مغرب کا تنو مند ‘بے باک اور بظاہر خاصا آزاد میڈیا چین پر خصوصی نظر کرم رکھتا ہے اور اس کے بارے میں ایک خاص طرح کا تاثر برقرار رکھنے میں ہمہ وقت مصروف بھی رہتا ہے۔ جس طرح یہ میڈیا اپنے کام میں مصروف ہے‘ اسی طرح چینی اپنے کاموں میں لگے ہوئے ہیں اور چینیوں کی اسی بے نیازی پر یہ تائو کھا کر بعض اوقات یہ مزید چڑھ دوڑتا ہے ‘یہ میڈیا چین کے متعلق جو خبریں اور تجزیے دیتاہے اس میں انسانی حقوق ‘سیاسی آزادی سے لے کر آلودگی اور بین الا قوامی قوانین کی خلاف ورزی سب کی ہی ایک مکس پلیٹ شامل ہوتی ہے۔ذاتی طور پر مجھے چین پر ہونے والی تنقید سے زیادہ اس تضحیک آمیز روئیے پر حیرت ہوتی ہے جو ان خبروں اور تجزیوں میں پائی جاتی ہے۔چینی اپنے ملک کا نظام کیسے چلا رہے ہیں یا اپنی ریاست کے چیلنجز سے کیسے نبرد آزما ہوتے ہیں اس پر سوالات اٹھاتے ہوئے اس آزاد میڈیا کے پہلوان‘ تصویرکے اپنے پسندیدہ رخ ہی پیش کرتے رہتے ہیں۔مثلاً تصویر کا ایک یہ رخ بھی تو ہے کہ اتنی بڑی فوجی قوت رکھنے والے چین نے آج تک کتنے ملکوں کو سبق سکھانے کے لئے نیست و نابود کیا ہے؟ یا اپنی کمپنیوں کے مفادات کے لئے کتنی حکومتوں کے تخت الٹے اور وہاں کے حکمرانوں کو قبروں میں پہنچایا ؟ اس سوال کا جواب بڑا آسان ہے کہ چینی اپنے تمام علاقائی اور عالمی مفادات کے باوجود اس طرح کے ہتھکنڈوں سے دور رہتا ہے ۔ایک وقت ایسا ضرور تھا کہ کمیونزم کی گرما گرمی میں چینی کمیونسٹ آئیڈیالوجی سے متاثر گروہ مختلف ممالک میں سر گرم عمل رہے لیکن اس وقت بھی اس کی براہ راست مداخلت کو مغربی دنیا یا آنجہانی سوویت یونین کی سرد جنگ ریسلنگ کے مقابلے میں نہ ہونا ہی سمجھیں۔
چینی حکومت اور یہاں کا میڈیا اپنی ریاست کے مفادات کا تحفظ کرنا بخوبی جانتے ہیں اور بلند آہنگ کرتے ہیں لیکن مغرب غیر جانبداری اور معروضیت کی آڑ میں جو تیر اندازی کرتا ہے اس کے گھائو بھی کچھ کم نہیں ہوتے۔اس وقت اس موضوع کا انتخاب کرنے کی ایک بڑی وجہ میرے کچھ خدشات ہیں کہ پاکستان اور چین کے بڑھتے ہوئے معاشی تعاون سے پیدا ہونے والے نئے امکانات کو وقت گزرنے کے ساتھ منفی پرو پیگنڈے کی کئی لہروں کا سامنا کر پڑ سکتا ہے اور یہ لہریں اتنی مہارت اور فنکاری سے پیدا کی جا سکتی ہیں کہ ان کے پیچھے کوئی ایجنڈا تلاش کرنا دشوار محسوس ہو۔میں نے اب تک کہ یہاں رہنے کے تین برس میں جو کچا پکا سمجھا ہے اس کے مطابق چینی اپنے ریاستی مفادات اور لوگوں کی بہبود کے معاملے میں بڑے حساب کتاب اور منطقی انداز میں چلتے ہیں اور تھوڑی بہت جو رومانویت پائی جاتی ہے وہ قوم پرستی اور اپنی قدیم تہذیب سے منسلک ہوتی ہے۔سیاسی طور پر کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کا ایک بہت بڑا سیٹ اپ ہے جس کے اندر انتخاب اور ترقی کے ذریعے لوگ آگے بڑھتے ہیں‘ ملک کے ہر چپے پر وہاں کے معروضی حالات کے مطابق اس حکمران جماعت کے لوگ اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے رہتے ہیں ‘ گلی محلے سے شروع ہونے والے یہ افراد ترقی کی سیڑھیاں طے کرتے ہوئے اعلی عہدوں تک اسی طرح پہنچتے ہیں جیسے کسی ادارے میں برسوں کام کر تے ہوئے چند افراد بالآخر اونچے عہدوں تک پہنچ جاتے ہیں۔چینی ہزارو ں برس سے ایک مرکزی سیاسی طاقت کے تحت اپنے معاملات چلاتے رہے ہیں اور جن ادوار میں یہ نظام کمزور پڑا ہے وہ ان کے لئے بہت ہی ناخوشگوار ثابت ہوا ہے اس لئے اس پر مچنے والا مغربی شور شرابا کافی بے سرا ہے اور ہمیں اس میں اپنے سر ملانے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہمارے لئے اپنی جمہوریت کا کنسرٹ ہی کافی ہے۔
چین کے حوالے سے ایک پرو پیگنڈا یہ بھی ہوتا ہے کہ یہ ریاست مذاہب اور خصوصاً مسلمانوں کے حوالے سے خاصی بے لچک ہے‘ تو عزیز قارئین آپ کی تسلی کے لئے پہلے تو یہ عرض کر دوں کہ اگر کوئی چینی مرد و خاتون ذاتی حیثیت میں اسلام قبول کرنا چاہتے ہیں تو بڑے شوق سے کریں کوئی قانونی قد غن نہیں ہے اور ایسی دسیوں مثالوں کو میں جانتا ہوں جن میں پاکستانی حضرات کی چینی بیویاں مسلمان ہیں اور ہمارے جیسے ملبوسات پہنتی ہیں ۔ اب یہاں ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی اور دیگر مسلم ممالک کے طلباء و طالبات یونیورسٹیوں میں ہر سطح کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں یہ رمضان کے روزے بھی رکھتے ہیں اور مساجد میں باجماعت نماز کے لئے بھی آزادی سے جاتے ہیں اور اپنی مرضی کا روایتی لباس بھی زیب تن کرسکتے ہیں۔ سرکاری اجازت سے مذہبی عبادت گاہیں بھی موجود ہیں اور کام کرتی ہیں البتہ اگر چینی ریاست اپنے نظام کو چلانے میں کسی بھی مذہب کو جگہ نہیں دیتی تو یہ ان کا سوچا سمجھا طے شدہ فیصلہ ہے ۔
دنیا بھر کی ساس مغرب اور خصوصاً امریکہ ویسے تو ہر طرح کے تجارتی مفاد کے لئے چین کے ساتھ کھڑا ہے لیکن وہ اپنے روایتی تکبر اور چالاکی سے یہ بھی جانتا ہے کہ چین کو کہاں کہاں سے زچ کرنے کا سامان ہوسکتا ہے۔ پاک چین تعلقات سے کسی حد تک جڑاایک معاملہ تو سنکیانگ کا ہے جس میں وہاں کی ایسٹ ترکستان اسلا مک موومنٹ افغانستان کے انتہا پسند گروہوں سے منسلک ہو کر یہاں تشدد کی کارروائیوں میں ملوث رہی ہے۔اس تحریک کے انتہا پسند تانوں بانوں اور کارروائیوں کو روکنے کے لئے چینی حکومت کا موقف بڑا دو ٹوک ہے ۔ چینی اس تنظیم کو اس خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے والا ایک ایسا گروپ سمجھتے ہیں جسے بیرونی قوتیں اپنے مفاد کے لئے استعمال کرتی ہیں۔وہی مغربی میڈیا جو دنیا بھر میں مذہبی انتہا پسندی کی مذمت کرتا ہے سنکیانگ کا ذکر ہوتے ہی انسانی اور مذہبی حقوق کا چیمپئن بننے کے لئے تیار بیٹھا رہتا ہے۔ گزشتہ برس رمضان شروع ہوتے ہی فیس بک پر روزوں اور نماز پر پابندی کے حوالے سے پوسٹیں اتنی تواتر سے نظر آنے لگیں کہ وہ چند احباب جو شاید بہت مذہبی نہیں ہوں گے انہیں شیئر کرنے پر مجبور ہوگئے۔کچھ ہمیں بھی تو علم ہو کہ یہ مہم کہاں سے اتنی پرفیکٹ ٹائمنگ سے شروع ہوئی ۔اسی طرح تبت اور وہاں کی بدھ آبادی کے مسئلے کو اچھال کر بھی چین کو بدنام کیا جاتا ہے اور اس میں ہندوستان جس کی سر حدیں تبت سے ملتی ہیں چھوٹا بن کر امریکہ استاد کی خدمت کرتا ہے ۔ چینی جہاں اپنے اس حساس جغرافیے کی حفاظت کرنا جانتے ہیں وہیں زیادہ مشتعل ہوئے بغیر استاد امریکہ اور چھوٹے انڈیا کے ساتھ مسلسل تجارت کو فروغ دینے میں مصروف ہے تاکہ یہ چھیڑ چھاڑ ایک حد سے آگے نہ بڑھ پائے۔بہرحال اس کو بھی چین کی سافٹ بیلی سمجھ کر خوب مکے جمانے کی کوشش ہوتی ہے ۔
تصویر کا ایک اور رخ یہ بھی ہے کہ وہ چینی باشندے جو پاکستان میں چینی کمپنیوں کے پروجیکٹس یا کاروبارمیں مصروف عمل ہیں ان کو ٹارگٹ کر کے چین کی رائے عامہ کی نظر میں پاکستان کو ایک غیر محفوظ اور غیر مستحکم ملک پیش کیا جائے۔ اس مقصد کے لئے گو کہ ہماری حکومت نے کافی سکیورٹی پلان تیار کرلئے ہیں لیکن کوئی ایک بھی نا خوشگوار واقعہ چینی عوام کو کچھ دیر کے لئے بددل کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ مستقبل کی صورت گری کرنے والے پاک چین معاشی منصوبوں نے بہت سوں کے پیٹ میں مروڑ ڈال رکھے ہیں اور وہ دہشت گردی سے لے کر سافٹ پرو پیگنڈے کی جلیبیاں ضرور تلیں گے ‘ اس ممکنہ مہم کے منفی اثرات سے بچنے کے لئے جو آنے والے وقتوں میں مزید زور پکڑ سکتی ہے سمجھداری سے چین کے ساتھ کھڑا رہنا ہو گا ۔ چینی ریاست نے ہمیں کبھی یہ نہیں بتایا کہ کونسا قانون اسمبلیوں سے پاس کروانا ہے یا ہمارا دستور کیسا ہونا چاہئے اور نہ ہی ہمیں ان چکروں میں پڑنے کی ضرورت ہے کہ چینی اپنی ملکی پالیسیاںکیسے تشکیل دیتے ہیں۔باقی رہ گئی بات کہ ہمیں اپنے تجارتی اور اقتصادی مفادات کس طرح حاصل کرنے ہیں‘ یہ ٹیوشن پڑھانا بھی چینیوں کا درد ِسر نہیں ‘ اپنے اہداف ہمیں خود ہی حاصل کرنے ہوں گے اور شاید یہی وہ معاملہ ہے جہاں ہمیں اپنے دل لگانے اور دماغ کھپانے کی ضرورت ہے۔