ارادہ تو تھا چین کے ایک اور شہر کے ذکر کرنے کا‘ لیکن شنگھائی کے شکوے پر کچھ دیر کے لئے وہاںکے قصے کو روک لیتے ہیں۔ شنگھائی کی ناراضی میں بھی وزن ہے کہ سوائے ایک دو مرتبہ تفصیلی ذکر کے اس کا صرف نام ہی استعمال ہورہا ہے کبھی یہاں کے پڑوسی شہروں کا ذکر تو کبھی بیجنگ کی سیریں ۔ بس اب پھر دوبارہ شنگھائی سے ملاقات کر لیتے ہیں جوکر اچی کے جڑواں شہر (Sister City) کابھی درجہ رکھتا ہے۔ دنیا کے کئی شہروں کے ساتھ یہ تعلق رکھنے والا شنگھائی تقریباً تیس برس سے میرے آبائی شہر کراچی کا اعزازی جڑواں شہر ہے لیکن اس دوران دونوں شہروں کے حلیے میں بہت فرق آچکا ہے ۔ ایک نے اپنے آپ کو بنا سنوار لیا ہے اور دوسرے نے بگاڑ لیا ہے۔ سمجھ لیں کہ اگر یہ جڑواں شہرکسی دیسی فلم کی گھسی پٹی کہانی کی طرح ایک میلے کے دوران جدا ہو جانے والی بہنیں ہیں تو پھر کراچی زمانے کے ستم اور حوادث کا شکار ہو گیا جبکہ شنگھائی کو بہترین سر پرست مل گئے ۔حقیقت تو یہ ہے کہ یہاں کے بارے میں میرا بتدائی تاثر بہت اچھا نہ تھا دسمبر کی شدید سردی اور کہر میں جب شنگھائی میں قدم رکھا تو دھند کے سوا کچھ نہ دکھائی دیا ۔ ابتدامیںسردی سے ٹھٹھرنے کے باعث باہر نکلنے کا بھی موقع کم ہی ملا اور رہی سہی کسر چینی زبان سے نا واقفیت نے پوری کر دی۔ لیکن جلد ہی یہ تاثر تبدیل ہونا شروع ہو گیا اور آج جب دو چار دن باہر گزار کر یہاں واپس آتا ہوں تو ہوم سویٹ ہوم والے جذبات ہوتے ہیں۔
شنگھائی کو چین کا سب سے زیادہ مغرب زدہ شہر سمجھا جا سکتا ہے اب یہ آپ کی مرضی ہے کہ اس کو تعریف سمجھ لیں یا تنقیص۔ ایک اہم اور مصروف ترین بندر گاہ ہونے کے باعث یہاں یورپ سمیت دنیا بھر کے لوگوں کی آمد بہت پرانی تاریخ رکھتی ہے۔ شہر کے وسط میں بل کھاتا اور سکون سے بہتا دریا ہوانگ پھو (Huangpu) شہر کو دو قدرتی حصوں میں تقسیم کر تا ہے‘ ایک حصہ پھوشی (Puxi) ہے جبکہ دوسرے کو پھودونگ(Pudong)کہا جاتا ہے۔ دریا کے اطراف کے خوبصورت علاقے کو بند(The Bund) کہا جاتا ہے جو شہر کا مرکزی اورسب سے مشہور علاقہ ہے۔ لفظ 'بند ‘ وہی ہے جو ہم اپنی زبان میں ڈیم کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ ممکن ہے بر صغیر کے مزدوروں نے جو اس کی تعمیر کے لئے گورا صاحب ہندوستان سے لائے تھے یہ نام استعمال کیا ہو۔ چینی میں اس جگہ کو وائی تھان (Waitan)کہتے ہیں۔ اس جگہ کی خوبصورتی اور عمارتوں کو دیکھنے کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ مشہور زمانہ بلند وبالا پرل ٹاور سے پورے شہر کا نظارہ کیا جائے۔ انتہائی بلندی سے نہ صرف بل کھاتے دریا اور اس میں چلتی کشتیوں کو دیکھا جا سکتا ہے بلکہ پورا شہر ہی ایک لینڈ سکیپ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ ٹاور کے ڈیک پر شیشے کا فرش بھی ہے جس پرقدم رکھ کر نیچے دیکھنے سے چکر بھی آسکتے ہیں ۔ اطراف کی بلند وبالا عمارات میں شنگھائی ٹاور کی تعمیر ہونے والی دنیا کی دوسری بلند ترین عمارت بھی سامنے کھڑی مسکرا رہی ہوتی ہے جو جلد ہی مکمل ہو نے والی ہے۔ دبئی کے برج خلیفہ کے بعد یہ دوسری بلند ترین عمارت کا اعزاز حاصل کر لے گی بلکہ اگر بر ج خلیفہ کے مقابلے میں نسبتاً صحت مند شنگھائی ٹاور کو دیکھا جائے تو اس کو بڑا ہی سمجھیں کہ برج خلیفہ تو بلندی پر پہنچنے کے ساتھ ساتھ اتنا باریک ہوجاتا ہے جیسے بادلوں کو سوئی چبھوئی جا رہی ہو۔
شہر کے مرکز میں پیپلز سکوائر کے ارد گرد کئی میوزیم بھی ہیں۔ اربن پلاننگ میوزیم کا دورہ کر کے آپ شہر‘ اس کی تاریخ اور ترقی کے بارے میں محض ایک گھنٹے میں بہت کچھ جان لیتے ہیں۔ ایک پورا فلور شہر کے ماڈل پر مشتمل ہے جس کے اطراف میں چکر لگاتے ہوئے شہر کی ساری عمارات اور سڑکیں ایک منی ایچر (Miniature) کی شکل میں سامنے موجود ہوتی ہیں۔ اس ماڈل کے ساتھ ہی ایک چھوٹے سے ہال میں پورے شہر کا ڈیجیٹل فضائی دورہ بھی کیا جا سکتا ہے ۔گول ہال کی دیوار ایک بڑی سکرین ہے جس کے سامنے سٹیج پر کھڑے ہو جائیں۔ فلم اور کمنٹری چلنا شروع ہوتی ہے۔ آپ منٹوں میں شہر کا فضائی دورہ اس طرح کر لیتے ہیں جیسے ایک تیزاڑن طشتری یا اڑنے والے قالین پر سوار ہوں۔ اس دوران سٹیج کا فلور اس طرح حرکت کرتا ہے کہ اس فضائی دورے کا تاثر مزید گہرا ہو جاتاہے ۔ اس میوزیم میں شہر کی تاریخ‘ پرانے نقشے اور تصاویر سبھی کچھ بڑی نفاست سے محفوظ کیا گیا ہے۔
شنگھائی کی تاریخ رنگا رنگ اوربھرپور ہونے کے ساتھ مصائب کا شکار بھی رہی ہے۔ اس شہر نے مغربیوں اور امریکیوں کی تجارتی اور انتظامی اجارہ داری بھی برداشت کی ہے اور دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپانیوں کا قبضہ اور مظالم بھی سہے ہیں۔ انگریزوں اور فرانسیسیوں نے چینی بادشاہوں کو مشہور زمانہ افیون کی جنگوں میں شکست دینے کے بعد عملاً شنگھائی کی تجارت اور صنعت پر قبضہ کر لیا۔ ان کے علاوہ کئی یورپی اقوام جن میں جرمن اور اطالوی وغیرہ بھی شامل تھے‘ اس شہر میں آبا د رہے۔ ہانگ پھو دریا کے اطراف میں 'بند‘ کا علاقہ ان یورپی ممالک اور امریکیوں کی خو دمختار رہائشی کالونیوں پر مشتمل تھا جو خوبصورت کوٹھیوں اور عمدہ دفاتر سے مزین تھیں۔ ہانگ کانگ شنگھائی بینک کارپوریشن یعنی مشہور زمانہ HSBC) ( بینک کی اولین تاریخی عمارت بھی اسی علاقے میں تعمیر کی گئی تھی ۔بیسویں صدی کے شروع سے لے کر دوسری جنگ عظیم تک یہاں کی ساری رونق ہی ان علاقوں میں تھی ۔ اس وقت کے یورپی اور امریکی باشندوں پر کسی مقامی قانون کا اطلاق نہیں ہوتا تھا۔ سمجھ لیں یہ سارے وی آئی پی چینی اشرافیہ کے ساتھ یہاں کاروبار اور زندگی کے مزے لوٹتے تھے۔ ان آبادیوں میں آج بھی فرانسیسی کالونی جو (French Concession) کے نام سے معروف ہے شہر کا انتہائی با رونق تاریخی علاقہ ہے۔ یہ علاقہ ہر طر ح کے غیر ملکی ریستورانوں‘ بارز اور کیفیز کی وجہ سے ہمہ وقت آباد رہتا ہے۔ یہاں کی پرانی دیدہ زیب تعمیرات جدید شہر کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں۔ بین الا قوامی کمپنیوں‘ دنیا بھر کے قونصل خانوں اور تجارتی اداروں سے وابستہ غیر ملکی افراد اس علاقے کی رونق کا سب سے نمایاں حصہ ہیں۔ اکثر اوقات میں اپنے چندایک اطالوی واقف کاروںکے ہمراہ‘ جن کا مزاج شاید کسی بھی یورپی قوم میں مجھے سب زیادہ قریب محسوس ہوتا ہے‘ اس جگہ کی چہل قدمی کر لیتا ہوں۔ ایک بہت بڑی تعداد میں جاپانی اور کورین بھی شنگھائی کے رہائشی ہیں‘ جو چینیوں سے ملتے جلتے نقوش کے باعث نمایاں غیر ملکی نہیں لگتے۔
یورپیوں کے علاوہ اس شہر نے 1917ء کے روسی انقلاب کے بعد وہاں سے بھاگ کر آنے والے روسی شہریوں کی بھی میزبانی کی۔ جنہوں نے اس دور کے شنگھائی کی نائٹ لائف کو ایک اور ہی دلکش رنگ دے دیا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران اس شہر نے جرمن نازیوں سے جان بچا کر آنے والے یہودیوں کو بھی پناہ دی تھی جس کی یاد میں یہاں ایک (Jewish) میوزیم بھی موجود ہے۔ شنگھائی چین کا ایک خصوصی انتظامی اختیارات والاعلاقہ ہے جو کسی صوبے کا حصہ نہیں۔ چین کے دیگر علاقوں سے کام اور کاروبارکے سلسلے میں آئے باشندوں کو علیحدہ پرمٹ درکار ہوتا ہے جو اس شہر کی آبادی کا بہت بڑا حصہ ہیں ۔مقامی باشندوں کی چینی زبان کا لب و لہجہ بھی منفرد ہے جسے (Shanghainese Dialect) کہا جاتا ہے۔ بے پناہ امیر لوگوں ہوں یادرمیانہ اور نچلا طبقہ شنگھائی کے سب ہی شہری یہاں سے وابستگی پر فخر کرتے ہیں اور اپنے آپ کو بڑی توپ چیز بھی سمجھتے ہیں لیکن باہر سے آنے والوں کی بھی اتنی ہی قدر ہے جن کے دم سے رونق اور کاروبار ہے۔ دنیا میں کوئی بھی شہر کامیاب میگا سٹی نہیں بن سکتا جب تک وہ اپنے بازو ہر طرح کے ٹیلنٹ کے لئے نہیں کھولے گا لیکن ساتھ ہی ان شہروں کو بہت ہی پروفیشنل اور تیز طرار قیادت چاہئیے ہوتی ہے۔ شنگھائی کا مئیر‘ چین کی کمیونسٹ پارٹی کے با اثر ترین لیڈروں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ اس شہر کو سنبھالنا کسی ملک کی قیادت سے کم درجہ نہیں۔اْ مید ہے کہ اب شنگھائی کی شکایت کسی حد تک دور ہوگئی ہو گی‘ گو کہ بہت کچھ بتانا باقی ہے‘ لیکن وہ پھر کبھی سہی اگرشنگھائی نے دوبارہ فرمائش کی تو!