گذشتہ ویک اینڈ کے آغاز پرجمعے کی شام سے چین کے مشرقی ساحلوں بشمول شنگھائی کو ایک سمندری طوفان کا سامنا تھا۔ اس طوفان کو چان ہوم (Chan-Hom) کا نام دیا گیا جس نے چین کے مشرقی صوبوں چی جیانگ‘ فو جیان اور جیانگ سو سمیت شنگھائی پر اثر انداز ہونا تھا‘ چی جیا نگ صوبے کا مشرقی حصہ سب سے زیادہ نشانے پرتھا۔ اس طوفان کے نتیجے میں ان علاقوں میں شدید بارشوں کے ساتھ طوفانی ہوائیں بھی چلنی تھیں۔ شام سے شنگھائی میں موسم نے اپنا رنگ تبدیل کرنا شروع کردیا۔ افطار سے پہلے کچھ دیر سائیکل چلانے کی مشق کے دوران اندازہ ہو گیا کہ اب کچھ ہی دیر میں پیشین گوئی کے مطابق تیز ہوائیں اور بارش کا زور شروع ہونے والا ہے ۔ چینی موسمیات سے متعلق قومی ادارے نے اپنی مکمل معلومات عوام اور متعلقہ اداروں تک پہنچا دی تھیں۔ اس طوفان کے لیول کی شدت کو نہایت بلند قرار دیتے ہوئے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ساحلی علاقوں سے لوگوں کے انخلاء کا بند وبست کیا جا رہا تھا جن کی تعداد دس لاکھ سے بھی زیادہ بتائی گئی ۔شنگھائی شہر کی انتظا میہ نے جمعے اور ہفتے کے روز یہاں سے دیگرساحلی شہروں کے لئے روانہ ہو نے والی ٹرینوں کو منسوخ کر دیا جن میں کئی ہائی اسپیڈ ٹرینیں بھی شامل تھیں۔ میٹرو لائن نمبر 16کی ٹرین جو شنگھائی ' پھودونگ ‘کے نئے علاقے کی طرف چلتی ہے‘ کو ہدایت کی گئی کہ ایک خاص رفتا ر سے زیادہ میٹرو ٹرین نہیں چلائی جاسکتی‘ یہاں تک بتا دیا گیا کہ اگر ہوا کی رفتار 89 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے زیادہ ہوئی تو اس سروس کو معطل کر دیا جائے گا۔ اس طرح سینکڑوں پروازیں جو شاید ایک ہزار تک پہنچ گئی تھیں منسوخ کر دی گئیں۔ شہری معاملات کی وزارت نے چوبیس گھنٹے ریلیف کے اداروں کو الرٹ رہنے کی ہدایت کی اور مستقل الرٹ جاری کرتے رہنے کا بھی حکم دیا۔ شہریوں کو بھی کم از کم 24 سے 72 گھنٹے کے لئے ضروری خوراک کا ذخیرہ کرنے کے لئے کہا گیا۔افطاری کے بعد باہر چلنے والی ہوائوں سے اندازہ ہوا کہ طوفانی بارش بھی متوقع ہے جس نے اگلے چوبیس گھنٹے جاری رہنا تھا ۔ اسی تناظر میںبات راولپنڈی کے نالہ لئی کی بھی کرنی ہے لیکن پہلے اس طوفان کے بارے میں مزید کچھ عرض ہو جائے۔
اس سمندری طوفان کی آمد سے قبل ہی سب سے زیادہ متاثر ہونے والے صوبے چی جیانگ کی انتظامیہ نے ساحلی علاقوں کے لئے وارننگ جاری کرتے ہوئے لوگوں کو گھروں میں رہنے کا حکم دیا ۔'تھائی چو‘ شہر میں ایک لاکھ بیس ہزار لوگ بشمول مقامی حکومت کے اہلکاروں اور پولیس کی چھ ہزار سے زیادہ ٹیمیں تشکیل دی گئیں جن کو ہر طرح کی ایمر جنسی میں تیار رہنا تھا۔ صوبے کے سیلاب اور قحط جیسی قدرتی آفات سے بچائو کے ادارے کے ڈائریکٹر نے اس طوفان کے پہنچنے سے پہلے جن اقدامات کا ذکر کیاوہ بھی پڑھ لیں۔ ڈائریکٹر ہو یائوون کے مطابق 'دوپہر گیارہ بجے تک دو لاکھ تین ہزار پانچ سو چونتیس لوگوں کا انخلاء مکمل کر لیا گیا ہے۔ستائیس ہزار نو سو ستانوے چھوٹے بڑے بحری جہاز اور کشتیاں بندر گاہوں پر باندھ دی گئی ہیں۔ ہم یہ کو شش کر رہے ہیں کہ اس سمندری طوفان(Typhoon) کے نتیجے میں ایک بھی جان کا نقصان نہ ہونے پائے‘ ۔ میں نے جان بوجھ کر تعداد بالکل اتنی ہی تحریر کی ہے جتنی ڈائریکٹر نے بتائی تھی ‘ محض یہ بات ثابت کرنے کے لئے کہ معاملات اس عہدیدار کی کتنی گرفت میں تھے۔
چین کے مشرق اور جنوب مشرق کے ساحلی علاقے سمندری طوفانوں اور شدید بارشوں کی زد میں اکثر رہتے ہیں‘ایک وسیع و عریض رقبے کا ملک ہونے کی وجہ سے طوفان‘ سیلاب‘ شدید برفباری ‘ خشک سالی ‘ لینڈ سلائیڈ سمیت ہر طر ح کی قدرتی آفات یہاں کا رخ کرتی ہیں۔ اس طوفان نے بھی تمام تر تیاریوں کے باوجود متاثرہ علاقوں میں مکانات ‘زرعی زمینوں اور فصلوںکو بہت نقصان پہنچایا ۔ ساحلی شہروں کی بندر گاہوں میں ہونے والی نقل وحمل بھی متاثر ہوئی اور اربوں روپے کا نقصان ہوا ہے ۔ چینی کوئی جادوگر نہیں کہ اتنے بڑے پیمانے پر قدرتی آفت کچھ کہے سنے بغیر نکل جائے لیکن جیسے اس ڈائر یکٹر نے اس اُمید کا اظہار کیا تھا کہ جانی نقصانات سے بچا جا سکے تو یہ مقصد ْانہوں نے اپنی تیاریوں سے حاصل کر لیا۔ 1975 ء میں اسی طرح کے ایک سمندری طوفان اور بارشوں کے نتیجے میں چین میں ایک بڑا بند ٹوٹنے سے دو لاکھ سے زیادہ جانوں کا نقصان بھی ہوا تھا۔ ترقی کرنے والے ممالک تلخ تجربات سے سیکھ کر اپنے اداروں اور سماج دونوں کو اگلی مصیبت اور آفت کے لئے پہلے سے تیار کر لیتے ہیں۔ شنگھائی میں جون کے مہینے میں ہونے والی ایک تین روزہ بارش کا ذکر بھی ہو جائے جو عین رمضان شروع ہونے سے پہلے ہوئی تھی ۔ تین روز تک کی
مسلسل اس بارش نے بھی زندگی کو کافی متاثر کیا لیکن مجھ سمیت کسی کا ایک کام بھی نہ رکا ۔ بعض جگہوں پر پانی بھرگیا تھالیکن نکاسی کا بھی انتظام چلتا رہا ۔ اس شہر میں بجلی کے تار ایسے اسٹینڈرڈ میٹر یل سے بنے ہوتے ہیں کہ کرنٹ نہیں لگ سکتا اور نہ ہی ٹرانسفارمر جواب دے جاتے ہیں۔موجودہ طوفانی ہوائوں نے شہر کے تقریباً تین ہزار درخت گرا دئیے ‘ درختوں کی شاخیں اور پتے ایسے بکھرے ہوئے تھے جیسے خزاں کا موسم آگیا ہو لیکن چند ہی گھنٹوں میں سب صاف ہو چکا تھا۔ گھر کے نزدیک میٹرو اسٹیشن کی طرف جاتے ہوئے میں قطار در قطار ایسے نئے درختوں کو دیکھتا رہا جن کو سیدھے زمین پر پیوست مضبوط ڈنڈوں کے ساتھ باندھا گیا تھا تاکہ ان کی نشوونما سیدھی ہو اور یہ درخت ان طوفانی ہوائوں کو بھی سہہ گئے۔
کراچی میں بارش بہت کم ہوتی ہے لیکن اگر دو چار دن ٹھیک سے برس جائے تو ایک ایڈونچر سے کم نہیں ۔گزرے ہوئے برسوں میںایک نجی ٹی وی چینل میں بحیثیت سینئر پروڈیوسر کام کرنے کے دوران ایک مرتبہ بہت دلچسپ واقعہ پیش آیا۔ بارش گزرنے کے بعد والے روز شام میں ہماری براہ راست ٹر انسمیشن کے انچارج کا ہنگامی فون آیا کہ سات بجے شروع ہونے والی نشریات کی میزبان کی گلی کے کونے تک تو ہماری وین پہنچ چکی ہے لیکن گلی اور گھروں میں گھٹنوں تک پانی جمع ہے اور وہ میزبان اس میں سے گزرنے کو تیار نہیںجو یقینا کھڑے کھڑے آلودہ بھی ہو چکا ہے۔ بہرحال کسی طرح خدا خدا کرکے کوئی انتظام ہوا اور وہ پہنچ گئیں لیکن جس علاقے
کا ذکر ہو رہا ہے وہ کراچی کے پوش ترین علاقوں میں سے ایک تھا جہاں بنگلوں کی قیمت کروڑوں میں ہوتی ہے‘ گلی کو اسٹریٹ ‘ بلاک کو فیز اور شاہراہوںکو بلیوارڈ جیسے نام دئیے جاتے ہیں۔
اب بات نالہ لئی کی ہو ہی جائے ‘ طوفانی ہوائوں اور بارش کے باوجود بجلی اور انٹر نیٹ کام چل رہے تھے لہٰذا پنڈی میں بارش کے نتیجے میں نالہ لئی میں طغیانی اور اس کے نتیجے میں چند ہلاکتوں کی خبریں نظر سے گزریں۔ میرا اس شہر میں آنا جانا اور رشتہ داروں کے ہاں مختصر قیام رہتا ہے لیکن پھر بھی اس شہر سے واقفیت کا دعویٰ نہیں کرسکتا‘ البتہ تیز بارش میں نالہ لئی کے متعلق خبریں اکثر سننے کے باعث یادداشت میں رہ گئی ہیں جہاں ہر سال ہی ایمرجنسی کی کیفیت ہوتی ہے اور وہ طبقہ جو اس کے گرد بغیر کسی احتیاط کے بسا رہتا ہے‘ طغیانی کا شکار ہو جاتا ہے۔ نالہ لئی کو ایک استعارہ سمجھئے۔ ہمارے ملک میں ایمرجنسی کے موقع پر پیشگی تیاری کا معاملہ بہت ناقص اور افراتفری کا شکار نظر آتا ہے اور اسی لئے ایسے ہر موقعے پر جہاں شہری اداروں کو اپنی کارکردگی دکھانی چاہیے وہاں فوج طلب کر لی جاتی ہے۔ ہنگامی حالات سے بچنے کے لئے لوگوں کا سماجی شعور بھی بلند نہیں اور نہ ہی تربیت دینے کا کوئی انتظام نظر آتا ہے۔ابھی نالہ لئی کا استعارہ ہی سوچا تھا کہ ایک خبر یہ چلنا شروع ہو گئی کہ غالباً کراچی کے فائر بریگیڈ کا عملہ بر وقت تنخواہوں سے محروم رہا۔ ہمیں اپنے شہری اداروں کی کارکردگی اور استعداد ہنگامی طور پر بڑھانی ہو گی اگر ان میں واضح بہتری نہ ہوئی تو کسی بھی قسم کی بیرونی مدد یا تعاون ہمیں ترقی پر نہیں ڈال سکتا۔نالہ لئی یا اس جیسے ہزاروں مسئلوں کا مستقل علاج ہم نے کرنا ہے... کیسے کرنا ہے؟ یہ سب کو پتہ ہے بس نیت صاف ہو تو منزل آسان ہو تی ہے ورنہ ہر بارش کے بعد نالہ لئی کے نالے اور لوگوں کی آہ و بکا رہ جاتی ہے۔