بس ایک اچھی کمپنی چاہیے

1960 ء کی دہائی کے آخر میںسنگا پور کے بانی لی کھوآن یو نے جہاز رانی یا شپنگ انڈسٹری کے لئے پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن کے تجربہ کار کیپٹن سعید کی خدمات حاصل کی تھیں‘جنہوں نے یہاں کی شپنگ انڈسٹری کی بنیاد رکھی۔زیادہ عرصہ نہیں گزرا‘ یہی کوئی پینتیس چالیس برس قبل دبئی‘ ابو ظہبی کی دھول اڑاتی سڑکوں پر اگر کوئی شخص سوٹ ٹائی میں نظر آجاتا‘ تواس کامطلب پاکستانی بینکر ہوتا‘اور اس کا تعلق آغا حسن عابدی کے بینک آف کریڈٹ اینڈ کامرس انٹرنیشنل (BCCI)سے ہوتاتھا۔ متحدہ عرب امارات کے بانی شیخ زائد بن النہیان کی مددسے قائم ہونے والے اس بینک کو کرشماتی بینکر اور عظیم شخصیت آغا حسن عابدی نے شروع کیا تھا۔ بدقسمتی سے یہ بینک پُراسرار مالیاتی اسکینڈلز کا شکار ہو گیا‘ لیکن جتنا عرصہ یہ چلا اس نے پاکستانی بینکروں کی مہارت کا سکہ بٹھا دیا تھا۔ان دونوں ممالک میں کچھ عرصہ گزارنے کے دوران پاکستانیوں کی محفلوں میں یہ تذکرے کئی بار سننے کو ملے۔ یہ اور اس نوعیت کی بے شمار چھوٹی بڑی مثالوں کانوسٹل جیا ہمیں اس بات کا احساس دلاتاہے کہ پاکستان کے سیاسی اور سماجی حالات جیسے بھی رہے ہوں‘ ہم نے بڑے باصلاحیت اور پُرعزم لوگ پیدا کئے‘ جنہوں نے پسماندہ دلدلی بستیوں اور گرد میں اٹے صحرائوں کا نقشہ بدل کے رکھ دیا۔ اس موقع پر مجھے ٹی وی پروگرامز کی پروڈکشنزکا کام کرنے کے دوران چند لوگوں کی وہ باتیں بھی یاد آتی ہیں‘ جو وہ اکثر کامیاب اور مقبول اداکاروں‘ ادا کارائوں وغیرہ کو دیکھ کربڑی تلخی سے کہتے تھے کہ کس طرح ایک دور میںچند مواقع کے لئے وہ ان کی منتیں کرتے تھے یا چائے سگریٹ مانگ کر پیتے تھے‘ اور اب مزاج ہی نہیں ملتے۔ افراد ہوں یا اقوام محنت اور مواقع سے بروقت فائدہ اٹھانے والوں کو کوئی نہیں روک سکتا۔ لگتا ہے بحیثیت ملک ہم کبھی کبھی اسی کیفیت کا شکار ہو جاتے ہیںلیکن ملکوں کی تاریخ میں ایسے ادوار آتے رہتے ہیں‘ ہم کرائسس کا شکار نہ پہلا ملک ہیں اور نہ ہی آخری ہوں گے۔
یکم اکتوبر کو چین کا قومی دن منایا جاتا ہے اور آج دنیا کی دوسری بڑی اقتصادی طاقت اور عظیم فوجی قوت بننے والے اس ملک نے جو کٹھن سفر طے کیا‘ اس کے آغاز کے وقت وہاں کے حالات شاید ہماری موجودہ حالت سے کئی گنا خراب تھے۔عشروں تک تنہائی اور مصائب کا شکار رہنے کے بعد جب چین نے دنیا کے لئے اپنے دروازے بتدریج کھولے تو یہاں کی حکمرانوں ہی نہیں بلکہ لوگوں نے بھی انکساری کے اس اعتراف کے ساتھ محنت شروع کی کہ وہ ترقی کی دوڑ میں زمانے سے کافی پیچھے رہ گئے ہیں۔ نہایت برق رفتاری سے انہوں نے صنعت ومعیشت کا پہیہ چلانا شروع کیا۔ گزشتہ اڑتیس برسوں کے دوران دنیا کی پانچ سو بڑی کمپنیوں میں چینی کمپنیوں کی تعداد سو کے لگ بھگ ہو چکی ہے‘ جو کھربوں ڈالرکے اثاثے رکھتی ہیں۔یہی نہیں بلکہ دنیا کی دس بڑی کمپنیوں میں چین کی چار کمپنیاں شامل ہیں‘جو کسی بھی ایک ملک سے تعلق رکھنے والی کمپنیوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔اتنی بڑی اقتصادی اور فوجی قوت بننے کے بعد چین کے چیلنجز ختم نہیں ہوئے بلکہ یہ کہا جائے کہ مزید پیچیدہ ہوگئے ہیں تو غلط نہ ہو گا۔دنیا کا فیکٹری فلور کہلانے والا یہ ملک کسی حدتک اپنا گھر سیدھا کرنے کے بعد اب دنیا سر کرنے کے مرحلے میں داخل ہو رہا ہے اور شاید یہی وہ مرحلہ ہے جو مستقبل کی دنیا کے نئے خدوخال طے کرے گا۔
دنیا کی بڑی اقتصادی طاقتوں کی سب سے مُوثر قوت ان کی کمپنیاں ہوتی ہیں‘ جو اپنی پیشہ ورانہ اور تجارتی مہارتوں کے باعث ترقی اور سرمائے کی پیداوار میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔ موجودہ دنیا کا اصل گیم انہی اداروں کے پاس ہے اور یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اب کمپنیاں کنٹریوںیعنی ممالک کی اقتصادی طاقت کے وہ طوطے ہیں جس میں ان کی جانیںہیں۔ ان کمپنیوں کی اجارہ داری‘ بے پناہ اثر و رسوخ اور کام کے طور طریقوں پر تنقید کرنے والوں کی کمی نہیں‘ جس کی ٹھوس وجو ہ بھی ہیں‘ لیکن موجودہ نظام کی ترقی اور ملکوں کے عروج کا باعث بھی یہی ادارے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی پانچ سو بڑی کمپنیوں میں مسلم دنیا سے صرف ملائیشیا‘ ترکی‘ انڈونیشیا وغیرہ کی چندایک گنی چنی کمپنیاں ہی اپنی جگہ بنا پائی ہیں اور شاید یہی مسلم ممالک مضبوط معیشتیں بھی ہیں۔ چین کے عروج اور اثر ونفوذ میں بھی یہاں کے بڑے مالیاتی ,تجارتی اور پیداواری اداروں کا سب سے اہم کر دار ہے۔ زمین کی پاتال سے سمندروں کی تہوں تک پہنچ جانے والے یہ ادارے لاکھوں پیشہ ور ماہرین اور نہایت مستعد اور متحرک مینجمنٹ کے باعث آنکھوں کو خیرہ کر دینے والے منصوبے پایہء تکمیل تک پہنچا دیتے ہیں۔
گزشتہ ماہ شنگھائی کے نئے تعمیر ہونے والے نہایت ہی بڑے اور جدید ایکسپو سینٹر‘ جس کو آپ کلو میٹرز میں ناپ سکتے ہیں‘ سمندری اور آلودہ پانی کے ٹریٹمنٹ پلانٹس کی ایک تجارتی نمائش میں جانے کا اتفاق ہوا‘ سینکڑوں چینی کمپنیوں نے اپنے اسٹالز لگائے ہوئے تھے۔ کوئی آلودہ پانی کو منٹوں میں قابل استعمال صاف پانی میں تبدیل کرنے کا مظاہرہ کر رہا تھا تو کوئی کمپنی سمندری پانی کو میٹھا بنانے کے پلانٹس کی ماہر تھی۔ چینی شہر ہانگ چو کی ایک ایسی ہی کمپنی کے مستعد عملے نے جب دنیا بھر میں اپنے پروجیکٹس اور اس کے طریقہ کارکی وضاحت کی تو اپنے کراچی والے گھر میں پانی کی آمد کے مخصوص گھنٹے یاد کر کے چہرے پر مسکراہٹ سی آگئی۔ کراچی میں ایمرجنسی کے لئے آج بھی بالٹی بھر کر رکھنا پڑتی ہے۔بس میں ہوتا تو اسی وقت اس کمپنی کو کراچی میں سمندری پانی کو قابل استعمال بنانے کے پلانٹ کا آرڈر دے دیتا لیکن پھر خیال آیا کہ یہ تو بڑے لوگوں کی بڑی بڑی باتیں ہیں ہمارے لئے بالٹی ہی کافی ہے۔
آج کا چین محض فیکٹری پیداوار والا ملک نہیں‘ یہ لوگ ریسرچ اور ڈویلپمنٹ میں کھربوں روپوں کی سر مایہ کاری کر رہے ہیں۔ امریکہ اور یورپ کے تحقیقی اور ایجادات کرنے والے مراکز میں چینی سرمایہ کاری بڑھی ہے اور اندرون ملک بھی۔ اب یہ اپنے جدید شہروں میں ایسے مراکز قائم کر رہے ہیں جو صرف ریسرچ اور ایجادات کے لئے مخصوص ہو ں گے۔ یہ سرمایہ کاری نہ کوئی آسائش ہے اور نہ نمائشی اقدامات بلکہ ترقی اور بقاء کی ایک نہ ختم ہونے والی جنگ ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں کے لئے مال تیار کرنے والے چینی اب نہایت مہارت سے خود وہ چیزیں تیا ر کرنے میں مصروف ہیں۔ جنوبی کوریا کی شہرہء آفاق کمپنی سام سنگ کو جہاں امریکی جائنٹ ایپل سے مہنگے اسمارٹ فونوں اور ٹیبلٹس میں سخت مقابلے کا سامنا ہے ‘ وہیں نسبتاً کم قیمت لیکن عمدہ معیار کی چینی پروڈکٹس کے چیلنج کا بھی سامنا ہے۔ چینی ٹیکنالوجی کمپنیاں ہواوئے(Huawei)لے نو و(Lenovo)اور شیائو می (Xiaomi) بہت تیزی سے کامیابی کی منازل طے کر رہی ہیں اور ہر سال کھربوں روپے کا منافع کما رہی ہیں۔ صرف ٹیکنالوجی ہی نہیں زراعت اور ماحولیات میں بھی بڑے پیمانے پر تحقیق کا کام جاری ہے ۔ اتنی بڑی آبادی کی خوراک کی ضروریات پوری کرنا بذات خود ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔
چین کا تخلیق‘تحقیق اور ایجادات کی دنیا میں قدم رکھنا مستقبل میں اپنی ترقی برقرار رکھنے کے لئے اشد ضروری ہے۔ اس موقع پر مجھے شہرہء آفاق کمپنی ' امریکن ایکسپریس ‘ کے سربراہKen Chenault) (کا یو ٹیوب پر چینی جائنٹ آئی ٹی کمپنی' علی بابا ‘ گروپ کے سربراہ جیک ما کے ساتھ ہونے والاایک مکالمہ یاد آجاتاہے۔ امریکن ایکسپریس کے سر براہ نے بڑے سادہ انداز میں اپنی کمپنی کی عشروں پر مبنی کامیابی کا خلاصہ اس بات میں بیان کر تے ہوئے کہا تھا کہ ہماری کامیابی خو د اپنے کام اور منصوبوںکو مستقل طور پر چیلنج کرنے میں رہی ہے۔ اگر ہم اپنی کامیابی سے مطمئن ہو کر بیٹھ گئے ہوتے تو یہ کمپنی مارکیٹ لیڈرنہ رہ پاتی۔لاکھوں با صلاحیت پاکستانی اچھی کمپنیوں کی تلاش میں دنیا بھر میں بکھر چکے ہیں اور مزید باہر کا رخ کر رہے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم بھی اپنے اداروں میں جدت اور میرٹ لے آئیں کیونکہ کوئی انویسٹمنٹ ہمارے کام نہ آئے گی اگر ہم نے اپنے لوگوں پر انویسٹمنٹ نہ کی۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں