مجسموں کی فوج اور جنگی تر کیبوں کا موجد

' کیا اپنے ساتھ قبرمیں لے کر جائیں گے‘ جیسے فقرے عموماً کنجوس، یا ایسے لالچی لوگوں کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں جو اندھا دھند مال وا سباب جمع کرنے میں مصروف ہوتے ہیں۔ یہی فقرہ اگر آج سے کوئی سوا دو ہزار سال قبل چینی شہنشاہ ' چھن شی ہوانگ‘ سے کہا جاتا تو بادشاہ سلامت اس گستاخی پر گردن اڑانے سے پہلے گستاخ کو یہ ضرور بتاتے کہ صرف اپنا مال و متاع ہی نہیںبلکہ ہزاروں کی فوج بمعہ اسلحے ،گھوڑوں اور بگھیوں کے میں اپنے ساتھ قبر میں لے کر جائوں گا ۔ دنیا کو شہنشاہ کی فوج ظفر موج کا علم اتفا قاً اس وقت ہوا جب 1974ء میں چین کے شمال مغربی صوبے 'شانشی ‘ (Shaanxi)کے علاقے لنتھونگ کے مقامی کسان ایک کنوئیں کے لئے کھدائی کر رہے تھے۔ان غریبوں کو کیا پتا تھا کہ یہاں سے ملنے والی قدیم چیزیں دراصل انڈر گرائونڈ ایک پوری فوج لئے بیٹھی ہیں۔چین کے سب سے تگڑے فرمانروا نے اپنے عظیم الشان مقبرے کے ساتھ ہی ہزاروں سپاہیوں کے مجسمے تعمیر کروانے کے بعد قطارر در قطار سلیقے سے بڑے بڑے گڑھوں میں نصب کروائے تھے ۔اس دریافت نے گویا چین کے آثار قدیمہ پر مزید چار چاند لگا دئیے اور دنیا بھر کے آرکیالوجسٹ حیران و پر یشان ہوگئے کہ آخر ہر قدیم حیرت کدہ اسی سر زمین سے کیوں بر آمد ہوتا ہے۔یہ دریافت ' ٹیرا کوٹاآرمی یا جنگجوئوں‘(Terracotta Army) کے نام سے مشہور ہے، ٹیرا کوٹا مٹی سے تیار کدہ وہ میٹریل ہے جو مضبوط مجسموں کی تعمیر کے لئے آزمودہ سمجھا جاتا تھا اور اسی منا سبت سے انہیں یہ نام دیا گیا ہے۔ چھ ہزار مجسموں پر مشتمل یہ فوجی دنیا میں اپنی نوعیت کی ایک منفرد ترین دریافت ثابت ہوئے ہیں۔
دو ہزار سال سے بھی زائد عرصے سے یہاں موجود یہ تاریخی ورثہ 'چھن‘ سلسلے کے طاقتور
ترین بادشاہ ' چھن شی ہوانگ‘ کے زمانے میں تیار ہوا۔ یہ چینی حکمران جس کے سر پر محض تیرہ برس کی عمر میں تاج سج گیا تھا ‘اس زمانے کے متحدچین کا پہلا بڑا شہنشاہ ثابت ہوا جس نے جنگوں میں مصروف تمام علاقائی ریاستوں پر قابو پا کر ایک عظیم سلطنت کی بنیاد رکھی۔اس اعتبار سے اسے آپ چین کا اکبر اعظم بھی سمجھ سکتے ہیںاور اس چینی شہنشاہ اکبر نے اپنی زندگی میں ہی اپنے لئے ایک عظیم الشان مقبرے کی تعمیر کا آغاز کروا دیا تھا۔اپنی عظمت کے خبط میں مبتلا ہر بادشاہ کی طرح اس نے بھی اپنی روح کو دوام بخشنے کی کوشش کی اور اسی کوشش کا ایک حصہ یہ فوج تھی جس کا مقصد مرنے کی صورت میں اسے بدروحوں سے محفوظ رکھنا تھا۔ شہنشاہ کا جسم تو ہر انسان کی طرح مٹی میں مل گیا لیکن مٹی کی مدد سے بنے یہ مجسمے محفوظ رہ گئے اور آج لاکھوں سیاح اس جگہ اور ان جنگجوئوں کو دیکھنے کے لئے یہاں کا رخ کرتے ہیں ۔جن کسانوں نے اتفاقیہ طور پر 1974 ء میں اس جگہ کو دریافت کیا تھا‘ غالباً سوا دو ہزار سال قبل انہی کے آباوء اجداد نے اس تعمیر میں حصہ لیا ہو گا۔ ٹیرا کوٹا کے ان قیمتی آثار کی سب سے حیران کن بات ان ہزاروں جنگجوئوں کے چہروں کی انفرادیت ہے۔ ان زمانوں کی ایک ریگولر فوج کے مختلف حصوں کی طرح ان میں سینئر کمانڈر سے لے کر عام سپاہی تک ہر کسی کے چہرے کے نقوش مختلف طریقوں سے ڈھالے گئے ہیں اور یہی معاملہ ان کے جنگی لباس اور ساز وسامان میں بھی نظر آتا ہے۔ یہ قد آدم فوجی ہزاروں کی تعداد میں روایتی اسلحے سے مزین ہیںجس کی تعداد بھی چالیس ہزار تک بتائی جاتی ہے۔ اتنی پیشہ ورانہ مہارت ، نفاست اور سرامکس کی اعلی تکنیک کی ہزاروں برس قبل موجودگی بہت متاثر کن ہے۔اس قدیم ورثے کے نوادرات کی دھوم دنیا کے ہر اہم میوزیم تک مچی ہے ۔
ٹیرا کوٹا کے مجسمے تو بہر حال ساکت ہی کھڑے ہیں اور شہنشاہ اپنی خواہش کے با وجود لا فانی بھی نہیں ہو پایا لیکن انہی زمانوں کے ایک فوجی جر نیل کی دیو مالائی شہرت بھی دنیا میں کچھ کم نہیں ہے۔ اس شہرت کی وجہ نہ تو کوئی تعمیر ہے اور نہ ہی جیتی ہوئی کوئی ایک خاص تاریخی جنگ بلکہ ' سن زو‘(Sun Tzu) نامی یہ جرنیل خود سے منسوب ایک کتاب کی وجہ سے مقبولیت کے اس درجے پر پہنچے ہیں جو تقریباً دو ہزار برس قبل تحریر میں لائی گئی۔ 'آرٹ آف وار‘ نامی یہ قدیم نسخہ جنگ لڑنے کے طریقوں اور چالوں پر مشتمل دنیا کی قدیم ترین گائیڈز میں سے ہے۔یہ تجربہ کار جرنیل اپنی جنگی منصوبہ بندی اور کامیاب مہمات کے باعث معروف تھا۔ایک قدیم چینی مور خ کے مطابق بادشاہ وقت نے جرنیل کی شہرت سن کر اس کو آزمانے کے لئے اپنے حرم میں موجود دوسو کے قریب داشتائوں کو فوجی تر بیت دینے کا حکم صادر فرمایا ۔ بادشاہ تو پھر بادشاہ لوگ ہوتے ہیں جو مزاج میں آئے کر ڈالتے ہیں لیکن جر نیل صاحب نے اس کو بہت سنجیدگی سے لیا، ان حسینائوں کی تربیت کی خاطر ان کو دو گروہوں میں تقسیم کرنے کے بعد بادشاہ سلامت کی دو پسندیدہ ترین داشتائوں کو ان گروپس کا کمانڈر بنا دیا۔ جب جرنیل نے پہلی مرتبہ ان گروپس کو ایک دوسرے کے آمنے سامنے کا حکم دیا تو کمانڈر حسینائوں سمیت سب کھلکھلا کر ہنسنے لگیں ۔ دوسری مرتبہ پھر ان کو سنجیدگی سے ایک دوسرے کے مقابل آنے کا حکم بھی جب ہنسی میں اڑا دیا گیاتو جرنیل صاحب نے بادشاہ کی فیورٹ اور دونوں گروپس کی انچارج کنیزوں کو وہیں پر دوسری دنیا میں پہنچا دیا۔ بادشاہ اپنے حرم کی ان خصوصی کنیزوں کا حشر دیکھ کر ہکا بکا رہ گئے اور باقی حسینائو ں کی ہنسی بھی سیکنڈوں میں غائب ہوگئی۔ 'سن زو ‘صاحب کے بقول لڑنے والی فوج کے لئے حکم عدولی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی اور ڈسپلن کا ذمہ دار ان کے آفیسر کو ہونا چاہئے۔ اس کے بعد پورا حرم چھائونی میں موجود سپاہ کی طرح سیدھا ہو گیا اور بادشاہ صاحب نے شاید غمگین ہونے کے باوجود جر نیل کی دلیل مان لی،بے چاری کنیزیں خواہ مخواہ سینڈوچ بن گئیں۔یہ تو خیر ایک ایسا قصہ ہے جس کی صحت پر سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں لیکن Art of War) ( نامی قدیم نسخہ اور اس کے تیرہ ابواب پر مشتمل مواد ایک تاریخی حقیقت ہے جس میں تحریر جنگی منصوبہ بندی اور چالوں نے نہ صرف اس خطے پر گہرے اثرات ڈالے بلکہ ان سے منسوب اقوال مغرب میں بھی بے انتہا مقبول ہوئے ہیں۔
اس کتاب کے قدیم ٹیکسٹ سے اخذ کئے گئے اقوال کو حقیقی جنگوں کے علاوہ عام پیشہ ورانہ مینجمنٹ اور کاروباری زندگی کے لئے بھی کافی مفید سمجھا جاتا ہے ۔ پہلا اہم سبق یہ ملتاہے کہ سب سے اچھی جنگ وہ ہے جو لڑے بغیر جیت لی جائے۔ اسی طرح یہ قول بھی بہت معروف ہے (مفہوم )کہ اگر آپ خودکواور اپنے مقابل دونوں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں تو ہر جیت آپ کی ،لیکن اگر آپ خود کو تو سمجھتے ہیں لیکن دشمن سے نا واقف ہیں تو ہر جیت کے ساتھ ایک شکست بھی ملے گی اور اگر نہ اپنا پتہ ہے اور نہ حریف کا تو آپ کا کام تمام۔' سن زو‘ کی ان ہدایات میں شاید آج کے دور کے لحاظ سے سب سے بہتر نصیحت یہ ملتی ہے کہ کوئی بھی طویل جنگ کبھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکتی بلکہ الٹا گلے پڑ جاتی ہے،فتح کا دارومدار اس بات پر ہے کہ آپ کتنی جلدی دشمن کو زیر کرتے ہیں۔اسی قدیم نسخے میں پہلی بار خفیہ جاسوسوں کے استعمال کو دشمن کے خلاف ایک موثر ہتھیار بتایا گیا ہے ۔ اس کتاب کے تیرہ ابواب میں جنگوں سے متعلق بے شمار ہدایات موجود ہیں جن میں جغرافیے سے لے کر افواج کی دیکھ بھال سمیت سب کچھ ہی موجود ہے اور فی زمانہ شاید کچھ باتیں عمومی معلوم ہوں لیکن ان حکمت عملیوں کا چین اور جاپان سمیت مشرقی ایشیا کے ممالک پر بڑا گہرا اثر رہا ہے ۔اس مینوئل نما کتاب کی خاص بات اس کا قدیم ہوتے ہوئے بھی فی زمانہ حالات کے بارے میں اتنا کچھ سمجھا دینا ہے باقی پڑھنے والوں کی اپنی اپنی سمجھ۔
نوٹ: مرحوم اشتیاق احمد کے متعلق ساتھی کالم نگاروں نے ان صفحات پر وہ سب کچھ لکھ دیا ہے جس کی میں تمنا کر سکتا۔ کسی بھی مصنف کی معراج اس کے کرداروں کا زندہ وجاوید ہونا ہوتا ہے اور اس اعتبار سے انسپکٹر جمشید سمیت تمام کردار میری نسل کی یادداشت کا حصہ رہیں گے۔ مرحوم کا یہ اعزاز صرف انہی کا ہے اور ہم بے حد شکر گزاری کے ساتھ ان کے درجات کی بلندی کے لئے دعا گو ہیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں