چینی نسل کے لوگ ہوں یا جاپانی اور کورین پہلی نظر میں دیکھ کر ان کی قومیت کا اندازہ لگانا ایک دشوار کام ہوتا ہے۔ میری چینی زبان کی کلاس میں ایک جاپانی ہم جماعت نے ایک موقع پر چینی اور جاپانی شکلوں کے درمیان فرق کی وضاحت کے لئے آنکھوں کی بناوٹ کے چند باریک فرق سمجھانے کی کوشش کی تو کچھ خاص پلے نہ پڑا۔ کون چینی ہے اور کون جاپانی یا کورین یہ کام ہم انہی پر چھو ڑ دیتے ہیں‘ البتہ میں اب یہاںکچھ عرصہ گزارنے اورجاپانی زبان سے معمولی آشنائی کے نتیجے میں کسی حد تک ان قوموں میں فرق کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہوں۔ شنگھائی کا ایک علاقہ کثیر تعداد میں جاپانی اور کورین آبادی کے باعث مشہور ہے۔ جاپانی کھانوںخصوصاً 'سو شی‘ کی روایت پوری دنیا کی طرح یہاں بھی بے حد مقبول ہے۔ اسی طرح مشہور زمانہ جاپانی شاپنگ مالز 'تاکا شمایا‘ شنگھائی کے مالدار طبقے کے لئے خریداری کی پسندیدہ جگہوں میں سے ایک ہے۔ جاپانی ہیئر سیلونز بھی اپنی کوالٹی اور اسٹائل کے باعث یہاں کافی معروف ہیں ۔ بہت زیادہ برس نہیں بیتے کہ چین نے دنیا کی دوسری بڑی معیشت کا اعزاز جاپان کو تیسرے نمبر پر دھکیل کر حاصل کیا ہے ۔ آج چین اور جاپان کے درمیان بہت بڑے پیمانے پر تجارت ہورہی ہے جس کی مالیت کھربوں روپے تک جا پہنچتی ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان فاصلہ بھی کچھ زیادہ نہیں‘ بیجنگ سے اڑنے والا جہاز پونے تین گھنٹے میں مشرقی چین کا سمندر عبور کرتے ہوئے جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو جااترتا ہے۔ان تمام اچھی سی بے ضرر باتوںکے باوجود چین اور جاپان کے لوگوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لئے بڑی کسک اور نا پسندیدگی بھی پائی جاتی ہے‘ خصوصاً چینی قوم اس معاملے میں بڑی حساس ہے‘ جس کا پس منظر سات دہائیاںقبل کا وہ خونیں دورہے جب جاپان چین کے ایک بڑے حصے پر قابض ہو گیاتھا ۔
دنیا نے 1937ء سے 1945ء کے آٹھ برس جیسا وحشت انگیز دورشاید ہی کبھی دیکھا ہو۔ ایک طرف یورپ میں جرمنی اور دیگر ممالک کے درمیان آگ اور خون کے شعلے بھڑکے تو دوسری طرف جاپان‘ جو اس دور میں خطے کی ایک مضبوط جنگی مشین بن چکا تھا‘ علاقائی طاقت بننے چل نکلا۔ مغربی میڈیا اور فلموں کی مہر بانی سے ہمیں یورپ‘ نازی جرمنی اور ہٹلر کے بارے میں تو بہت ڈرامائی معلومات مل گئیں‘لیکن اسی جنگ کا ایک تسلسل جو چین اور جاپان کے درمیان لڑا گیا نسبتاً کم لوگوں کے علم میںہے۔ چین‘ جو اس دور میں اندرونی خلفشار کا شکار دفاعی اعتبار سے ایک کمزور اور بکھرا ہوا ملک تھا‘مضبوط جاپانی شاہی افواج کا ہدف ٹھہرا۔ مزید وسائل اور زمین کی خواہش میں جاپانی افواج چین کی سر زمین میں داخل ہو گئیں جس کا اولین اہم محاذ شنگھائی بھی بنا ۔ چین کی قوم پرست حکومت‘ جسے ملک کے اندر پہلے ہی کمیونسٹوں کے مشکل چیلنج کا سامنا تھا ‘جاپانی جارحیت کے آگے بڑی مشکلات میں گھری نظر آئی۔ شنگھائی پر قبضے کے لئے جاپانیوں کو اپنی بر تر فوجی صلاحیتوں کے باوجود بہت سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور یہاں پر قبضہ‘ جسے وہ چند دنوں کی بات سمجھتے تھے‘ مہینوں میں جا کر ہوا۔ اسی طرح مشرقی اور شمال مشرقی چین کے کئی شہر بشمول اس وقت کا چینی دارالحکومت نان کھنگ(آج کا نانجنگ شہر) جاپانی افواج کے قبضے میں چلے گئے۔نانجنگ میں قابض افواج کے ہاتھوں لاکھوں افراد محض چھ سات ہفتوں میں مارے گئے۔ اس شہر میں خونریزی‘ لوٹ مار اور آبرو ریزی کے واقعات بہت بڑے پیمانے پر ہوئے۔ نانجنگ کا قتل عام ‘ چین اور جاپان کے تلخ ماضی کی ایک ْدکھتی نشانی ہے ۔اگرچہ جاپان میں ایک محدود طبقہ آج بھی اتنے بڑے پیمانے پر قتل و غارت کے وقوع پذیر ہونے کا ہی انکاری ہیـ۔حیرت ہوتی ہے کہ آج کے دور کی اتنی مہذب ‘ نرم خو اور محنتی جاپانی قوم کی شاہی افواج پر ایسی کیا وحشت طاری ہو گئی تھی جو اس نے اتنی بربریت کا مظاہرہ کیا‘لیکن پھر خیال آتا ہے کہ مسلسل جنگ وجدل اچھے اچھوں کے حواس چھین لیتی ہے۔
جاپانی قبضے کے خلاف چیانگ کائی شیک کے زیر قیادت چینی حکومتی افواج اور مائو زے تنگ کی کمیونسٹ ریڈ آرمی نے وقتی طور پر آپس کی لڑائی بندکر کے بڑے خطرے یعنی جاپانیوں کے ساتھ ایک طویل اور تھکا دینے والی جنگ شروع کی۔ مختلف شہروں پر قابض جاپانی جب چین کے اندرونی علاقوں کا رخ کرتے تو یہ مسلح گروہ چھاپہ مار کارروائیوں‘ جسے عرف عام میں گوریلا جنگ بھی کہا جا تاہے‘ کے ذریعے ان کی فوج کو نقصان پہنچاتے۔ لڑنے کی اس تکنیک کا بنیادی نکتہ وسیع وعریض اندرونی علاقوں میں دشمن کو تھکا کر بیزار اور ان کے حوصلے پست کر ناتھا۔ اسی دوران عالمی قوتوں کی توجہ بھی چینیوں کی اس جاندار مزاحمت پر مرکوز ہوئی۔ آخر جاپان نازی جرمنی کا بھی تو اتحادی تھا ۔ اگرچہ جاپانی‘چین کے اندرونی علاقوں میں ایک طویل اوربے نتیجہ جنگ لڑ رہے تھے لیکن دوسری طرف وہ برما تک پہنچ گئے تھے اور اس وقت ہندوستان کے بر طانوی آقائوں کو ایسا لگتا تھا کہ سنگا پور اور ہانگ کانگ کی طرح کہیں جاپانی کلکتہ پر بھی قابض نہ ہو جائیں۔ اسی سوچ کے تحت چینی مزاحمت کو کسی حد تک بیرونی مدد ملنی شروع ہوئی جو ناکافی اور غیر مربوط تھی۔جب جاپانیوں کو چین کے اندر پیش قدمی میں مشکل ہوئی تو انہوں نے رد عمل میں عام شہریوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے اور لوٹ مار میں اضافہ کردیا۔ اس موقع پر محسوس یہ ہوتا تھا کہ جاپانی افواج پر ان کی ملٹری کمانڈکا اثر کمزور پڑ گیا ہے اور مقامی فوجی کمانڈرز وار لارڈز کا سا کردار اختیار کر چکے ہیں۔ بہرحال جاپان اپنی ملٹری کی ساری قوت جھونک کر بھی اس جنگ کے آخری برسوں میں ایک ہولناک شکست کا منہ دیکھ رہا تھا۔ جاپانیوں نے بحر الکاہل (Pacific Ocean) میں جزیرہ 'ہوائی‘ کے امریکی نیول بیس 'پرل ہاربر‘ پر غیر متوقع حملہ کر کے امریکیوں کو اس لڑائی میں پوری قوت سے ملوث کردیا تو جرمنوں کو نہ جانے کیا سوجھی کہ وہ روس کے برفیلے میدان فتح کرنے نکل پڑے اور انہیں میں دفن ہو کر رہ گئے۔
انسانی تاریخ کے یہ آٹھ خونیں برس کم وبیش چھ کروڑوں لوگوں کی زندگیاں نگل گئے۔ سال 2015ء میں ستمبر کا مہینہ دوسری جنگ عظیم میں چین اور اتحادیوں کی کامیابی کے ستر برس مکمل کر رہا ہے۔ جمعرات 3ستمبر کو جب آپ کی نظر سے نسبتاً ایک درسی سبق کے انداز والا یہ کالم گزرے گا تو بیجنگ میں اس فتح کی یاد میں ایک عظیم الشان فوجی تقریب منعقد ہو رہی ہو گی۔ اس پریڈ میں پاکستان سمیت کئی ممالک کے سربراہان , نمائندے اور فوجی دستے بھی شریک ہوں گے۔ 70 ویں سال کی ان تقریبات کے موقع پرچین اپنی بھرپور فوجی صلاحیتوں کا اظہار کر رہا ہے اوریہاں عام تعطیل بھی ہے۔ایک اندازے کے مطابق اس جنگ میں دو کروڑ کے آس پاس چینی فوجی اور سویلین اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے جبکہ تیس لاکھ کے لگ بھگ جاپانی دوسری جنگ عظیم میںہلاک ہوئے۔ آج کا جاپان اس دور کی یادداشت کو کھرچ کر پھینک دینا چاہتا ہے۔ چین نے بھی ان تقریبات کو کسی ملک کے خلاف فتح کے بجائے چین اور اس کے اتحادیوں کی کامیابی کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا ہے۔ البتہ مغربی ممالک اور امریکہ کا رویہ بڑا محتاط ہے اور وہ اسے چین کی ابھرتی ہوئی فوجی قوت کا عوامی سطح پر ایک بہت بڑا مظاہرہ سمجھ رہے ہیں۔
آج چین اور جاپان بالترتیب دنیا کی دوسری اور تیسری بڑی معیشتیں ہیںاور ایک دوسرے کے سب سے بڑے تجارتی پارٹنرز بھی۔مستقبل میں اس صورت حال کے تبدیل ہونے کا کوئی امکان بھی نظر نہیںآتا۔ چینی تاریخ ہمیں بتا تی ہے کہ وہ فوجی اعتبار سے جارح مزاج نہیں اور یہی ان کی اعلانیہ پالیسی بھی ہے‘ لیکن ماضی سے سیکھے گئے سبق کے تحت وہ اپنے دفاع کے لئے ایک بہت بڑی اور مضبوط فوج تشکیل دے چکے ہیں۔ یہ دونوں ہی ممالک‘ جن کے باشندوں کے نقوش میں فرق کرنا ہمارے لئے اکثر دشوار ہو تا ہے‘ اپنی حیرت انگیز ترقی اور دنیا کو تجارتی سر گرمیوں کے ذریعے جوڑنے والے رویے کے باعث ہمارے لئے ایک مثال ہیں ۔ خواہش بس یہی ہے کہ ان دونوں کو کسی کی بھی کالی‘پیلی اور خصوصاً گوری نظر نہ لگے۔