چینی ٹینس کی ’بڑی آپی‘

سال2013ء کے آسٹریلین اوپن ٹینس ٹورنا منٹ میں خواتین کا فائنل میچ ہارنے کے بعد چین کی شہرہء آفاق خاتون کھلاڑی' لی نا ‘کے چہرے پر ایک اداس سی مسکراہٹ تھی۔ دوسری پوزیشن حاصل کرنے کے بعد کورٹ پر ہی انٹرویو دیتے ہوئے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ 31 سالہ بظاہر شرمیلی سی اس ٹینس اسٹار کو یہ احساس ہو گیا ہے کہ اب اس کے پاس ان ٹورنا منٹس میں کامیابی حاصل کرنے کا زیادہ وقت باقی نہیںرہ گیا ہے۔ سٹیڈیم میں ہی موجود 'لی نا ‘کاشوہر اور کوچ بھی بجھے بجھے سے لگ رہے تھے۔ لیکن اسی انٹرویو میں' لی نا‘ نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ آئندہ برس پھراس ٹورنا منٹ میں کامیابی کے حصول کے لئے ضرور حصہ لے گی اور ٹھیک ایک برس بعد2014ء میں یہ پُرعزم کھلاڑی آسٹریلین اوپن جیتنے میں کامیاب ہوگئی‘ جو فرنچ اوپن کے بعد اس کا دوسرا گرینڈسلام ٹائٹل تھا۔ گرینڈ سلام ٹینس کے ان چار سب سے بڑے ٹورنا منٹس کو کہا جاتا ہے جن میں دنیا کے بہترین کھلاڑی حصہ لیتے ہیں۔ آسٹریلین اوپن سال کا پہلا‘ فرنچ اوپن دوسرا‘ ومبلڈن (انگلینڈ میں ہونے والا ٹورنامنٹ) تیسرا اور امریکہ کایو ایس اوپن سال کا آخری گرینڈ سلام ہوتا ہے۔ اپنے کیریئر کے اختتامی دورمیں آسٹریلین اوپن جیتنے کے بعد' لی نا ‘کا انٹرویو دلچسپ اور کسی حد تک پُرمزاح بھی تھا‘ جس سے کورٹ میں بیٹھے ہزاروں شائقین اور میری طرح ٹی وی سیٹ کے آگے بیٹھے لوگ اور خصوصاٌ کروڑوںچینی باشندے‘ سب ہی لطف اندوزہوئے۔ چین کی یہ خاتون ٹینس اسٹار بین الا قوامی ٹینس سے ریٹائر ہو چکی ہے‘ لیکن اس کی فتوحات اور کار کردگی نے ٹینس کو چین میں ایک بہت مقبول کھیل بنا دیا ہے۔ چین میں ٹینس کھیلنے والا ہر فرد‘ خواہ وہ پیشہ ورانہ طور پر کھیلنا چاہتا ہو یا شوقیہ‘ اس سپر اسٹار کو اپنے لئے ایک آئیڈیل کا درجہ دیتا ہے۔ ٹیبل ٹینس اور بیڈ منٹن کھیلنے والی چینی قوم میںلان ٹینس جیسے مشکل اور جسمانی طور پر ڈیمانڈنگ کھیل کو مقبولیت کی اس منزل پر پہنچانے کا سہرا تن تنہا اس خاتون کھلاڑی کے سر پر ہے‘ جو ٹینس کورٹس پر پندرہ برس تک اپنے آپ کو منوانے کی جدو جہد کرتی رہی۔ 
اولمپکس میں ہونے والے کھیلوں کے مقابلوں میں جب چینی ایتھلیٹس اورٹیبل ٹینس‘ بیڈ منٹن کے کھلاڑی تمغوں کے ڈھیر لگا دیتے ہیں تو پھرلان ٹینس میں' لی نا ‘کی کامیابی چینیوں کے لئے اتنی غیر معمولی کیسے ہو گئی؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب خود اس کھیل میںموجود ہے۔ ٹینس کے خوبصورت لیکن جسمانی اور ذہنی طور پر نہایت سخت مقابلے اسپورٹس کی دنیا میں ہیرو ازم کی منفرد مثال ہیں۔ اس کھیل کے لئے گھوڑے جیسی جسمانی طاقت اور شطرنج کے کھلاڑی جیسا تیز ذہن درکار ہوتا ہے۔ روایتی طور پر اس کے بہترین کھلاڑی یورپ‘ آسٹریلیا‘ روس اور امریکہ سے تعلق رکھتے ہیں‘ جو بہت عمدہ جسمانی فٹنس اور نہایت کم عمری سے اس کی پریکٹس کے باعث باقی دنیا کے کھلاڑیوں کو بہت کم ہی جیتنے کے مواقع دیتے ہیں۔ٹینس کے مقابلوں میں مسابقت اور مہارت کا اتنا سخت ٹیسٹ رہتا ہے کہ ٹاپ لیول کے میچز میں کون سا کھلاڑی فیورٹ ہے‘ اس کا فیصلہ مقابلے والے دن ہی ہوتا ہے۔ اسی لئے ٹینس کے کھلاڑیوں کی عالمی رینکنگ بہت تیزی سے تبدیل ہوتی رہتی ہے اور کم کھلاڑی ہی طویل عرصے تک کسی بھی میچ میں ناقابل شکست رہنے کا اعزاز حاصل کر پاتے ہیں۔ اس پس منظر میں چینی ٹینس اسٹار' لی نا ‘کے لئے یہ سفر ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ جسمانی طور پر کہیں زیادہ مضبوط یورپین‘ روسی اور امریکی کھلاڑیوں کا سامنا کرنا‘ جہاں ٹینس کے کھیل کی جڑیں بہت مضبو ط ہیں‘ کوئی آسان مرحلہ نہ تھا۔' لی نا ‘نے اپنے کیریئر میں بہت سی شکستیں بھی دیکھیں اور کئی مراحل پر جسمانی فٹنس کے مسائل سے بھی گزری لیکن وہ نہایت مستقل مزاجی سے ڈٹی رہی۔2011ء میں برسوں کی جدوجہد اور مشکلات کے بعد وہ تاریخی مرحلہ آگیا جب فرنچ اوپن کے فائنل میں وہ گر ینڈ سلام کی تاریخ کی پہلی ایشین اور چینی فاتح بنی ۔ کروڑوں چینی باشندوں کے لئے یہ ایک نا قابل فراموش لمحہ تھا
جس نے اس خاتون کھلاڑی کو چینی کھیلوں کی تاریخ میں ہمیشہ کے لئے امر کردیا۔
شہرت کی اس بلندی تک پہنچنے کے لئے' لی نا‘ نے سخت فزیکل ٹریننگ اور کھیل میں مہارت کے حصول کے علاوہ بھی کئی چیلنجز عبور کئے۔ چین میں‘ جہاں ٹیم ورک اور اجتماعی ڈسپلن اسپورٹس کا ایک لازمی عنصر ہے‘ ٹینس جیسے انفرادی اور کمرشل کھیل میں جگہ بنانے کے لئے ایک مختلف مائنڈ سیٹ درکار تھا۔ چین میں 'لی نا ‘نے ٹینس کیریئر کی ابتدائی کامیابیوں کے بعد اچانک سال 2002ء میں ریٹائر منٹ لے کر یونیورسٹی میں پڑھائی کا فیصلہ کر لیا۔اس فیصلے کے پیچھے اسپورٹس اتھارٹیز سے اختلافات اور نجی زندگی سے متعلق چند معاملات تھے۔ بہرحال یہ فیصلہ ڈیڑھ دو برس میں ہی واپس ہوگیا‘ جب اس با ہمت کھلاڑی نے ٹینس کی بین الاقوامی فیڈریشن کے ٹورنامنٹس میں حصہ لینا شروع کردیا۔' لی نا ‘کی جدوجہد کے نتیجے میں اسے بحیثیت کمرشل کھلاڑی کھیلنے کی اجازت ایک نئے قانون کے تحت دی گئی جسے 'فلائنگ سولو‘ یعنی اکیلی پرواز کا نام دیا گیا ۔ اب وہ اپنی مرضی کے کوچ رکھ سکتی تھی اور اس کی آمدنی کی رقم سے اسپورٹس ایسوسی ایشنز کو دی جانے والی رقم کا حصہ بھی کم کردیا گیا تاکہ وہ آسانی سے سفر کے اور دوسرے اخراجات پورے کر سکے۔ اس نسبتاً نئے اور آزاد ذہن کے ساتھ آخر کار روہ ایک موقعے پر ایشیا اور چین کی واحد کھلاڑی بھی بن گئی‘ جس نے عالمی سطح پر چوتھا رینک لے کر دنیا کی پانچ بہترین کھلاڑیوں میں شامل ہونے کا اعزاز حاصل کر لیا۔'لی نا ‘کا کیریئر شاندارفتوحات اور مایوس کن شکستوں کا مجموعہ رہا لیکن ایک عام سے گھرانے سے تعلق رکھنے والے بیڈ منٹن کھلاڑی کی یہ بیٹی اپنے والد کی خواہش اور اصرارپر ایک ٹینس پلیئر بن گئی ۔ لی نا محض چودہ برس کی تھی‘ جب اس کے والد کا اچانک انتقال ہوا۔ اس وقت بھی وہ ایک دوسرے شہر میں ٹورنا منٹ کھیلنے میں مصروف تھی اور اسے انتقال کی اطلاع چند روز بعد دی گئی تاکہ اس کا کھیل متاثر نہ ہو۔ اپنے والد کے انتقال کی بروقت اطلاع نہ ملنا اس کی زندگی کے بڑے صدموں میں سے ایک تھا لیکن اس واقعے کے بعد اس کی ٹینس میں فتوحات کی رفتار مزید تیز ہو گئی۔ 
ٹینس کی دنیا میں اس چینی خاتون کی یہ کامیابی چین کے لوگوں کے لئے ایک بہت اہم علامتی اہمیت بھی رکھتی تھی۔ تیزی سے معاشی ترقی کرتے چین کو ایک ایسی اسپورٹس اسٹار مل گئی‘ جو ماڈرن چین کا چہرہ بن گیا۔ بنیادی طور پر ٹینس دنیا بھر میں ایک صاف ستھرے‘ گلیمرس اور مالی طور پر منافع بخش کھیل ہونے کے ساتھ پڑھے لکھے اور خوشحال طبقے میں زیادہ مقبول ہے۔ اس کھیل سے منسلک کھلاڑی کامیابی کے نتیجے میں نہ صرف بہت دولت مند ہو جاتے ہیں بلکہ عالمی سطح پر اپنے ملک کا امیج ایک ہیرو کی طرح پیش کرتے ہیں۔یہ دنیا کے ان چند ایک کھیلوں میں سے ہے‘ جس میں تنازعات اور کھیل سے متعلق اسکینڈلز بہت کم ہوتے ہیں۔ اس کے شائقین اپنے پسندیدہ کھلاڑیوں کو بہت توجہ دیتے ہیں اور یہ کھلاڑی بین الا قوامی مصنوعات اور برانڈز کی تشہیر سے بے شمار دولت کماتے ہیں۔ اس پس منظر میں ایک چینی کھلاڑی کی کامیابی اور شہرت نے جہاں چینیوں کو ایک گلیمرس امیج دیا‘ وہیں اس کھیل کی چین میں مقبولیت نے اسپورٹس خصوصاً ٹینس کی اشیاء بنانے والے برانڈز کو بھی ایک ابھرتی ہوئی مارکیٹ میں جگہ بنانے میں مدد دی۔ آج چین کی مڈل اور اپر مڈل کلاس میں ٹینس کھیلنا اور سیکھنا تیزی سے عام ہو رہا ہے ۔ایک ایسا کھیل جو شاید پندرہ بیس برس قبل یہاں کے لوگوں کی اکثریت کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتا تھا‘ اب ایک نمایاں اسپورٹس ہے۔ صرف چین ہی میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں پھیلے لاکھوں چینی باشندوں کے لئے یہ ٹینس اسٹار ایک بہت بڑا حوالہ ہے۔ چین کی نوجوان نسل اس خاتون کھلاڑی کو ' بڑی بہن لی نا ‘ کے نام سے بھی پکارتا ہے اور ٹینس کی اس چینی آپی کے ملک بھر میں کروڑوں مداح ہیں ۔ جس ملک کا مقدر بدلنے لگتا ہے وہاں کے کھلاڑی بھی خوب چمکتے ہیں۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں