معروف ہدایتکار شعیب منصور کی فلم 'بول‘ کا ایک مکالمہ بہت مقبول ہوا جس میں اس فلم کی ایک مرکزی کردار بڑے جذباتی انداز میں چیخ کر لوگوں سے کہتی ہے کہ ' اگر پال نہیں سکتے تو پیدا کیوں کرتے ہو؟‘ اگر یہ فلم 1980ء میں بنی ہوتی تو شاید اس وقت کے چینی حکمران فلم کے اس ڈائیلاگ کو اپنی 'فی خاندان ایک بچہ ‘ (One Child Policy)مہم کی تشہیر میں بخوشی استعمال کرتے۔ اس پالیسی کو نافذ کرنے کی سب سے بڑی وجہ معاشی ہی تھی یعنی چینی حکمرانوں کو اس بات کا احساس ہوگیا تھا کہ دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے اس ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی کو اگر کنٹرول نہ کیا گیا تو اس کو پالنا مشکل ہو جائے گا اور یوں ایک سے زائد بچے کے پیدا کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی ۔تقریباً35برس تک مختلف شکلوں میں جاری رہنے والی یہ مشکل اور پیچیدہ پالیسی بالآخر اپنے اختتام کو پہنچی اور اب تمام چینی جوڑے دوسری اولاد پیدا کرسکیں گے۔جس طرح اس پابندی کو نافذکرنے کی بنیادی وجہ اقتصادی تھی اسی طرح اس کو تبدیل کرنے کی وجہ بھی معاشی ہی ہے۔ آبادی کنٹرول کرتے ہوئے چینی پالیسی سازوں کا خیال تھا کہ ملکی معیشت‘ زراعت اور خوراک تیزی سے بڑھتی آبادی کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتی اور اگر یہی صورت حال اگلے بیس پچیس رہتی تو ملک کا حال برا ہو جاتا۔ اس وقت کروڑوں چینی باشندے بھوک اور بدحالی کا شکار تھے بعض دور افتادہ جگہوں پر تو غربت اور خوراک کی کمی اس نہج پر پہنچ گئی تھی کہ وہاں کے لوگ مستقل فاقہ کشی کا شکار رہتے تھے۔اب دوسرے بچے کی اجازت دیتے ہوئے چینیوں کا اندازہ یہ ہے کہ بھوک اور بدترین افلاس پر تو قابو پایا جا چکا ہے لیکن خوشحالی کے راستے پر گامزن ترقی کی سطح برقرار رکھنے کے لئے مستقبل میں جو افرادی قوت درکار ہوگی وہ فی بچہ ایک خاندان سے حاصل نہیں کی جاسکتی ۔ اگلے بیس تیس برسوں میںممکنہ افرادی قوت کی کمی سے بچنے کے لئے چینیوں کو زیادہ نوجوان آبادی چاہیے جس کا سادہ حل یہ ہے کہ ہرخاندان دو تک بچے پیدا کرسکتا ہے۔یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ بڑھتے ہوئے معیار زندگی کے باعث یہاں اوسط عمر کافی زیادہ ہوچکی ہے اور معمر آبادی کی تعداد ریکارڈ سطح پر ہے تقریباً چودہ کروڑ چینی باشندے 65 سال یا اس سے زائد عمر کے ہیں ۔
دنیا میں شاید ہی کوئی اور ملک ایسا ہو جس کے لوگ اور حکمران اپنی بقا کیلئے انتہائی نجی اور خاندانی فیصلے بھی قومی سطح کی پالیسیاں بنا کر کرتے ہوں۔آبادی کو ایک مکینیکل انداز میں کنٹرول کرنا چاہے وہ کمی کے لئے ہو یا اضافے کے لئے کوئی آسان بات نہیں بلکہ میرے نزدیک تو یہ ایک ایسی راکٹ سائنس ہے جسے سماجی سطح پر چینی ہی بنا نے اور چلانے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ مثلاً جب ون چائلڈ پالیسی نافذ کی گئی تو اس میں بھی چین کی کم تعداد والی اقلیتوں بشمول 'اوغور ‘نسل کے مسلمانوں کو چھوٹ دی گئی تھی اور اصل زور یہاں کے شہروں ‘قصبوں کی آبادی اور 'ہان‘ نسل کے چینیوں پرتھاجو کُل آبادی کا نوے فیصد سے بھی زائد بنتے ہیں۔ اسی طرح زرعی زمینوں پر کام کرنے والوں کو بھی دوسرا بچہ پیدا کرنے کی مشروط اجازت تھی جن کے ہاں پہلی اولاد لڑکی ہو‘ دیہات میںسخت مشقت کے لئے یہاں لڑکے کا خاندان میں ہونا ضروری سمجھا جاتا تھا۔اس طرح کی چند ایک رعایتوں کے علاوہ اس پالیسی کے سخت اور تکلیف دہ نفاذ میں سرکاری حکام نے کوئی کسر نہ چھوڑی اور پوری سوسائٹی نے اس کی بھاری معاشرتی‘خاندانی اور نفسیاتی قیمت ادا کی ۔
خیر رات گئی بات گئی کے مصداق پرانی پالیسی اب ختم ہوئی گو کہ یہ رات تین عشروں سے زیادہ عرصے چلتی رہی ۔دوسرے بچے کی پیدائش پر نرمی کا پہلا سگنل چینی حکومت نے دو برس قبل اس وقت دیا تھا جب ان شادی شدہ جوڑوں کو اجازت ملنا شروع ہوئی جن میں میاں بیوی دونوں ہی اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے۔دوسرے مرحلے میں اب موجودہ سال سے تمام جوڑوں کو یہ سہولت دی جا رہی ہے ـ۔فی الوقت تو چینی اپنی آبادی کے بل پر گزارا کر رہے ہیں لیکن آئندہ پندرہ بیس برسوں میں پیدائش کی موجودہ رفتا ر کے ساتھ ملک کو ترقی اور خو شحالی پر رواں رکھنا دشوار ہو جاتا جائے گا۔ایک چینی ماہر معاشیات کہ بقول ہم ہمیشہ کم ازکم اگلے تیس چالیس برس کو ذہن میں رکھ کر آج کی پالیسیاں ترتیب دیتے ہیں جس کا عوامی مطلب یہ ہوا کہ آئندہ برسوں میں جس اضافی نوجوان آبادی کی چین کو اشد ضرورت ہو گی اب ان کی پیدائش کا سلسلہ بھی شروع ہو جانا چاہیے۔اسی دوران یہاں مردوں اور عورتوں کی آبادی میں توازن کا مسئلہ بھی نمایاں ہورہاہے‘ اس وقت یہاں جوان مردوں کی تعداد عورتوں سے کوئی ڈھائی کروڑ کے لگ بھگ زیادہ بتائی جارہی ہے۔ اس عدم توازن کے پیچھے بھی روایتی چینی خاندانوں خصوصاً دیہات میں بیٹے کی خواہش کا عمل دخل ہے۔کہتے ہیں کہ چینی مرد وں کو شادی کے لئے دستیاب چینی خواتین میں واضح کمی کا سامنا ہے ‘ویسے تو چینی عورتوں کے لئے بھی شادی لائق مرد ڈھونڈنا کچھ آسان نہیں ہے‘بلکہ لگتا کچھ یوں ہے کہ ڈھنگ کا بندہ ملنا اب ایک عالمی مسئلہ بنتا جا رہا ہے ‘فی الحال تو امکان یہ ہے کہ چینی مائوں کو اپنے بیٹوں کے لئے اپنے سے قدرے ملتے جلتے نقوش والے پڑوسی ملکوں خصوصاًویتنام‘لائوس یا برما وغیرہ کی بہوئوں کے لئے ذہنی طور پر تیار ہو جانا چاہیے۔ا س مقام پر اگر آپ یہ سوچیں کہ میں خاصی بے تکلفی سے انسانوں اور انسانی رشتوں کے بارے میں حساب کتاب کر رہا ہوں تو یہی کہ سکتا ہوںکہ جیسا دیس ویسا بھیس ۔
قصہ مختصر یہ ہے کہ دوسری اولاد کی اجازت دینے کے باوجود معاملہ اتنا سادہ نہیں رہا ہے شادی شدہ جوڑوں کی طرف سے بھی ملا جلا ردعمل آرہاہے۔ پچھلے تیس برسوں میں ایک اوسط چینی خاندان سمٹ کر والدین اور ایک بچے پر مشتمل ہو چکا ہے اور بڑی حد تک لوگ اس طرز زندگی کے عادی ہوچکے ہیں۔آج درمیانی عمر کے شادی شدہ جوڑے جو بغیر کسی بہن بھائی کے پروان چڑھے ہیں ‘اپنی ایک ہی اولاد کے ساتھ رہنے میں کوئی خاص دقت محسوس نہیں کرتے۔ اسی طرح شہروں میں بڑھتا معیار زندگی‘ مہنگائی ‘ماں اور باپ دونوں کی مصروف پیشہ ورانہ زندگیاں بھی بڑے خاندان کی راہ میں حائل ہو جاتی ہیں۔ یہ صرف چین کا ہی نہیں بلکہ سنگاپور‘ جنوبی کوریا ‘جاپان اور تھائی لینڈ جیسے اس خطے کے دیگر ممالک کا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے ‘جہاں شرح پیدائش بہت کم ہو چکی ہے۔دو برس قبل چینی حکام کی طرف سے جن جوڑوں کو اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد ہونے کی وجہ سے دوسرا بچہ پیدا کرنے کی اجازت دی گئی تھی ان جوڑوں کی تعداد تقریباًچودہ لاکھ بنتی تھی۔ ان شادی شدہ جوڑوں میں سے گزشتہ برس کے وسط تک محض بارہ فیصد نے اس سہولت سے فائدہ اٹھانے کے لئے رجوع کیا جو خاصا مایوس کن تھا۔اب جب کہ یہ سہولت سب کو دستیاب ہوگی، کتنے فیصد لوگ اس سے فائدہ اٹھائیں گے اس کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔ اس بات کے خاصے امکانات ہیں کہ خو شحال طبقے کے لوگوں میں دو بچوں کی پیدائش کا رجحان متوسط طبقے سے زیادہ ہوگا‘ ویسے یہاں ایک دلچسپ بات کا ذکر ضروری ہے کہ زیادہ مالدار چینی باشندے پابندی کے سالوں میں بھی ایک سے زائد بچوں کی خواہش پوری کرنے کے لئے اپنے دوسرے بچے کی ولادت ان ممالک میں کروا لیتے تھے جہاں پیدائش پر شہریت مل جاتی ہے یعنی پہلا بچہ چینی اور دوسرا بھی چینی مگر غیر ملکی پاسپورٹ رکھنے والا ۔اب تک کی بیان کی گئی تفصیلات سے برائے مہربانی یہ سوچنے نہ بیٹھ جائیے گا کہ ہم چین کی ان پالیسیوں سے کیا سبق سیکھ سکتے ہیںکیونکہ ہر بات میں دوسرے ملکوں سے طوطے کی طرح سبق نہیں لیا جاتا کچھ اپنا بھی دماغ لڑایا جا سکتا ہے۔ ہمارا مزاج بڑا شاہانہ ہے اور پالیسی بھی اسی اعتبارسے بننی چاہیے یعنی ابتدا میں ہم فی بیوی چا ر بچوں کی پالیسی بھی لا سکتے ہیں۔ چینی حکومت کا معاملہ تو یہ ہے کہ اگر وہ پینتس سال تک اکلوتے بچے پیدا کروا سکتی ہے تو اگلے بیس پچیس برس دو بچوں کی پیدائش کا بھی بندوبست کر لے گی اور اگر کسی نے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تیسری اولاد پیدا کی تو اس سے بھی نمٹ لے گی۔