ایک تکلیف دہ دور کا خاتمہ

سلیقے سے بنے ہوئے بالوں والی اور نظر کا چشمہ لگائے خاتون کے ہاتھوں میں اگر ہتھکڑی نہ لگی ہوتی اور عقب میں دو خواتین سپاہی نہ نظر آتیں تو بظاہر وہ اس بھرے ہوئے کورٹ میں کسی یونیورسٹی کی پروفیسر کی طرح لگتیں۔ یہ 1980ء میں شروع ہونے والے ایک مقدمے کی سماعت کا منظر تھا‘ جس میں ایک کورٹ ٹر یبونل کے سامنے چین کی جدید سیاسی تاریخ کا ایک انوکھا باب لکھا جا رہا تھا۔ ملزمہ 'جیانگ چھنگ‘ کوئی معمولی خاتون نہ تھیں‘ بلکہ یہ موجودہ چین کے بانی اور کمیونسٹ پارٹی کے چیئرمین مائوزے تنگ کی‘ 1976ء میں ان کی وفات تک‘ بیوی رہی تھیں‘ اور پورا چین ان کو 'مادام مائو‘ کے نام سے پکارتا تھا۔ یہ تاریخی مقدمہ بدنام زمانہ 'چار کے ٹولے‘ (Gang of Four) کے نام سے مشہور ایک گروپ کے خلاف تھا‘ جس کی سربراہ 'مادام مائو‘ کو سمجھا جاتا تھا۔ گینگ کے باقی تین رکن بھی چین کی کمیونسٹ پارٹی کے اعلیٰ عہدیدار تھے۔ اس گروپ پر بغاوت‘ ہزاروں لوگوں کی سر عام ہتک‘ تشدد اور قتل کروا دینے کے الزامات تھے‘ جن کا تعلق 1966ء سے لے کر 1976ء تک ثقافتی انقلاب کی ایک بے حد متنازعہ تحریک سے تھا۔ اس عدالتی ٹرائل کے دوران 'جیانگ چھنگ‘ نے اپنا دفاع خود کرنے کا اعلان کیا‘ اور ٹریبونل کے سامنے اپنے اقدامات کے حق میں دلائل دینے کی کوشش کی۔ یہ کارروائی ایک اوپن ٹرائل تھا‘ جس کو ٹی وی پر نشر کیا جاتا تھا‘ اور آج بھی اس کے چند ایک مختصر حصے یُوٹیوب پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ ٹریبونل نے کارروائی کے اختتام پر 'جیانگ چھنگ‘ اور ان کے ایک ساتھی 'چانگ چن چھیائو‘ کو سزائے موت اور باقی دو کو بیس برس کی قید کی سزا سنائی۔ سزائے موت کو بعد ازاں عمر قید میں تبدیل کر دیا گیا۔ ایک عظیم لیڈر کی بیوی کی حیثیت رکھنے کے باوجود‘ اس مقدمے کے دوران بجائے ہمدردی کے ان کی گرفتاری پر خوشی اور ریلیف کا سماں تھا۔ چند برس بعد ان کو خرابیٔ صحت پر رہا کر کے ہسپتال میں داخل کرا دیا گیا‘ جہاں 1991ء میں انہوں نے خود کشی کر لی۔ غربت اور جدوجہد سے عروج و اقتدار کے سفر کا یہ ایک افسوسناک انجام تھا جو کوئی دو چار برس کی بات نہیں بلکہ نصف صدی کا قصہ ہے۔
مائوزے تنگ کی قیادت میں چین کا کمیونسٹ انقلاب ایک بہت بڑی تحریک کے نتیجے میں برپا ہوا تھا۔ اس طویل اور انتہائی مصائب کا شکار تحریک میں لاکھوں لوگ اپنی جان سے گئے اور خود چیئرمین مائو اس دوران ہونے والی خانہ جنگی کے دوران اپنے ساتھیوں کے ہمراہ برسوں چین کے دور افتادہ علاقوں میں جدوجہد کرتے رہے۔ 'جیانگ چھنگ‘ سے 'مائوزے تنگ‘ کی شادی 1938ء کے اسی پُرآشوب دور میں ہوئی۔ جیانگ چھنگ نے بھی ایک مشکل زندگی کا سامنا کیا تھا۔ کمیونسٹ پارٹی میں شمولیت سے پہلے وہ سٹیج اور فلموں میں اداکارہ کے طور پر معروف تھیں۔ یہ چیئرمین کی چوتھی اور جیانگ چھنگ کی تیسری شادی تھی۔ دونوں کی عمروں میں تقریباٌ بیس برس کا فرق تھا‘ اور اس شادی کے لئے مائوزے تنگ نے اپنی تیسری بیوی سے علیحدگی اختیار کی تھی۔ پارٹی رہنمائوں کی اس شادی کے لئے رضامندی میں یہ شر ط بھی شامل تھی کہ 'جیانگ چھنگ‘ پارٹی میں اگلے تیس برس تک کوئی مرکزی کردار ادا نہیں کریں گی۔ اگلے دو ڈھائی عشروں تک معاملات کسی حد اسی طرح چلتے رہے۔ 1949ء میں کمیونسٹ چین کے قیام کے بعد وہ خاتون اول رہنے کے ساتھ ساتھ فلموں اور پروپیگنڈے کے شعبے میں ڈائر یکٹر کی حیثیت سے بھی اپنا کردار ادا کرتی رہیں۔ اس دوران ان کا رویہ خاصا سخت اور غیر لچکدار رہا‘ جس میں فلم اور تھیٹر سمیت ہر ثقافتی شعبے میں پابندیوں اور سنسر کا بہت زیادہ عمل دخل تھا۔ بات یہاں تک کسی حد تک سنبھل جاتی لیکن 1966ء میں 'ثقافتی انقلاب‘ کے نام سے ایک نئی تحریک شروع ہوئی جو جیانگ چھنگ کے انتہائی عروج اور پھر زوال کا سبب بن گئی۔
مائوزے تنگ کو چین کے کمیونسٹ انقلاب کا سب سے کرشماتی لیڈر سمجھا جاتا ہے۔ ان کی قیادت میں ہی انتشار کا شکار یہ ملک ایک عالمی قوت میں تبدیل ہوا تھا۔ ساٹھ کے عشرے کے وسط میں ان کو یہ احساس ہوا کہ چین کمیونسٹ اصولوں سے دور ہو رہا ہے اور کمیونسٹ پارٹی سمیت معاشرہ دوبارہ سے سر مایہ دارانہ رنگ میں واپس آرہا ہے۔ اس سوچ کے نتیجے میں پارٹی اور چینی سوسائٹی کو واپس خالص کمیونسٹ اصولوں پر لانے کے لئے ایک بے حد جارحانہ مہم شروع کی گئی۔ ہر وہ دانشور یا پارٹی کا رہنما‘ جس پر کمیونسٹ سوچ سے انحراف کا الزام یا شک تھا‘ اس مہم کی زد میں آنے لگا۔ اس مہم کے آغاز سے ہی انقلابی فورس‘ ریڈ آرمی کے نوجوانوں نے ملک بھر میں ان کے نزدیک مشکوک لوگوں اور عہدیداروں کا محاسبہ‘ کھلے عام مذمت اور بعض اوقات تشدد بھی شروع کر دیا۔ اس دوران ہی مادام مائو ثقافتی انقلاب پر عملدرآمد کے حوالے سے ایک سخت گیر رہنما کے طور پر ابھریںاور انہوں نے اپنے ساتھیوں ساتھ مل کر کمیونسٹ پارٹی کے ریڈیکل گروپ کی کمان سنبھال لی۔ کمیونسٹ روایات کو دوبارہ نافذ کرنے کی یہ سوچ تشدد اور لاقانونیت میں تبدیل ہو کر اتنی طا قتور ہو گئی کہ عظیم لیڈر چو این لائی بھی ابتدا میں اس کا زور نہ توڑ سکے۔ ڈینگ ژیائو پھنگ‘ جنہوں نے بعد میں چین کی قیادت سنبھالی‘ اس گروپ کے ہاتھوں الزامات اور قید و بند کا شکار ہو گئے۔ یہ جارحانہ مہم جلد ہی پارٹی کے معتدل اور انتہا پسند رہنمائوں کے درمیان ایک کشمکش میں تبدیل ہو گئی اور معاشرہ ایک ہیجان کا شکار رہا‘ جس میں ہر طرح کی قدیم روایات اور سوچ کو بے رحمی سے نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس مہم کا زور ٹوٹنا شروع ہو گیا اور مائو زے تنگ کی خالص کمیونسٹ چین بنانے کی خواہش بعض لیڈروں کی انتہا پسندی اور پارٹی قیادت پر قبضہ کرنے کی کوششوںکے باعث بے سمت ہو گئی۔ جیانگ چھنگ اس عرصے میں پارٹی کے معا ملات پر حاوی تو آ گئیں لیکن وقت انتہا پسندی اور انتقام کے بجائے معتدل مزاج قیادت اور استحکام کی ڈیمانڈ کر رہا تھا۔ 1976ء میں چیئرمین مائو اور اس سے کچھ عرصے پہلے وزیر اعظم چو این لائی کی وفات کے بعد قیادت کے خلا کو پُر کرنے کے لئے مادام مائو کا گروپ متحرک ہوا لیکن ثقافتی انقلاب کے نام پر ان کے اقدامات بہت غیر مقبول ہو چکے تھے جو بالآخر چار کے ٹولے کے عنوان سے بدنام ہوا اور گرفتار کر لیا گیا۔ 
یہ تحریک بنیادی طور پر تو کمیونسٹ آئیڈیالوجی اور مائوازم کے احیا کے لئے شروع کی گئی تھی لیکن اس دوران ثقافتی اورنظر یاتی مخالفت‘ تشدد اور ذاتی اثر و رسوخ کی جنگ میں تبدیل ہو گئی۔ تعلیمی ادارے بند کر کے نوجوانوں کی ریڈ آرمی کے اقدامات نے معاشرے کو عجیب و غریب آزمائش میں مبتلا کر دیا جس کا نتیجہ کمیونسٹ پارٹی میں اعتدال‘ استحکام اور معیشت کی ترقی کا پرچار کرنے والوں کی کامیابی کی صورت میں نکلا۔ ڈینگ ژیائو پھنگ اس سوچ کے سب سے موثر رہنما تھے‘ جو لمبے عرصے قید و بند اور عتاب کا شکار رہے۔ اس نئی قیادت کا ابھرنا جیانگ چھنگ کی سیاسی طاقت کے خاتمے کا سبب ہی نہیں بنا بلکہ ثقافتی انقلاب کے نام پر ان کے وفاداروں نے جو جارحانہ مہمات چلائیں ان کو بھی جرائم گردانا گیا۔ اس سارے عرصے میں تیس ہزار سے زائد لوگوں کی ہلاکتیں‘ سزائیں اور تشدد کا بڑا حصہ اس ریڈیکل گروپ کے کھاتے میں چلا گیا۔ جیانگ چھنگ کا یہ خیال کہ چیئرمین مائو کی بیوی ہونا ان کے حق میں ہو گا‘ ایک فاش غلطی تھی۔ وقت بدل گیا تھا اور لوگ اس بات کا مزا بھی چکھ چکے تھے کہ مادام مائو طاقت میں آکر کیا کچھ کر سکتی ہیں۔ اس گروپ کے زوال اور سزائوں کے ساتھ چینی تاریخ کا ایک تکلیف دہ اور افسردہ باب بند ہو گیا۔ اس نسل کے لوگ اس موضوع پر کم ہی بات کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے لئے تبدیلی کے وہ چند برس تکلیف دہ ماضی ہے جس کے زخموں کو نہ ہی کریدا جائے تو بہتر ہے۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں