تو بعض لوگ اس نمبر کے کمرے ‘ گھریا اس نمبر کی منزل تک سے گریز کرتے ہیں جیسے امریکی 13 کے عدد سے بھاگتے ہیں۔ کاروباری اداروں کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کے پتے اور فون نمبرز میں 8 کا ہندسہ زیادہ ہو کیونکہ یہ جتنا زیادہ ہو اتنا ہی ان کی آمدنی اور خوشحالی کا باعث بنے گا۔ اسی طرح مچھلیوں کی پینٹنگز اور تصاویر کی موجودگی اور شیشے کے جارز میں تیرتی مچھلیاں بھی خوش قسمتی اور خوشحالی کے لئے رکھی جاتی ہیں۔ بعض خاص اقسام کی گولڈ فشز جو چمکدار نارنجی رنگ کی ہوتی ہیں بہت مقبول ہیں کہ ان کو نمایاں جگہ پر رکھنے سے کاروبار چمکتا ہے۔ مخصوص اقسام کی یہ گول مٹول مچھلیاں اتنی مشہورہیں کہ انہیں کہا ہی دولت مند بنانے والی مچھلیاں (get rich fish) جاتا ہے۔ یہ سارے رواج اور توہمات ایک ایسے چینی معاشرے کے ہیں جو شاید دنیا کا سب سے کم مذہبی معاشرہ ہے اور آبادی کا محض دس فیصد کے لگ بھگ حصہ ہی باقاعدہ طور پر اپنے آپ کو کسی مذہب کا ماننے والا سمجھتا ہے۔
کسی بھی مذہب سے انکار اور الحاد کی علمبردار یہ ریاست تہذیبی اعتبار سے ایک نہایت قدیم روایتی معاشرہ ہے جہاں کے لوگ بہت سی روحانی تعلیمات اور طریقوں کے ہزاروں سال سے قائل ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ قدیم چینی تہذیب کا تسلسل ہی ان کا مذہب ہے تو شاید زیادہ غلط نہ ہو گا۔ ہزار ہا سال سے قائم اس تہذیب پر عظیم فلسفی کنفیوشس‘ بدھ مت اور تائو ازم کی تعلیمات کا گہرا اثر ہے ۔ چین اور دنیا بھر میں آباد چینی نسل کے لوگ انہی تعلیمات کے زیر اثر جنم لینے والی روایات پر عمل کرتے ہیں۔ چین میں کمیونسٹ انقلاب کے بعد مذہب کی بہت سختی سے حوصلہ شکنی کی گئی مائو زے تنگ کی رہنمائی میں مذہبی خیالات کو اشرافیہ کا ایک ایسا ہتھیار سمجھا گیا جو لوگوں کے استحصال کے علاوہ کچھ نہیں کرتا۔ اس تحریک کے زیر اثر چینی معاشرے کوہر طرح کے مذہبی اور روحانی اثرات سے پاک محنت کشوں اور عام لوگوں کی ایک ایسی ریاست بنانے کی کوشش کی گئی جہاں مختلف طبقات کا وجود نہ ہو۔ ان کوششوں کا ہی نتیجہ ہے کہ آج بھی چین میں مذہب کا ریاستی معاملات میں کوئی کردار نہیں ہے اور نہ ہی چینیوں کی اکثریت کسی مذہب کو مانتی ہے؛ البتہ ایک قدیم تہذیبی ورثے اور بے شمار روحانی اورمذہبی روایات کی موجودگی میں یہ چیز بھی دلچسپی کا باعث ہے کہ اکثر چینی ان میں سے کچھ طریقوں پر عمل کرنے میں روحانی خوشی محسوس کرتے ہیں۔
اپریل کے مہینے کے آغاز میں ہی ایک عام تعطیل تھی جس کو (Tomb Sweeping Day)یا مفہوم کے اعتبار سے اپنے خاندان کے بزرگوں کی قبروں یا آخری آرام گاہوںپر حاضری کا دن کہہ سکتے ہیں۔ آپ اس کوکسی حد تک مذہب اور روحانیت سے بھی جوڑ سکتے ہیں اورایک روایتی قسم کا قومی تہوار بھی سمجھ سکتے ہیںجو کسی قدیم بادشاہ نے شروع کیا تھا۔ ایک جاننے والے چینی باشندے نے بتایا کہ اس تعطیل میں وہ اپنے خاندان کے بزرگوں کی قبروں پر حاضری دیتے ہیں ‘ ان کی صفائی کر دیتے ہیں ‘ کچھ کھانے پینے کی چیزیں بھی لے جاتے ہیں جو وہاں کھائی بھی جاسکتی ہیں اور قبروں پر بھی رکھ دی جاتی ہیں۔ شاید اسی کی مناسبت سے کہیں پڑھا تھا کہ ایک انگریز نے کسی چینی کو قبر پر چاول کا پیالہ رکھتے دیکھ کر طنزیہ انداز میں پوچھا کہ قبر میں موجود صاحب کب ا ٹھ کر یہ چاول کھائیں گے؟ چینی نے بڑے اطمینان سے جواب دیا کہ اسی وقت کھائیں گے جب تمھاری قبر والا یہ پھول سونگھنے اٹھے گا جو تم رکھ رہے ہو۔
یہاں کی روایتی اورروحانی تعلیمات میں 'تائو ازم‘ (Taoism) کے مذہبی فلسفے کا اثر بہت گہرا محسوس ہوتا ہے جو تقریباً ڈھائی ہزار سال سے چینی معاشرے کو متاثر کرتا چلا آرہا ہے۔ اس کی تعلیمات جو بیک وقت فلسفیانہ بھی ہیں اور روحانی بھی ‘ کم ازکم مجھے تو ایک قدیم انداز کی سائنس محسوس ہوتی ہیں‘ جس میں انسان اور اس کے اردگرد سے ماحول کے تعلق کو ایک باقاعدہ علم کی شکل دے دی گئی ہے۔ ویسے تو اس کی تعلیمات پر مبنی ایک لمبا چوڑا سا فلسفہ موجود ہے جس کو سمجھنے کے لئے ایک عرصہ درکار ہے۔ لیکن آسان الفاظ میں 'تائو ‘ یعنی ' راستہ‘ نامی اس مذہب یا فلسفے میں انسان کی کامیابی اسی صورت میں ہو سکتی ہے جب وہ فطرت یا قدرت کے راستے سے اپنے آپ کو ہم آہنگ کر لے۔ ان تعلیمات کے مطابق انسان کو سکون اورروحانی مسرت اسی وقت حاصل ہو سکتی ہے جب وہ قدرت کے کاموں میں مداخلت نہ کرے یا دوسرے الفاظ میں ایک ایسے بچے کی طرح رہے جو اپنے اردگرد کی چیزوں میں دلچسپی اور خوشی کا سامان ڈھو نڈ لیتا ہے۔ کسی حد تک یہ تعلیمات ہمارے صوفی کلچر سے ملتی جلتی محسوس ہوتی ہیں جو انسانوں کو نیکی اور گناہ گاری کا سرٹیفکیٹ دینے کے بجائے ان کو بتدریج توازن کی طرف لاتی ہیں۔ تائو ازم ایک مذہب سے زیادہ روحانی فلسفہ ہے جس نے چین کے لا دین معاشرے میں روحانیت کو سائنسی بنیاد پر رواج دیا ہے ۔
انہی طریقوںسے جڑی ایک بہت دلچسپ پریکٹس ' فینگ شوئی‘ کہلاتی ہے۔ بنیادی طور پر فینگ شوئی‘ جس کا لفظی مطلب ہوا اور پانی ہے‘ ایک مکمل مکتبۂ فکر (School of thought) ہے۔ یہ ایک ایسا آرٹ بن چکا ہے جس کے ماہرین ایک دلچسپ روحانی حساب کتاب سے ( جی ہاں چینی ہوں اور حساب کتاب نہ کریں یہ ممکن نہیں) آپ کے گھر یا کسی بھی طرح کی عمارت کی جگہ کا انتخاب‘ تعمیر کا طریقہ اور اس میں رکھی جانے والی چیزوں کی مخصوص ترتیب کے حوالے سے مشورے دیتے ہیں۔ اس علم کے مطابق اس طرح اچھی قسمت اور دولت کا حصول ممکن ہے اور مشکلات ومصائب سے بھی بچا جا سکتا ہے۔ اس کے ماہرین یہ تک بتا سکتے ہیں کہ کمرے کے صوفے کس سمت میں رکھے جائیں یا بیڈ روم کا بستر دروازے سے کتنا دورہو وغیرہ وغیرہ۔ یہ روایتی آرٹ‘ جو بہرحال اپنی بنیاد میں ایک فلسفہ ہی ہے‘ اب کافی سائنسی بنیادوں پر ایک پیشے کی شکل اختیار کر گیا ہے اور دنیا بھر میں اپنی مختلف اقسام (Versions)کے ساتھ اسی طرح مقبول ہو رہا ہے جیسے ہندوستان سے نکلی'یوگا‘ کی مشقیں اب ایک انٹرنیشنل برانڈ بن چکی ہیں۔ اگر آپ کو ان باتوں سے ایسا محسوس ہو رہا ہو کہ میں بھی' محبوب آپ کے قدموں میں‘ ٹائپ کے چینی عاملوں کی بالواسطہ (Indirect) تشہیر کر رہا ہوں تو پھریہ بھی بتاتا چلوں کہ سنا گیا ہے کہ ہانگ کانگ کے شہرہء آفاق ڈزنی لینڈ کی تعمیر میں بھی ایک فینگ شوئی ماہر کے بعض مشورے لئے گئے تھے۔ اب بتائیں کہ ان لوگوں کو کسی قسم کی ایڈورٹائزنگ کی کیا ضرورت ہو سکتی ہے جب اتنے بڑے بڑے گاہک موجود ہوں۔
چین میں رہنے کے دوران آپ کو مذہب یا روحانیت سے متعلق بظاہر کوئی ایسی چیز نظر نہیں آئے گی جس کی بنیاد پر آپ چینیوں کو مذہبی قرار دے سکیں۔ ہر معاملہ ایک مخصوص حساب کتاب اور خالصتاً عقلی بنیادوں پر چلتا نظر آئے گا۔ لوگوں کے لئے ان کی تعلیم‘ کیریئر اور اچھا معاش ہی سب سے زیادہ تر جیح پر ہوتا ہے۔ کاموں کی بھاگ دوڑ کے بعد بچ جانے والا وقت یہ لوگ بھی تفریحات میں ہی گزارنا چاہتے ہیں۔ نت نئے فیشن اور اچھے برانڈز کی مصنوعات کے متوالے اور سیلفی اسٹک (Selfie Stick)پر اپنا موبائل لگائے تصویریں کھینچتے یہ باشندے اس زندگی کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں۔ ان کی خوش قسمتی شاید یہ ہے کہ ان کی قدیم ثقافت اور تہذیبی سرمائے نے ان کو روایات‘ قصوں اور روحانی معاملات میں بھی اتنا کچھ ضرور دے رکھا ہے کہ چاہیں تومادی زندگی کے اس سمندر میں روحانیت کے جزیروںپر بھی کچھ وقت گزار سکتے ہیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں