برطانوی بادشاہت اور اس کا شاہی خاندان گو کہ اب محض ایک علامتی حیثیت میںریاستی وقار کا نمائندہ بن کر رہ گیا ہے لیکن برطانوی تاج کی دنیا بھر میں حکمرانی کی ایک طویل تاریخ اسے دیگر بادشاہتوں میںکافی ممتاز رکھتی ہے۔ امریکہ کے صدور ہوں یا آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ اور کینیڈا جیسے کامن ویلتھ ممالک کے سربراہان حکومت سب ہی کسی نہ کسی طور اس بادشاہت اور اس کے شاہی خانوادے کو اہمیت اور تکریم دیتے ہیں‘اس علامتی حیثیت کا ریاست برطانیہ اور اس کی ذہین اسٹیبلشمنٹ کافی مہارت سے استعمال کرنا بھی جانتی ہے۔ شاہی خاندان کے افراد کی سماجی سرگرمیاں ہوں یا غیر ملکی دورے ان کو بہت اہمیت دی جاتی ہے ۔ آنجہانی شہزادی ڈیانا نے تو ایک دور میں اس خاندان کو خوبصورتی اور گلیمر کی نئی منزلوں تک پہنچا دیا تھا اور آج بھی ان کے صاحبزادے پرنس ولیم مع اپنی بیوی اور اولاد کے جہاں کا رخ کرلیں وہیں لوگ آنکھیں بچھانے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ موجودہ ملکہ ایلزبتھ گزشتہ چھ دہائیوں سے اس منصب پر فائز ہیں اور دنیا بھر کی اشرافیہ میں ممتاز ترین مقام کی حامل ہیں‘اسی پس منظرکے باعث یہ اپنے رویے اور آداب میں بھی نہایت نفاست کا مظاہرہ کرتی ہیں اور شاید ہی آپ ان سے کوئی ناموزوں بات یا رویہ منسوب کر سکیں۔ گزشتہ برس چین کے صدر نے برطانیہ کا ایک بہت اہم دورہ کیا جس کو سفارتی زبان میں سٹیٹ وزٹ یعنی اعلیٰ ترین دورہ قرار دیا گیا۔ اس دورے میں چین اور برطانیہ کے درمیان کھربوں روپے کے اقتصادی اور تجارتی معاملات طے پائے جو زیادہ تر چین کی برطانیہ میں سر مایہ کاری کے بارے میں تھے۔ سفارتی حلقوں نے اس دورے کو دونوں ممالک کے درمیان ایک گولڈن یا سنہری عہد کا آغاز قرار دیا ‘ اسی دورے کے دوران چینی صدر کو برطانوی وزیر اعظم کے ہمراہ ایک روایتی پب یعنی عوامی شراب خانے میں عام شہریوں کی طرح بئیر کی چسکیاں لگاتے بھی دکھایا گیا۔ جو لوگ انگلینڈ کے عوامی کلچر سے آگاہ ہیں‘ انہیں اچھی طرح علم ہے کہ ایک پب میں بیٹھ کر جھاگ اڑاتی بیئرکے گلاسوں کو پینا انگریزوں کی سماجی زندگی کا کتنا اہم حصہ ہے۔ اسی طرح ملکہ برطانیہ نے چینی صدر اور ان کی اہلیہ کے اعزاز میں ایک پرتکلف سٹیٹ ڈنر کا اہتمام کیا جہاں مہمان اور میزبان ایک دوسرے کے ساتھ جام سے جام ٹکراتے دیکھے جا سکتے ہیں۔اس تمام پس منظر کے بعد آتے ہیں ایک مخصوص واقعے کی طرف جس نے حالیہ دنوں میں اس دورے کے بارے میں ایک بڑی دلچسپ خبر بنائی۔
گزشتہ دنوں ایک ویڈیو کی بڑی تشہیر ہوئی جس میں ملکہ ایلزبتھ کابکنگھم پیلس کی ایک گارڈن پارٹی میں ایک برطانوی سینئر خاتون پولیس افسر سے تعارف کرواتے ہوئے یہ بتایا گیا کہ یہ خاتون چینی صدر کے دورے میں سکیورٹی کی ذمہ دار تھیں۔یہ سننے پر ملکہ نے کہا بیڈ لک یا بری قسمت ۔جب خاتون پولیس افسر نے یہ کہا کہ 'شاید آپ کو اندازہ ہو یا نہ ہو لیکن وہ میرے لئے کافی آزمائش کا وقت تھا‘ اس جملے پر محتاط اور تنازعوں سے دور رہنے والی نوے سالہ ملکہ نے جواب دیا کہ مجھے علم ہے اور وہ (چینی حکام) ہماری خاتون سفیر سے بھی کافی رعونت سے پیش آئے تھے‘ ۔ مذکورہ گفتگو نہ صرف ویڈیو پر ریکارڈ ہوگئی بلکہ اس کی میڈیا پر تشہیر نے کافی سنسنی پھیلا دی۔ چینی صدر کے دورے کے متعلق ملکہ کے ریمارکس پر شاہی محل کے ترجمان نے کہا کہ ہم ملکہ کی نجی گفتگو پر کوئی تبصرہ نہیں کر سکتے البتہ چینی سٹیٹ وزٹ بہت کامیاب رہا ہے اور تمام فریق اس کامیابی کو یقینی بنانے کے لئے مل کر آگے بڑھتے رہیں گے۔ اسی طرح جب چینی وزارت خارجہ کے ترجمان سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو ان کا مختصر سا جواب یہ تھا کہ اس دورے نے چین اور برطانیہ کے درمیان ایک سنہری عہد کا آغاز کیا ہے۔
ترجمانوں کے جواب سے قطع نظر ان کمنٹس نے مغربی اور چینی پریس میں ایک مصالحے دار بحث کا آغاز بھی کردیا۔برطانوی اخبارات نے ریکارڈ ہونے والے ان ریمارکس کو ملکہ کی اس وقت ان کے ہاتھ میں موجود پلاسٹک کی چھتری کا شاخسانہ قرار دیا جس کے باعث آڈیو کیمرے کے مائک تک با آسانی پہنچ گئی‘ اس کے خیال میں اگر یہ چھتری کپڑے کی ہوتی تو آواز مشکل سے ریکارڈ ہو پاتی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بی بی سی جیسے مستند اور موقرنشریاتی ادارے نے اس ریکارڈنگ کو چلا کر ایک خبر بنا دیا جو ایک غیر معمولی ایڈیٹوریل فیصلہ تھا۔ چینی اخبار گلوبل ٹائمز نے اپنے اداریے میں برطانوی میڈیا کو کافی آڑے ہاتھوں لیا اور اس کو بد تہذیب اور غیر ذمہ دارنہ قرار دیتے ہوئے اس واقعے کو ضرورت سے زیادہ اچھالنے والا کہا۔ انگلینڈ میں رہنے کے دوران مجھے اس بات کا تو خوب اچھی طرح اندازہ ہو گیا تھا کہ یہاں معقول اور سنجیدہ اخبارات سے ہٹ کر چند اخبارات یا ٹیبلائڈز (Tabloids) مصالحے دار خبروں اور تصویروں کے ذریعے کس قسم کی صحافت کرتے ہیں ‘ عوامی دلچسپی کے لئے سنسنی پھیلانے والی چٹ پٹی خبروں اور تصاویر کو دیکھ لیں تو ہمیں پاکستانی اخباری صحافت کافی معقول معلوم ہونے لگے ۔ اہم لوگوں خصوصاً مشہور اور گلیمرس شخصیات کی ذاتی زندگیوں پر ان کی بعض خبریں اور تصاویر تو ایسی ہوتی تھیں کہ ان کا ذکر بھی نہیں کیا جا سکتا۔اس کے بر عکس روایتی چینی مائنڈ سیٹ میان زی(Mianzi) یعنی چہرے یا رتبے کی عزت نہ کھونے جیسے تصورات پر قائم ہے جہاں لوگ اپنی عزت اور انا کے بارے میں بہت حساس ہوتے ہیں اور بات جب سربراہان کی ہو تو یہ معاملہ اور بھی اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔
ملکہ کی غیر رسمی گفتگو کے عام ہو جانا چین اور برطانیہ کے ماضی کے تعلقات کے لحاظ سے کوئی اتنی بھی بڑی بات نہیں بنتی کیونکہ ان ممالک کا تاریخی رشتہ کوئی بہت زیادہ ہموار یا خوشگوار نہیں رہا ہے اور یہ بات بھی سمجھ آتی ہے کہ چین کی بڑھتی اقتصادی طاقت اور امارت برطانوی اشرافیہ کے لئے ہضم کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ چینیوں کی حالیہ ترقی پر مغربی باشندوں خصوصا یورپی اشرافیہ کا حال بالکل ایسا ہی ہے جیسے کسی بہت بڑے کلف لگے افسر کے پاس ایک عام کلرک خوشی سے مٹھائی کا ڈبہ لے کر آئے اور یہ بتائے کہ اس کے بیٹے نے افسری یا ڈاکٹری وغیرہ کا امتحان پاس کرلیا ہے اور وہ صاحب دل پر جبر کرتے ہوئے اسے مبارک باد دیں جبکہ ان کی اپنی اولاد یہ نہ کر پا رہی ہو۔ بظاہر ان اتفاقیہ واقعات سے چین اور ترقی یافتہ مغرب کے درمیان ریاستی سطح کے تعلقات کی ایک بڑی تصویر ضرور نظر آتی ہے۔ جیسے جیسے چین کا ایک عالمی اقتصادی قوت کے طور پر تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے اور اس کے گلوبل ڈیزائنز واضح شکل اختیار کر رہے ہیں روایتی طاقت کے مراکز اپنے مفادات کو زک پہنچتا بھی دیکھ رہے ہیں۔ چینیوں کی پالیسی سے مقابلہ کرنے میں اس کے حریفوں کو ایک مشکل یہ بھی درپیش ہے کہ چینی ریاست اور عوام دونوں ہی دنیا بھر سے تجارت‘ کاروبار اور سیاحت کے ذریعے اپنا تعلق جوڑ رہے ہیں۔ عام چینی باشندہ گوری چمڑی کو خاصی اہمیت دیتا ہے اور امریکیوں سمیت ہر وہ مغربی قوم جو ایجادات اور ٹیکنالوجی میں مہارت رکھتی ہے ان کے نزدیک اہم ہے۔ یہاں کے کاروباری اور تعلیمی ادارے مغرب سے تعاون پر بہت خوش ہوتے ہیں اور اس کی قدر کرتے ہیں اسی طرح مجھے چینیوں میں مغربی طور طریقوں سے کسی قسم کی نا پسندیدگی کا کوئی مشاہدہ نہیں ہوا‘ البتہ ان کا اپنا لائف اسٹائل اور کلچر خود اتنا توانا ہے کہ غیر ملکیوں کو متاثر کر دیتا ہے ۔ اسی طرح معاشی بحرانوں کے شکار مغرب کے لئے چینی سرمایہ بھی اہمیت رکھتا ہے اس لئے اختلافات اور مقابلہ فی الحال اپنی حدود میں ہی ہے۔ اس سارے تجزیے کی آخری بات یہی ہے کہ چینی اپنے مزاج کی قوم ہے ‘ کبھی ٹھنڈی کبھی گرم ‘ کبھی میٹھی تو کبھی ترش اور اب دوسروں کے تکبر کو خاطر میں لانے کے لئے بالکل تیار نہیں ہے۔ اگر ملکہ برطانیہ کے مزاج پر کچھ گراں گزرا ہے تو یہ ان کے لئے زیادہ اہم بات نہیں البتہ اس کی تشہیر ان کو بالکل پسند نہیں آئی ہے ۔باقی رہ گئی بڑی طاقتوں میں کشمکش کی اخلاقیات تو اس طرح کے کھیل میں اخلاقیات کے اصول اور طریقے حالات طے کرتے ہیں چاہے اس کے کھیلنے والی نہایت نفیس برطانوی اشرافیہ ہو یا جفا کش اور حقیقت پسند چینی ۔