جو سمجھے اُس کا بھی بھلا‘ جو نہ سمجھے ......

ہزاروں برس سے شہر کا یہ ایک بہت بڑا گھرانہ ہے جس کے مکینوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ بات سمجھنے کے لئے اس گھر کو ہم لال حویلی کا نام دے دیتے ہیں۔ اس بہت بڑی اور قدیم لال حویلی کے باشندے خاموشی سے اپنے کاموں میں مگن رہنے والے لوگ ہیں‘ ہنر مند‘ محنتی اور تجارت کرنے والے‘ پرانے وقتوں میںحویلی خود اتنی بڑی اورپیچیدہ راہداریوں‘ نہروں اور بے شمار رہائشیوں سے آباد تھی کہ انہیں اپنے پڑوسیوں کے بارے میں کبھی زیادہ سوچنے کا موقعہ ہی نہ ملا۔ بس ہنر مندی ‘ تخلیق اور تجارت ہی ان کا پڑوسیوں سے رابطے کا ذریعہ رہا۔ یہاں کے لوگ ریشم بنتے ‘بہترین چائے کاشت کرتے‘ پتھروں تک کو کاٹ کر ایسا سنوار دیتے کے ان کی شہرت دور دور تک پھیل گئی۔ بنی سنوری حویلی کو دیکھ کرشمالی دروازے کے شرارتی پڑوسیوں کا دل للچایاجو ذرا اونچائی پر رہتے تھے۔ ان پڑوسیوں نے جب لال حویلی میں ایک سمت سے نقب لگانی شروع کی تو اس روز روز کی لڑائی سے بچنے کے لئے یہاںکے ہنر مندمکینوں نے برسوں لگا کر اس طرف ایک دیوار کھڑی کر لی کہ نہ وہ شرارتی یہاں گھس پائیں اور نہ ہی لڑائی ہو۔ شہر میں آج تک کوئی ایسی دیوار نہ بنا سکا‘ ایک طرف کے پڑوس سے نمٹنے کے باوجود نہ صرف آس پاس بلکہ دور کے محلے والوں کو بھی اس گھر کی دولت اور وسائل کی خبر مل گئی تھی۔ سب سے زیادہ دل للچایا دور دراز کے ایک طا قتور محلے والوں کا جن کا کام ہی مال دار اور وسائل والے گھرانوں پر ہاتھ صاف کرنا تھا۔ انہوںنے پہلے تو اس وسیع و عریض گھر کے ارد گرد موجود پڑوسیوں پر قابو پایا اور پھر بالآخر یہاں گھسنے میں کامیاب ہو گئے‘ کیونکہ لال حویلی بہت بڑی اور لوگ بہت زیادہ تھے اس لئے دور کے محلے والوں نے کئی جنگجو گھرانوں کو اپنے ساتھ ملا کر اس گھر کے وسائل پر ہاتھ صاف کرنا شروع کردئیے۔ گھر کے بڑے جو کاشتکاری‘ صنعت وحرفت اور تجارت پر یقین رکھتے تھے لڑائی میں ان جنگجوئوں کا مقابلہ نہ کر پائے۔ خوش قسمتی یہ رہی کہ لٹیروں کے پاس لال حویلی پر مکمل قبضہ کرنے کے وسائل نہ تھے اس لئے قبضہ بس اہم دروازوں اور کمروں تک ہی رہا۔ 
لال حویلی کے مکین جنہوں نے کبھی پڑوس یا دور دراز کے محلوں پر حملوں یا لوٹ مار کرنے کا سوچا بھی نہ تھا اس صورت حال پرکافی سٹپٹائے۔ اپنے گھر کو یوں لٹتا دیکھ کر انہوںنے فیصلہ کیاکہ اب لڑے بغیر گزارا نہیں؛ البتہ اسی لڑائی کے دوران گھر خود ہی تقسیم ہو گیا ایک گروہ تو اپنے اوپر حاوی قوتوں کے ساتھ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر معاملات طے کرنا چاہتا تھا لیکن دوسرا گروہ بیرونی قابضوں سے بہت بدظن تھا اور یہاں سے سب کو نکال کر حویلی کو پھر سے ٹھیک اور آباد کرنا چاہتا تھا۔ یہ دور لال حویلی کے مکینوں پر بڑی آزمائش کا تھا اور ایک چو مکھی لڑائی کے بعد بالآخر بیرونی قوتوں سے چھٹکارا مل گیا۔وہ گروہ جو ہر طرح کی بیرونی مداخلت کے خلاف سخت گیر رویہ رکھتا تھا بالآخر سر خرو ہوا اور یوں اس لٹی پٹی حویلی نے اپنے دروازے سختی سے بند کر کے اپنی حالت بہتر کرنے کی ٹھانی۔ لوٹ مار اور لڑائی سے نڈھال اتنے بڑے مکان اور اس کے کنبے والوں کی بدحالی ٹھیک کرنا کوئی آسان نہ تھا لیکن چونکہ لوگ محنتی اور گھر کے سربراہ مخلص اور پُرعزم تھے اس لئے کام بننا شروع ہو گیا۔ برسوں تک گھر کی اندرونی حالت پر توجہ دینے اور شدید محنت کے بعد یہاں کے مکین آہستہ آہستہ دوبارہ سے نسبتاًخوشحال اور مضبوط ہو گئے۔
اب جب اندرونی معاملات سنبھل گئے ہیں تو حویلی والوں کو اردگرد کے پڑوسیوں اور دور دراز کے محلوں کا بھی خیال آیا۔ اتنے بڑے گھرانے کی ضروریات اور خوشحالی کے لئے باہر سے رابطہ تو ضروری ہے لیکن ماضی کے تلخ تجربات کے باعث لال حویلی کے بڑے بزرگ پھونک پھونک کر قدم رکھ رہے ہیں۔ اپنی مالی حالت درست کرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے گھر کی حفاظت کے لئے بہتر جنگجو بھی تیار کر لئے ہیں تاکہ اب کوئی طاقت کے زور پر نہ گھس پائے کیونکہ یہاں کے مکین ہزاروں برس سے بڑے ماہر کاریگر ہیں اس لئے وہ اپنی تیار کردہ چیزیں نہ صرف پڑوسیوں بلکہ دور دراز کے ان چالاک محلوں تک بھی بیچنا شروع کر چکے ہیں جو ایک زمانے میں یہاں قابض رہے تھے۔ اس نئی سوچ اور تیاری کے ساتھ یہاں کے بڑوں نے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ مل کر محلے کے راستوں اور گزر گاہوں کو ٹھیک کرنے کی ٹھانی۔ لال حویلی والوں کے اپنے گنجان محلے کے اکثر پڑوسیوں سے تو تعلقات بہت اچھے ہو گئے ہیںاور پڑوسی بھی ہر طرح سے ساتھ دینے پر آمادہ ہیں؛ البتہ کچھ پڑوسی خصوصاٌ ایک قابل ذکر گھرانہ جسے ہم درمیانی زرد حویلی بھی پکار سکتے ہیں محلے کے معاملات میں اپنی حیثیت سے بڑھ کر مقام کا متمنی ہے۔ لال حویلی کے بڑوں کو یہ بات سمجھ آچکی ہے کہ اب وہ اتنے مضبوط ہو چکے ہیں کہ لڑائی میں پڑے بغیر بھی اپنی اشیاء اورتجارت کے ذریعے سب کو لبھا سکتے ہیں۔ وہ اس نسبتاً ہٹ دھرم پڑوسی کو بھی سمجھارہے ہیں کہ اکڑ یا لڑکر تو تمھیں کچھ ملنے والا نہیں البتہ مل بانٹ کر کھایا پیا ضرور جاسکتا ہے‘لگتا ہے زرد حویلی کے نودولتیوں کو یہ بات کچھ کچھ سمجھ تو آئی ہے لیکن پوری طرح ہضم نہیں ہوئی ہے۔ سب سے دلچسپ معاملہ ایک ایسے نسبتاً چھوٹے پڑوسی کے ساتھ ہے جو لال حویلی کے مشکل دنوں میں نہ صرف اس کے ساتھ کھڑا رہا بلکہ اس دوران باقی شہر سے رابطے کا ذریعہ بھی تھا۔ حویلی والوںنے اس چھوٹے پڑوسی پر خاص نظر کرم کیا اور اس کو اپنا خصوصی پارٹنر بنا لیا ہے ۔ چھوٹا پڑوسی باصلاحیت تو بہت ہے لیکن اس کے بڑے اپنے گھر والوں کو سبز باغ دکھا نے کے ماہر ہیںجس کی وجہ سے یہ کافی مشکلات کا شکار رہتا ہے ‘ بہرحال اس نئے اعزازپریہ پڑوسی پھولا نہیں سما تا۔ سبز باغ دیکھنے والے اس گھر کے اکثر مکین لال حویلی سے ملنے والی چیزیں دکھا کر زرد حویلی والوں کو خوب چڑاتے بھی ہیں۔
ہزاروں برس سے قائم لال حویلی اور اس کے چلانے والے زمانے کی ساری آزما ئشیں سہنے کے بعد کافی دانشمند ہو چکے ہیں۔ یہاں کے بڑوں کو پتہ ہے کہ اپنا گھر چاہے کتنا ہی شاندار اور خوبصورت کیوں نہ ہو ایک بارونق اور پر امن محلے کے بغیر بے کار ہوتا ہے۔ چند ایک حاسد پڑوسیوں کے علاوہ سب ہی لال حویلی کے منصوبوںسے خوش ہیںاور اپنے ارد گرد کی سڑکوں ‘پلوں اور نہروں کی تعمیر کے نتیجے میں مالی آسودگی اور منافعے کے حصہ دار بننا چاہتے ہیں۔جہاں تک دور دراز کے محلے والے ہیں تو وہ لال حویلی کی خوشحالی ‘ ترقی اور دفاع کے لئے رکھے جنگجو ئوں سے کوئی بہت زیادہ خوش نہیں لیکن کیا کر یں ان کے اپنے گھر والے اس حویلی کی بنی ہوئی چیزوں کے دیوانے ہیں ۔ ویسے بھی حویلی کے مکینوں کی دولت نے پورے شہر میں رونق لگا دی ہے اور سب ہی اس بہتی گنگا میں نہانا چاہتے ہیں۔ بظاہر اس آئیڈیل صورت حال کے باوجود اصل مسئلہ جو آگے رنگ دکھائے گا وہ یہ ہے کہ شہر کا سب سے با اثر گھر کون بننے والا ہے۔ گو کہ لال حویلی والے یہ کہہ چکے ہیں کہ ان کا لینا دینا صرف تجارت میں اور محلے والوں کے ساتھ مل کر خوشحالی حاصل کرنا ہے لیکن شہر کاسب سے بڑا گھرانہ جسے دو نہروں کے بیچ واقع ستاروں والی کوٹھی کہا جاتا ہے ‘کچھ خفا خفا سا ہے۔ لال حویلی والوں نے پورے شہر میں اپنی تجارت اس طر ح پھیلا دی ہے کہ کوئی بھی دنگا فساد نہیں چاہتا۔ اس کے بڑوں کا کہنا ہے کہ ہزاروں برس کی تاریخ والی لال حویلی ہمیشہ سے ہنرمندی ‘تجارت اور ثقافت کو تر جیح دیتی آئی ہے اور اب بھی اس کے یہی ارادے ہیں۔ستاروں کی کوٹھی والا امیر اور مغرورگھرانہ اکثر زرد حویلی والوں یا چند اور پڑوسیوں کو لال حویلی کے خلاف اُکساتا رہتا ہے ۔ سب سے مزے میں تو سبز باغ والا دوست پڑوسی ہے جو لال حویلی سے ملنے والی موٹر سائیکل پورے محلے میں بغیر سائلنسر کے چلاتا پھرتا ہے۔اس سارے قصے سے ہم نے تو بس یہ سیکھا ہے کہ اچھا وقت صرف صبر‘ ہنر اور محنت سے ہی واپس آسکتا ہے ورنہ تو اسی شہر میں ماضی کے بہت سے محل کھنڈر بنے پڑے ہیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں