ٹھنڈی بوتل ‘ شاپنگ اور سیاحت

پاکستان میں خواتین کے لئے کپڑے بیچنے والے دکانداروں کا یہ مخصوص جملہ کہ باجی یا بہن کے لئے ٹھنڈی بوتل لائو ایک ر پورٹ پڑھنے کے دوران اچانک میرے ذہن میں ْابھرا۔ رپورٹ کے مطابق دنیا کے مشہور ترین شہروں میں معروف برانڈز کے سپر اسٹورز اپنے عملے کو چینی گاہکوں کی ضروریات کے مطابق تربیت دیتے ہیں‘ایک اچھے کاروباری کا پہلا اور آخری پیار ْاس کا گاہک ہی ہوتا ہے۔ دنیا کے مشہور اور چمکتے دمکتے شہروں میں سال کے چند ایک ایسے سیزنز آتے ہیں جب ان کاروباریوں کے 'پیا ‘چینی سیاح اور ان کی بھاری جیبیں ہوتی ہیں۔ پاکستان میں تو خیراب پلوں کے نیچے سے بہت پانی گزر چکا ہے اور مجھے واقعی یہ علم نہیں کہ آج بھی دکاندار اسی طر ح خواتین کے سامنے کپڑوں کے تھان کھولتے ہوئے کسی چھوٹے کو ٹھنڈی بوتل لانے کا کہتے ہیں یا نہیں البتہ آج اپنے بچپن کے زمانے کے اس تجربے کو یاد کرتے ہوئے ان ماہر سیلز مینوں کو داد دینے کا دل چاہتا ہے۔ کتنی محنت اور مہارت سے کپڑوں کا ڈھیر لگاتے ہوئے وہ تذبذب کا شکار خواتین پر ایک چھوٹی سی لیکن نہایت اہم سر مایہ کاری یعنی ٹھنڈی بوتل کی فراخدلانہ پیشکش کرتے تھے‘ ْاس دور میں ایک کولڈ ڈرنک آج کے مقابلے میں پینے کے لئے نسبتاًایک اہم چیز تھی۔ اب جبکہ پاکستان میں بھی زیادہ آمدن والے لوگوں میں مہنگے برانڈز کی شاپنگ کا زور ہے اس لئے شاید اس طر ح کا دلچسپ اور روایتی منظر پاکستان کے ایک مختصر اور مخصوص طبقے میں تو نہ ہو لیکن اکثریت اب بھی خریداری کے لئے روایتی بازار اور دکاندارپر ہی انحصار کرتی ہے۔جہاں تک چین کا 
تعلق ہے تو یہاں ایک ایسا بہت بڑاطبقہ وجود میں آچکا ہے جو دنیا کی سیاحت کے ساتھ ساتھ مقبول ترین برانڈز کی خریداری کے لئے بیرون ملک جانے کو تر جیح دیتا ہے اور یوں لندن‘ پیرس‘ میلان اور نیویارک وغیرہ کے بڑے بڑے اسٹورز بڑی بے چینی سے چینی گاہکوں کا ہاتھ ملتے ہوئے ا نتظار کرتے ہیں۔
چین کے بارے میں بات کسی بھی حوالے سے ہوتو مقدار یا تعداد اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ بعض اوقات غلط فہمی کا بڑا اندیشہ رہتا ہے مثلاً یہاں دنیا کا سب سے تیزی سے دولت مند ہونے والا طبقہ بھی وجود میں آیا ہے اور کروڑوں لوگوں پر مشتمل مڈل کلاس بھی اپنی بہار دکھا رہی ہے۔اب اس تاثر کے ساتھ ہی کروڑوں پر مشتمل نچلا محنت کش طبقہ اور غریب غرباء بھی پائے جاتے ہیں یعنی سب ہی کی تعداد زیادہ ہے اور آخر کیوں نہ ہوں آبادی جو ایک ارب پینتیس کروڑ کے لگ بھگ ٹھہری ۔اتنی آبادی میں دماغ چکرا جاتا ہے کہ اسے امیر لوگوں کا ملک کہیں یا غریب لوگوں کا البتہ یہ طے ہے کہ یہاں کی معاشی طور پر مضبوط ہوتی مڈل اور اپر مڈل کلاس نے اب دنیا کے سیر سپاٹے اور شاپنگ کرنے کی ٹھان لی ہے ۔ایک اندازے کے مطابق اس سال یعنی 2015 ء میں دس کروڑ کے لگ بھگ چینی بیرون ملک سیاحت اور شاپنگ کے لئے جائیںگے جو کسی بھی ملک کے سیاحوں سے زیادہ ہے۔اس معاملے میں انہوں 
نے جرمنی کو پہلی سے دوسری پوزیشن پر دھکیل دیا ہے ۔ میرے لئے تو خیر یہ بھی ایک حیرت انگیز انکشاف تھا کہ جرمن باشندے اس سے پہلے بیرون ملک سیاحت پر پیسہ خرچ کرنے میں نمبر ایک تھے۔ خیر چینی ہوں یا جرمن دونوں نے ہی یہ حق بڑی محنت سے کمایا ہے۔
وہ مقامات جہاں چینی سیاح سب سے زیادہ رخ کرتے ہیں انہوں نے ان سیاحوں کے لئے خصوصی انتظامات کرنا شروع کردئیے ہیں۔ تھائی لینڈ ہو یا جاپان یا پھر یورپ اور امریکہ سب ہی نے یہ بھانپ لیا کہ چینی سیاح تفریح کے ساتھ ناموربرانڈز کی شاپنگ بھی کریں گے جس کی بہت بڑی وجہ چین میں ان اشیاء کا بھاری ٹیکسز اورڈیوٹیوں کے باعث مہنگا ہونا شامل ہے۔آج سے دس برس قبل چینی سیاح زیادہ تر تحائف یا سووئنیر (Souvenirs) کی خریداری کرتے تھے لیکن آج مہنگی اور پر آسائش چیزوں کو بڑی فراخدلی سے خر یدتے ہیں۔یہ نیا خوشحال طبقہ اپنی قوت خرید کا بلا روک ٹوک اظہار کرتا ہے اور لگژری اشیاء کے اسٹورز نہایت مسرت سے ان کے شاپنگ بیگز بھرتے ہیں۔ چینی نیا سال جو ہر سال عموماً فروری کے مہینے میں آتا ہے لندن‘ پیرس‘ٹوکیو‘ نیو یارک‘ میلان اور اس جیسے دوسرے بڑے شہروں کے سپر اسٹورز اور شاپنگ مالز کے لئے عید کا سا سماں پیدا کر دیتا ہے جب لاکھوں چینی سیاح ان جگہوں کا رخ کرتے ہیں۔شاپنگ کے علاوہ یہ سیاح ہوٹلنگ اور تفریحی مقامات کی سیر پر ایک معقول رقم خرچ کرتے ہیں۔نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا نے بھی تیزی سے ْابھرتی ہوئی سیاحوں کی اس نئی نسل کو اپنی طرف متوجہ کرلیا ہے۔ آسٹریلیا چین میںاپنی خصوصی اشتہاری مہم کے ذریعے چینی سیاحوں کو اپنی طرف لبھانے میں کامیاب رہاہے ۔ 
اسی موضوع سے منسلک ایک اہم بات بیرون ملک سیاحت کے لئے جانے والے بعض چینی سیاحوں کا رویہ بھی ہے۔ جہاں یہ سیاح اپنے میزبان ممالک یا جگہوں کے لئے آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ ہیں وہاں سماجی رویوں اور مقامی قانون سے ناواقفیت کے باعث مسائل بھی پیدا کر دیتے ہیں۔ اکثر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ چینی ٹورسٹ جلد بازی میں قطاروں کی پروا نہیں کرتے ۔ ان میں سے بعض لوگوں کے لئے شور شرابا ایک عام سی بات ہے جبکہ بعض لوگ ایسے تفریحی موڈ میں آتے ہیں کہ کسی ضابطے کی پروا کئے بغیر مقامی انتظامیہ سے ْالجھ بھی پڑتے ہیں۔ چینی حکومت جو اپنے لوگوں کے لئے ایک ذمہ دار ڈیڈی جیسا رویہ رکھتی ہے بعض سنجیدہ شکایات پر ایکشن بھی لیتی ہے اور بیرون ملک جانے والے سیاحوں کومہذب رویہ رکھنے کی ہدایات بھی جاری کرتی رہتی ہے۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سیاحت کے دوران ایک آزادانہ اور تفریحی موڈ بھی جنم لیتا ہے جس کے باعث اچھے خاصے سنجیدہ لوگ بچگانہ حرکتیں کر گزرتے ہیں۔ 
ان واقعات سے قطع نظر چینی سیاحوں کے بیرون ملک سفر کرنے میں ہونے والے غیر معمولی اضافے کے باعث سیاحت کی صنعت کو بہت بڑا مالی سہارا ملا ہے۔ اس سے قبل عموماً مغربی یورپ ‘ امریکہ اور جاپان کے سیاح دنیا بھر میں زیادہ نظر آتے تھے لیکن اب چینی چہرے ان سب پر غالب آگئے ہیں۔ اسی نئے رجحان سے فوائد ْاٹھانے کے لئے مختلف ممالک اور ان کے ٹورازم سے متعلق ادارے بھی متحرک ہوگئے ہیں ۔ سیاحت کی بین الاقوامی صنعت سالانہ کھربوں روپے کا کا روبار کرتی ہے جس میں ائیر لائنز ‘ ہوٹلنگ کی انڈسٹری سے لے کر ریسٹورنٹس ‘ شاپنگ سینٹرز سب ہی اپنا حصہ وصول کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ کروڑوں لوگوں کابلا واسطہ معاش بھی اس سے وابستہ ہے۔پاکستان کے مخصوص حالات اور بدامنی کے تصور کی وجہ سے فی الحال تو بڑے پیمانے پرغیر ملکی سیاحوں کی یہاں آمد مشکل ہے لیکن حیرت انگیز طور پر پاکستانیوں نے اندرون ملک خصوصاً گرمیوں میں شمالی اور پہاڑی علاقوں میں اندرونی سیاحت کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ ان مشکل حالات میں بھی لوگوں کا اپنی اپنی استطاعت کے مطابق سیر وتفریح کے لئے نکلنا ایک بہت حوصلہ افزاء بات ہے۔ اگر اگلے چند برسوں میں حالات سدھرتے گئے تو ْامید ہے کہ ہم بھی غیر ملکی سیاحوں بشمول چینی بھائیوں سے اپنے حصے کا منافع حاصل کر سکیں گے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں