علاقائی اور عالمی منظرنامے پر نئی بساط بچھ رہی ہے۔ اس ابھرتے ہوئے منظرنامے میں ہر ملک کو اپنی صلاحیتوں سے بڑھ کر کارکردگی دکھانا ہو گی۔ چین نے اقتصادی ترقی کے بڑے ملکی اہداف حاصل کرنے کے بعد اپنے قرب و جوار سمیت دنیا بھر سے نئے روابط قائم کرنے کا آغاز شروع کر دیا ہے۔ بظاہر چینیوں کی پالیسی میں دو نکات بہت نمایاں ہیں‘ جس کو ان کی ماضی قریب کی پالیسی کا تسلسل ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ پہلا نکتہ دنیا بھر سے زمینی اور سمندری راستوں کے ذریعے تجارتی طور پر جڑنا‘ اور دوسرا اپنے مفادات کو دوسرے ممالک کے مفاد سے اس طرح منسلک کرنا ہے کہ کسی ایک طاقت کے غلبے کے بجائے پارٹنرشپ کا تصور قائم کیا جائے۔ پہلے نکتے کا عنوان چین کی سب سے اہم پالیسی 'ون بیلٹ ون روڈ‘ ہے۔ چینی صدر 'شی چن پھنگ‘ نے اس پالیسی کا اعلان 2013ء میں ہی کر دیا تھا اور فی الوقت یہ چین کی عالمی پالیسی کا بنیادی اور اہم ترین ستون ہے۔ پاکستان میں چینی سرمایہ کاری کا بہت زیادہ ذکر ہو رہا ہے اور بڑی حد تک ہماری اندرونی سیاست بھی اس سے جڑ چکی ہے۔ پاکستان چین اقتصادی راہداری کے پس منظر میں بعض اوقات یہ بحث ضرورت سے زیادہ سادگی کا شکار نظر آتی ہے۔ اس موقع پر بہتر تفہیم کے لئے ضروری ہو گا کہ ہم پاکستان اور چین کے حالیہ اقتصادی روابط کو 'ون بیلٹ ون روڈ‘ کے بڑے تناظر میں دیکھیں۔
چین رقبے کے لحا ظ سے تقریباً امریکہ جتنا ہی ہے اور آبادی کے لحاظ سے امریکہ سے چار گنا بڑ۔ ایک سہولت جو قدرت نے امریکہ کو دی ہوئی ہے یعنی اس کے مشرق میں بحرالکاہل اور مغرب میں بحر اوقیانوس کی طویل ساحلی سرحد اور دنیا بھر سے ایک قابل ذکر فاصلہ‘ وہ چین کو میسر نہیں۔ امریکہ کے شمال میں کینیڈا جیسا ٹھنڈا‘ میٹھا خوش مزاج ملک ہے تو جنوب میں میکسیکو جنوبی امریکہ سے اس کا تعلق جوڑتا ہے۔ اس پر بھی یہ حال ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ میکسیکو کی سرحد کے ساتھ دیوار کھڑی کرنے کی باتیں کر رہے ہیں۔ چین کی بات کی جائے تو صرف زمینی طور پر ہی اس کی براہ راست سرحدیں چودہ ممالک بشمول پاکستان سے جڑتی ہیں۔ چین کو مشرق اور جنوب میں طویل ساحلی خطہ دستیاب ہے‘ لیکن ان کے بھی قرب و جوار میںکوریا‘ جاپان سے لے کر تھائی لینڈ‘ ملائیشیا تک کئی ممالک ہیں۔ جنوبی چین کا یہ سمندر دنیا کی مصروف ترین تجارتی گزرگاہوں میں سے ایک ہے۔
پاکستان کی اقتصادی راہداری اس ون بیلٹ‘ ون روڈ کا ایک حصہ ہے‘ اسی طرح کی دیگر زمینی راستوں میں روس اور منگولیا کی راہداری‘ چین سنٹرل اور ویسٹرن ایشیا کا روٹ اور جنوب میں برما (میانمار)‘ انڈیا اور بنگلہ دیش کو جوڑنے والا روٹ بھی شامل ہے۔ چین کے وسط میں تاریخی شہر شیان سے‘ وسط ایشیا کو ماسکو اور بعد ازاں ہالینڈ اور اٹلی تک روڈ اور ریلوے کے ذریعے ملانا بھی اسی منصوبے کا اہم ترین جزو بنے گا۔ سمندری راستوں کا جنوب اور جنوب مشرقی ایشیا کے سمندروں میں بندرگاہوں کا ایک ایسا سلسلہ ہو گا جو مشرقی افریقہ کے ساحلوں سے ہوتا ہوا مصر تک پہنچے گا۔ اسے 'میری ٹائم سلک روڈ‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ بہت بڑا اسکوپ اور وژن ہے اور اکثر جو ہم لفظ گیم چینجر استعمال کرتے ہیں یہ اس کی عملی تفسیر ہے۔
اس ون بیلٹ ون روڈ کا اسکوپ کتنا بڑا ہو سکتا ہے اس کو سمجھنے کے لئے یہ جان لیں کہ اپنی تمام جزئیات کے ساتھ پورا ہونے کی صورت میں 65 کے لگ بھگ ممالک اور چار ارب سے زیادہ لوگ اس سے منسلک ہو جائیں گے جو گلوبل ڈومیسٹک پروڈکٹ(GDP) کا چالیس فیصد تک بنتا ہے۔ اتنے بڑے خواب کی تکمیل آسان کام نہیں۔ شاید یہ انسانی تاریخ میں کسی بھی ریاست کا سب سے بڑا عالمی اقتصادی منصوبہ سمجھا جا سکتا ہے۔ یہ صرف سڑکوں‘ ریل کی پٹڑیاں بچھانے یا پورٹس بنانے کی حد تک نہیں ہے بلکہ ان سارے راستوں پر بڑے صنعتی اور توانائی کے منصوبوں کا ایک جال بھی بچھایا جائے گا۔ ان مقاصد کے حصول کے لئے تیل اور گیس کی پائپ لائنیں بھی ہزاروں کلومیٹر تک پھیلیں گی۔ اس وژن کی تکمیل کے لئے بے تحاشہ سرمایہ اور وسائل درکار ہوں گے‘ جن کا بنیادی بندوبست چین نے کر لیا ہے۔ سمندری راستے والی یعنی میری ٹائم سلک روڈ کے لئے چالیس ارب ڈالر کے ابتدائی فنڈز مہیا کئے جا رہے ہیں جس کے ساتھ نجی سرمایہ کاری کی بھی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ چین نے یہ فنڈز اپنے فارن ایکس چینج ریزروز سے مختص کئے ہیں۔ ون بیلٹ‘ ون روڈ کے منصوبوں میں سرمائے کی فراہمی کے لئے ایک نیا بینک 'ایشیا انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک‘ قائم کیا گیا ہے جو ایک سو بلین ڈالر تک کا سرمایہ فراہم کرنے کی پوزیشن میں ہو گا۔ اس نئے بینک کا صدر دفتر بیجنگ میں ہے۔ اسی طرح چائنا ڈویلپمنٹ بینک کے مطابق وہ ساٹھ ملکوں کے سینکڑوں منصوبوں کے لئے نو سو ارب ڈالر تک فراہم کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے۔
اس انتہائی پُرعزم اقتصادی تصور کو درپیش آئندہ چیلنجز سے مستقبل کے سارے واقعات جڑے ہوئے ہیں اور اسے اگر ایک نیا گریٹ گیم کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ اب تک کی دنیا میں معاشی بالادستی کے نام پر ہر طرح کی ڈوریں امریکہ اور اس کے اتحادی ہی ہلاتے آرہے ہیں‘ چین کی انٹری نے ڈائنامکس کو تبدیل کر دیا ہے‘ جس کے نتیجے میں کشمکش نے زور پکڑنا شروع کر دیا ہے اور گرما گرمی کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔ اس بات کی وضاحت کے لئے ہم چین پاکستان اقتصادی راہداری کو ایک مثال بنا سکتے ہیں کہ 'ون روڈ‘ ون بیلٹ‘ کے ابتدا میں خاصی پیش رفت اسی طرف ہو رہی ہے۔ امریکہ‘ جو دنیا بھر کے اقتصادی کیک کا سب سے بڑا حصہ نوش کرتا ہے‘ اپنے پرانے اور نئے دوستوں کے ذریعے چین کے منصوبوں کے اثرات کم کرنے کی کوشش میں لگ چکا ہے۔ ایران سے اس کی مصالحت میں عجلت اور انڈیا کے لئے اچانک محبت کے ٹھاٹیں مارتے سمندر کا مقصد محض اپنی کمپنیوں کو فائدہ پہنچانا ہی نہیں بلکہ اس خطے میں چینی سرمایہ کاری کو مشکلات میں ڈال کر اس کے پھیلائو کی رفتار کم کرنا بھی ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں کی شورش‘ انتہا پسند مسلح گروپوں کی فرنچائز اور پاکستان کے داخلی عدم استحکام کو ہوا دے کر ان منصوبوں کی تکمیل چین کے لئے ایک درد سر بنانے کی کوششیں شروع ہو چکی ہیں۔
چین بہت حقیقت اور عملیت پسند ریاست ہے‘ اور غیر ضروری جھمیلوں میں کودنے سے گریز کرتی ہے۔ فوجی طاقت کا استعمال یا دوسرے ملکوں میں مسلح دراندازی ان کی پالیسی میں شامل نہیں۔ ان کے تجارتی مفادات دنیا کی بیشتر ریاستوں سے منسلک ہیں اور یہی ان کا سب سے موثر ہتھیار ہے۔ صرف جنوبی چین کی سمندری حدود کے بعض تنازعات میں یہ اپنی بحری طاقت کا خاموش مظاہرہ کرتے رہتے ہیں لیکن پاکستان کے معاملے میں یہ ہماری حکومت اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے ہی معاملات سدھارنے کی توقع رکھیں گے۔ اس منصوبے پر سکیورٹی اور اسپیڈ ان کی پہلی اور آخری ڈیمانڈ ہے اور یہ دو معاملات ریاست پاکستان کو ہی حل کرنے ہوں گے۔ سکیورٹی ہماری مسلح افواج کی مدد سے اور اسپیڈ حکومت وقت کی کارکردگی سے منسلک ہو گی۔ اسی طرح ہمارے وہ نجی صنعتی اور تجارتی ادارے جو چین کے تعاون سے کام کر رہے ہیں یا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ان کو بھی کافی فعالیت دکھانے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم ون بیلٹ‘ ون روڈ کے اس اہم جزو کو کامیابی سے مکمل کرواتے رہیںگے تو چینیوں کے خواب کی تکمیل اور اقتصادی ترقی کے ہمارے ارمان پورے ہو سکیں گے۔
اس نئے گریٹ گیم کے اتار چڑھائو شاید کسی سنسنی خیز فلم کی طرح بہت تیزی سے اور کم وقفے کے ساتھ ہوں۔ پاکستان کو قدرت نے ایک نادر موقع دیا ہے کہ ہم اپنی معاشی حالت کو پلٹ سکیں لیکن درپیش چیلنجز سے نمبٹنے کے لئے ہمارا اندرونی استحکام بہت ضروری ہے۔ ملک کے اندر اداروں کی کشمکش کا تاثر یا غیر ضروری سیاسی ہیجان ہمارے مخالفین کے لئے ایک نعمت ثابت ہو سکتا ہے۔ چین نے ترقی کی منزلیں تیزی سے اپنے ریاستی استحکام کے باعث طے کی تھیں‘ ہمیں بھی اسی نقش قدم پر چلتے ہوئے یہ منزل مل سکتی ہے۔ بہتر ہو گا کہ ہم اپنے مکے آپس کے بجائے ملک دشمنوں کے لئے بچا رکھیں۔