تگڑی ہوتی چینی قوم کو لاحق موٹاپے کے خدشات

اگر آج سے 35 برس قبل الفاظ کی ضد بنانے کی مشق میں 'موٹے امریکی‘ کا کوئی متضاد لفظ بنانے کا کہا جاتا تو 'دبلے چینی‘ کا لکھنا درست سمجھا جا سکتا تھا۔ اب بہرحال چین کے پلوں کے نیچے سے وقت کا بہت سا پانی بہہ چکا ہے اور چینیوں کی ایک معقول تعداد فربہی کی طرف مائل ہے۔ اگر خوشحالی کا ایک پیمانہ لوگوں کے ڈیل ڈول میں اضافہ ہے تو پھر چین کی موجودہ نسل خصوصاً وہ لوگ جو شہروں میں آباد ہیں اس پیمانے پر پورے اترنے کی پوزیشن میں آ رہے ہیں۔ اگر عام مشاہدے کی بات کی جائے تو ابھی تک چینی قوم موٹاپے کی امریکی یا میکسیکن منزل تک تو نہیں پہنچی‘ جو دنیا کے فربہ ترین لوگوں میں شامل ہیں‘ لیکن یہاں کا ایک طبقہ خصوصاً نو عمر بچے اپنی پچھلی نسل سے جسمانی طور پر کافی تگڑے ہو چکے ہیں۔ میرا ذاتی مشاہدہ اس معاملے میں مزید دلچسپ ہے کہ اکثر گول مٹول بچوں کے ہمراہ ان کے دبلے اور کم قامت کے بزرگوں کو دیکھتا ہوں۔ وہ نسل جو اب ساٹھ سال سے اوپر پہنچ چکی ہے‘ نئی نسل سے جسامت میں کم لگتی ہے‘ اب طویل قامت نوجوان لڑکے‘ لڑکیاں بھی نظر سے گزرتے ہیں خصوصاً یونیورسٹیوں کے طلبا نئے خو شحال چین کی چلتی پھرتی تصویر نظر آتے ہیں۔ بلند قد و قامت والی جدید ملبوسات سے آراستہ شہری بابوئوں کی نوجوان نسل کا اعتماد بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے‘ لیکن ہم اس تصویر کو یہاں کی عمومی صورت حال بھی نہیں سمجھ سکتے‘ مغربی اور وسطی چین کے پسماندہ علاقوں میں خوشحالی کی یہ جسامت پہنچنے میں ابھی خاصا وقت درکار ہے۔ اسی حوالے سے کافی عرصے قبل یہ خبر نظروں سے گزری تھی کہ چینی افواج کے زیر استعمال پرانے ٹینکس نئے بھرتی ہونے والے فوجیوں کے لئے قدرے تنگ پڑتے جا رہے ہیں۔ چینیوں کی نئی نسل میں فربہی کے ابتدائی آثار نظر آنا غیر معمولی بات اس لئے محسوس ہوتی ہے کہ اس ملک نے ماضی میں خوراک کی قلت اور قحط کے بدترین ادوار کا سامنا کیا۔ ان حالات میں برسوں آبادی کا ایک بڑا طبقہ غذائیت کی کمی کا شکار رہا جس نے لوگوں کو جسمانی طور پر لاغر رکھا۔ یہاں اس بات کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ جب ہم چینی زبان میں کسی سے اس کے گھرانے کے افراد کی تعداد پوچھتے ہیں تو سوال ہوتا ہے کہ 'نی دا جیا یو جی کھو رن‘ یعنی تمہارے گھر میں کھانے والے کتنے افراد ہیں؟
ایک عرصے تک غذائی قلت کا سامنا کرنے والی چینی قوم اقتصادی قوت بن جانے کے بعد کیا امریکیوں کے طرز پر موٹاپے (Obesity) کا شکار ہونے جا رہی ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا فوری جواب نفی میں ہی دیا جا سکتا ہے‘ لیکن کیا یہاں آبادی کا ایک مخصوص حصہ خصوصاً شہروں میں رہنے والی فاسٹ فوڈ جنریشن موٹاپے کے مرض میں مبتلا ہو رہی ہے؟ اس سوال کا جواب اثبات میں بنتا ہے۔ آمدنیوں میں اضافہ‘پُرآسائش طرز زندگی‘ کم جسمانی مشقت والے کام اور نت نئے بین الاقوامی ریسٹورنٹس کی تیزی سے پھیلتی ہوئی شاخوں نے شہریوں کی اشتہا میں اضافہ کر دیا ہے۔ ان ریسٹورنٹس اور فاسٹ فوڈ کے مراکز پر چینی باشندوں کا رش لگا ہوتا ہے جو پنیر سے بھرا پیزا اور جہازی سائز کے برگرز بڑے ذوق و شوق سے کھا رہے ہوتے ہیں۔ اس نئے طرز زندگی نے نو عمر آبادی خصوصاً بچوںکے وزن میں کافی اضافہ کر دیا ہے۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ موٹاپا ایک بیماری ہے جو صحت مند جسم یا تھوڑا بہت فربہ ہونے سے بہت مختلف ہوتی ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آر گنائزیشن نے باقاعدہ طور پر اس کی درجہ بندی کر رکھی ہے جس کے مطابق اگر آپ کا جسم اپنے قد کے تناسب سے جسم میں بہت زیادہ چربی (Fats) جمع کر لے تو یہ محض ایک بھاری جسم نہیں رہتا بلکہ ایک مرض کی شکل اختیار کر لیتا ہے جو مزید کئی بیماریوں کی جڑ بنتا ہے۔ اس درجہ بندی کو (BMI) یعنی باڈی ماس انڈیکس کے ذریعے سے جانچا جاتا ہے جو ایک خاص حد عبور کرنے پر موٹاپا (Obesity) کے درجے میں داخل ہو جاتا ہے۔
حالیہ برسوں میں یہاں چھ سے سترہ برس کی عمر کے بچوں میں موٹاپے کی سطح میں تین گنا اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے‘ جس نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ اس مسئلے نے تاریخی طور پر ہلکی پھلکی جسامت رکھنے والی چینی قوم خصوصاً ہیلتھ اتھارٹیز کو ایک نیا چیلنج دے دیا ہے اور اب وہی والدین جو اپنے بچوں کو ہر چیز بخوشی کھلاتے تھے پریشان نظر آتے ہیں۔ یہاں پر چند ایک ایسے ادارے قائم ہو چکے ہیں جہاں موٹاپے کا شکار بچوں کو ایک بورڈنگ سکول کی طرح رکھا جاتا ہے تا کہ جسمانی ورزش اور مخصوص کھانوں کے ذریعے ان کا وزن کم کیا جا سکے۔ مغربی دنیا میں تو یہ ایک پرانا اور تسلیم شدہ مسئلہ ہے اور اس نوعیت کے بے شمار ادارے اور فیٹ فارمز عرصے سے کام کر رہے ہیں؛ البتہ چینیوں کے لئے یہ ایک نیا تجربہ ہے جسے یہاں کی خوشحالی کا سائیڈ ایفیکٹ بھی کہا جا سکتا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک ایسے ادارے میں داخل دس بارہ برس کے چینی بچوں کے متعلق ایک پروگرام بھی دیکھنے کو ملا جہاں وہ مختلف ورزشوں اور مخصوص خوراک کے ذریعے اپنے وزن پر قابو پانے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک مقام پر سینکڑوں اوور ویٹ چینی بچوں‘ بچیوں کو دیکھنا ایک نیا ہی منظر تھا‘ جس کا آج سے بیس پچیس برس قبل تک شاید کوئی تصور بھی نہ کر سکتا تھا۔
میں چینی باشندوں کی بعض عادات کا مداح ہوں‘ جس میں جلدی ناشتہ‘ دوپہر کا کھانا اور شام سات بجے تک ڈنر سے فار غ ہو جانا شامل ہے۔ اسی طرح یہاں پارکس‘ جمنیزیمز اور سکولوں میں جسمانی کھیل کود کی سہولتیں بھی کم و بیش پائی جاتی ہیں۔ اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ چینی باشندوں کی ایک بڑی تعداد ایتھلٹکس سمیت اچھل کود والے اکثر کاموں میں بخوشی حصہ لیتی ہے‘ لیکن ان تمام خوبیوں کے باوجود ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ نئی چینی نسل کی دلچسپیوں میں شامل ہونے والے بعض نئے ٹرینڈز ان کو جسمانی سرگرمیوں سے دور رکھنے کا باعث بنتے جا رہے ہیں۔ ایک رجحان تو خیر گلوبل ہی ہے جس میں بچوں کو ویڈیو گیمز اور نت نئی موبائل ایپلی کیشنز اتنا زیادہ تھرل(Thrill)دے دیتی ہیں جو شاید ان کو اصل کھیل میں بھی نہ مل پاتا ہو‘ مثلاً جو بچے ایکس باکس پر فٹبال کے سنسنی خیز میچز سے لے کر فوجی کمانڈوز کے مشکل ترین آپریشنز بیٹھے بیٹھے محض انگلیاں گھما کر ہی کھیل سکتے ہوں انہیں باہر کی اصل دنیا کافی غیر دلچسپ لگنے لگتی ہے‘ گھر بیٹھے ان گیمز کو کھیلتے اور چپس‘ کو لڈ ڈرنکس وغیرہ سے لطف اندوز ہوتے بعض بچے یقیناً موٹاپے کی طرف مائل ہو سکتے ہیں۔ ان ویڈیو گیمز سے قطع نظر یہاں ایک شکایت یہ بھی عام ہو گئی ہے کہ بچوں پر تعلیمی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے بہت زیادہ دبائو بھی ان کو جسمانی کھیل کود سے دور رکھنے کا باعث بن رہا ہے۔
چینی ہیلتھ اتھارٹیز اور حکام ان مسائل کو کافی سنجیدگی سے لے رہے ہیں اور اس پر پالیسیاں بنانے کے لئے بحث شروع ہو چکی ہے۔ سکولوں میں فراہم کئے جانے والے کھانوں میں سبزیوں سمیت صحت افزا خوراک پر زور دیا جا رہا ہے۔ ایک تجویز یہ بھی ہے کہ موٹاپے کا با عث بننے والے فاسٹ فوڈز اور دیگر اشیا پر زیادہ ٹیکس لگا کر انہیں مہنگا کیا جائے۔ اسی طرح سائیکلنگ کے بجائے آٹوموبائل کے بڑھتے استعمال کو بھی ایک وجہ سمجھا جاتا ہے۔ سب سے واضح اور ہر کسی کو نظر آنے والی وجہ تو وہی طرز زندگی ہے جس نے آسودگی اور آسائش کے ساتھ ہی یہ مسائل بھی تھما دیے ہیں۔ بحیثیت قوم چینی اب بھی فربہی کی عالمی دوڑ میں کافی پیچھے ہیں لیکن بہرحال شامل ضرور ہو چکے ہیں‘ کیا زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح اس میں بھی وہ دنیا کو پیچھے چھوڑیں گے؟ فوری طور پر تو اس کا کوئی امکان نہیں لیکن اس کا کیا کریں کہ محض دس گیارہ فیصد چینی باشندے بھی موٹاپے کی طرف مائل ہوتے ہیں تو تعداد بارہ‘ تیرہ کروڑ تک پہنچ جاتی ہے۔ یار لوگوں نے ایک چٹکلہ تک بنا ڈالا ہے کہ چینیوں کی کمر کا سائز ان کی کل قومی پیداوار یعنی جی ڈی پی جتنی رفتار سے بڑھ رہا ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں