پاکستان میںآج کل چین کا بہت چرچا ہے جس کی وجہ بھی سب کو معلوم ہے‘ لیکن عام چینی لوگ کیسے ہوتے ہیں ؟یہ ایک ارب تیس کروڑ سے بھی زیادہ کا سوال ہے جو اس ملک کی آبادی بنتی ہے۔ چین کی کھربوں روپے کی سرمایہ کاری کے اتنے زیادہ ذکر پر مجھے خیال آیا کہ جس ملک کی اتنی مشہوری ہو رہی ہے اس کی عوامی زندگی کے بارے میں کچھ مزید ذاتی مشاہدات کا ذکر ہو جائے۔ اس ذکر کو چاول کا وہ دانہ ہرگزنہ سمجھئے گا جس سے پوری دیگ کا پتہ لگ چاتا ہے انہیں دانے ہی سمجھئے کیونکہ چینی دیگ کیسی ہے اس کا پتہ چلانا بہت مشکل کام ہے۔ ہمارا سب سے پہلا واسطہ اپنے گھر میں جز وقتی ملازمہ سے پڑا ۔ شنگھائی میں ان کو عموماٌ 'آئی‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے جس کا مطلب خالہ ہے بس یوں سمجھ لیں کہ جیسے ہمارے اکثر گھرانوں میں پرانی اور تجربہ کار ملازمائوں کو ' بْواء‘ کہنے کا رواج ہوتا تھا۔ ہمارے ہاں کام کرنے والی' آئی ‘جو شاید40 سے45 برس کے درمیان ہوگئی‘ ہفتے میں تین روز آکردو گھنٹے تک صفائی کا کام کرتی ہے اور فی گھنٹہ کے حساب سے کْل معاوضہ مہینے کے آخر میں وصول کر تی ہے۔ صبح آٹھ بجے آکر اپنے کام میں جْت جاتی ہے اور وقت ختم ہونے تک کام میں ہی مصروف رہتی ہے ۔ شاید ہی کبھی ایسا موقعہ آیا ہو کہ یہ بتانے کی ضرورت محسوس ہوئی ہو کہ صفائی ناقص کی ہے۔ کام ختم کر کے بعد اپنی الیکٹرک بائیک پر بیٹھ کر اگلے گھر کی طرف روانہ ہو جاتی ہے۔ آج تک نہ اس نے کوئی اضافی پیسے مانگے ہیں اور نہ ہی کام کے دوران کسی مجبوری یا تھکن کا رونا لے کر درمیان میں بیٹھی ہے ۔ اس کی موجودگی کے دوران ہی ہم سب گھر والے اپنے کاموں پر نکل جاتے ہیں اور ہمیں اس کی فکر نہیں ہوتی کہ گھر سے کچھ غائب ہو گا ۔ ان ملازمین کے پاس کام کا باقاعدہ اجازت نامہ یعنی ورک پرمٹ ہوتاہے ۔ میں نے جب کبھی اس کا ذکر پاکستان میں لوگوں سے کیا تو انہوں نے رشک کا اظہار ہی کیا کہ گھریلو ملازمین کے حوالے سے ہمارے لوگ کچھ مطمئن نہیں ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں اس حوالے سے کوئی قانون یا طریقہء کار بھی نہیں اسی لئے کہیں یہ مصیبت کہ ملازم نے چوری کروادی اور کہیں یہ ظلم کہ کسی نے کم عمر گھریلو ملازم یا ملازمہ کو تشدد کا نشانہ بنا ڈالا۔
ٹیکسی ڈرائیور حضرات ذرا آزاد منش ہیں ‘کرایہ میٹر کے حساب سے ہی ہوتا ہے جس کی آٹو میٹک رسید بھی آپ لے سکتے ہیں لیکن بارش اور رش کے اوقات میں ٹیکسیوں کا حصول ایک مشکل کام ہے۔ آپ روکنے کے لئے ہاتھ ہلاتے ہی رہ جاتے ہیں اور بڑی مشکل سے کوئی ترس کھا کر روک لے تو شکر کریں۔ ڈرائیونگ عموماً ٹھیک ہی ہوتی ہے لیکن ہارن بجانے میں تکلف سے کام نہیں لیتے ۔ سیٹ بیلٹ کے قانون پر بھی کم ہی عمل ہوتے دیکھا ہے۔ شنگھائی جیسے جدید شہر میں بھی اکثر ٹرائی سائیکل یعنی تین پہیوں والی سائیکل سوار جو عموماً ہلکا پھلکا کباڑلاد کر چل رہے ہوتے ہیں ٹریفک سگنلز پر جلد بازی سے کام لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہاں مردوں خصوصاً ورکنگ کلاس میں سگریٹ نوشی کا کافی رجحان پایا جاتا ہے جبکہ اس کے بر عکس عورتوں میں بہت کم ہے۔ اجنبیوں سے تعارف میں کم ہی پہل کرتے ہیں لیکن اگر آپ آگے بڑھ کر گرمجوشی سے ملیں تو اکثرخوش ہو جاتے ہیں اس کی بنیادی وجہ شاید زبان کی اجنبیت ہو۔ میرے مشاہدے کے مطابق چینی مسکراتے کم ہیں لیکن اگر ہلکا پھلکا مذاق کیا جائے تو کھل کر ہنستے ہیں۔ اپنے ایک یورپین ساتھی سے جو چینیوں کے روئیے سے نالاں تھا میں نے مذاقاً کہاکہ عام چینی ابھی اتنے مہذب نہیں ہوئے کہ اپنے دلی جذبات چھپا سکیں۔ اگر ناراض ہیں تو اس کا اظہار ناراضگی سے اور خوش ہیں تو دانت نکال کر کریں گے۔ اپنے اصل جذبات چھپا کر چہرے پر مسکر اہٹ رکھنے کا فن یورپینز خصوصاً انگریزوں سے سیکھنا ابھی باقی ہے۔ اسی طرح اگر آپ کسی دکاندار سے مستقل بنیادوں پر سودا خریدیں تو نہایت خوشی سے رعایت ملے گی ہم جس سبزی فروش کے اسٹال سے اکثر خریداری کرتے ہیں وہ آخر میں شاپنگ بیگ میں کچھ نہ کچھ اضافی مرچیں ‘ دھنیا ٹائپ کی سبزی ضرور ڈال دیتی ہے۔ چین میں وفاداری کی بہت قدر ہے اور خصوصاً اگر آپ وفادار گاہک ہوں۔
میں اپنی سائیکل میٹرو ٹرین کے قریب اسٹینڈ پر پارک کرتا ہوں جہاں ایک وسیع پختہ فرش ہے۔ صبح کے وقت اکثر لوگ خصوصاً عمر رسیدہ ریٹائرڈ مرد و خواتین ہلکی پھلکی جسمانی مشقیں اور چہل قدمی کرتے نظر آتے ہیں۔ شام کو اس طرح کی کھلی جگہوں پر مردوں اور عورتوں کے گروپ ہلکی پھلکی چینی موسیقی اور گانوں پر ایک پریڈ کے سے انداز میں رقص کرتے ہیں ۔ شنگھائی اور اس کے قریبی شہروں میں اس کا کئی بار مشاہدہ ہوا۔ ان گروپس میں بھی نسبتاً بڑی عمر کے مرد اور عورتیں شامل ہوتی ہیں جو دھیمے انداز میں اکٹھے رقص کر رہے ہوتے ہیں۔ سمجھیں ایک کمیونٹی کے لوگ جمع ہو کر کچھ دیر لطف اندوز ہوتے ہیں لیکن بالکل اس انداز میں جیسے اسکول کی اسمبلی چل رہی ہو۔ اسی طرح ایک اور دلچسپ جسمانی مشق بہت عام ہے جس میں لوگ تیز تیز الٹے قدموں چلتے ہیں۔ اب جب کے سردی کا زور ٹوٹ گیاہے یہ مناظر زیادہ نظر آتے ہیں۔ ویسے تو شہر کی سڑکیں پانی کے تیز بوچھاڑ والے مخصوص ٹینکروں سے دھلتی نظر آتی ہیں اور صفائی کا عملہ بھی مستعد رہتا ہے لیکن عام لوگ صفائی کے معاملات میں زیادہ نزاکتوں کا خیال نہیں رکھتے۔ پبلک مقامات پر اکثر اوقات لوگ اپنے چھوٹے بچوں کو کسی کونے یا گھاس کے قطعے پر لے جا کر بے تکلفی سے پیشاب کروا دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک بچوں کی یہ ضرورت اتنی اہم ہوتی ہے جس میں دیر نہیں کی جاسکتی۔ شکر ہے کہ بڑے اپنے معاملے میںکچھ صبر کر لیتے ہیں ورنہ معاملہ دلچسپ رخ اختیار کر لے۔
شنگھائی سمیت چین کا مشرقی علاقہ ملک کے ترقی یافتہ اور خوشحال علاقوں میں شمار ہوتا ہے بلکہ اتنا زیادہ جدید اور گلیمرس ہو چکا ہے کہ اب ہالی وڈ کی اکثر فلموں میں شنگھائی کی جھلک نظر آتی ہے۔ ان علاقوں میں غیر ملکیوں کی تعداد بڑھنے کی وجہ سے یہاں کے لوگ تو غیر ملکیوں کو دیکھنے کے عادی ہو گئے ہیں لیکن ایسے علاقے بھی ہیں جہاں کے لوگوں کے لئے غیر ملکی خصوصاً یورپین باشندے بڑی دلچسپی کا باعث ہوتے ہیں۔ بعض اوقات یہ تجربہ بھی ہوا ہے کہ کسی چھوٹے شہر یا قصبے سے آئے ہوئے سیاحوں نے ہم سے باقاعدہ درخواست کر کے ہمارے ساتھ اور خصوصاً ہمارے بیٹے کے ساتھ تصاویر بنوائیں۔ مختلف نقش و نگار کے بچے کو دیکھ کر یہ خاندان بہت خوش ہوتے ہیں۔ پارکوں اور مقامی تفریحی مقامات کے باہر چھوٹے اسٹالز اور سائیکل پر ٹھیلے والے بھی فٹ پاتھ پر براجمان ہو کر کھلونے‘ غبارے اورکھانے پینے کی اشیاء فروخت کرتے ہیں۔ یہاں آپ کو پنجروں میں موجود خرگوشوں سے لے کر بیک وقت سینکڑوں بلبلے بنانے والی پانی کی پلاسٹک پستول سب کچھ ہی مل جاتا ہے۔ مقامی پولیس اور انتظامیہ کے اہلکار رش کے اوقات میں ان لوگوں کو آگے پیچھے کرنے میںمصروف نظر آتے ہیں اور ان وینڈرز اور پولیس میں کبھی تند و تیز گفتگو بھی سنائی دیتی ہے۔ یہاں ایک دلچسپ بات کا ذکر ضروری ہے کہ چینی زبان میں الفاظ کی ادائیگی کا اتار چڑھائو اتنا زیادہ ہے کہ بعض اوقات عام گفتگو کے دوران بھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کوئی بحث چل رہی ہو۔
پچھلے دو برس کے درمیان میں نے کبھی لوگوں کو جسمانی طور پر لڑتے ہوئے نہیں دیکھا؛ البتہ ایک مرتبہ غصے سے بھری ایک عورت ایک مرد کو ٹیکسی سے زبردستی کھینچ کر نکالتے ہوئی دیکھی جب کہ مرد باہر آنے پر تیار نہ تھا‘ یہ منظر عین ٹریفک سگنل کے اسٹاپ پر دیکھ کر تشویش کم ہوئی اور ہنسی زیادہ آئی۔ کم رش کے اوقات میںاگر عوامی قسم کے بازاروں اور مارکیٹوںکا رخ کیا جائے تو دکاندار تاش یا چینی لوڈو ٹائپ کی محفل سجائے بیٹھے ہوں گے جبکہ بعض تھکے ماندے تو کرسیوں پر نیم دراز سوتے بھی مل جائیں گے۔ چین کی عوامی زندگی کی اس ہلکی پھلکی جھلک سے لطف اندوز تو ہوں لیکن یہ نہ سمجھیں یہی سب کچھ ہے یہ قصے تو چلتے رہیں گے جب تک ہم ہیں اور چینی ہیں۔