میرا دل تو نہیں چاہتا کہ محترم چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو خارش سے تشبیہ دوں لیکن اس سے انکار کرنا مشکل ہے کہ کل کے ''جمہوریت پسند‘‘ آپ سے الرجک تھے‘ اور آج کے ''جمہوریت پسند‘‘ بھی آپ سے الرجک ہیں۔ ہمیں بحیثیت قوم بھولنے کی بیماری تو ہے لیکن مخصوص مواقع پر یہ بیماری زیادہ مہلک ہو جاتی ہے۔ ہمارے اصول، قاعدے اور قوانین ہماری اپنی پسند‘ ناپسند اور مفادات سے نتھی ہیں۔ سکرپٹ، ڈائریکٹر اور فلمائے گئے منظر سب پرانے ہیں، بشمول باڈی گارڈ کے... ایک فلم کے مشہور گانے ''تیری میری، میری تیری پریم کہانی ہے مشکل‘ دو لفظوں میں یہ بیان نہ ہو پائے‘‘ پہ آج بھی رقص جاری ہے۔ کرینہ اور خان کی جوڑی ہے اور وہی تگڑا باڈی گارڈ۔
پچھلے برس بلوچستان اسمبلی کو اخلاقیات کا درس پڑھایا گیا۔ اراکین اسمبلی بہت ذہین و فطین اور محنتی طالب علم ثابت ہوئے۔ متحدہ قومی موومنٹ کو حب الوطنی کے سرٹیفکیٹس سے محروم کر کے اور چند ایک کو جیل میں ڈال کر یہ سبق حفظ کرا دیا گیا۔ تحریک انصاف کا چونکہ سیاسی مستقبل سنورنے والا تھا‘ سو یہاں منانے میں اتنی محنت درکار نہیں تھی۔ ایک زرداری سب پر بھاری کی راتوں رات چاندی ہو گئی۔ یوں لے دے کے ایک‘ جو ہمیشہ بھاری رہنے کا عادی تھا، اس ''جمہوری‘‘ کاوش سے وقتی طور پر ہی سہی‘ مزید بھاری ہو گیا۔ یوں چیئرمین سینیٹ تبدیل بھی ہوا اور سب کے اہداف بھی حاصل ہوئے۔
چیئرمین سینیٹ کے پاس ویسے تو فیصلے کرنے اور فیصلوں کو بدلنے کا کوئی ویٹو اختیار نہیں‘ مگر اس سارے معاملے سے جو پیغام دینا مقصود تھا‘ وہ کل بھی واضح تھا اور آج بھی نمایاں ہے... کہ باڈی گارڈ کو کراس نہیں کرنا، وہی طاقت کا اصل محور ہے۔
صادق سنجرانی‘ زرداری عمران ایگریمنٹ کی ضمنی پیداوار ہیں۔ انہیں ایوانِ بالا کی سربراہی سونپنے کا فیصلہ کسی اور کا تھا بھی تو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کا کردار بہت واضح رہا۔ آج جب ان میں سے ایک جماعت دیوار سے لگائے جانے کے بعد اپوزیشن کا حصہ بن چکی ہے تو اس کے نزدیک سنجرانی صاحب جمہوریت کی نہیں سیاہ دن کی علامت بن چکے ہیں۔ بالکل ایسے جیسے ایک کا ضمیر جاگنا دوسرے کے ضمیر فروش ہونے کے مترادف ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ ہونے کے عہد‘ جسے ماضی میثاق جمہوریت کے نام سے یاد رکھے گا‘ کا جنازہ بہت دھوم سے نکلا ہے۔ گویا جمہوری سسٹم حق رائے دہی کو شفاف رکھنے میں ناکام۔ حکومت ممبران کی خرید و فروخت، ہارس ٹریڈنگ اور وفاداریاں بدلنے کے الزام سے بچنے میں ناکام۔ اپوزیشن حکومت کو دبانے اور اتحاد کا طرہ جمانے میں ناکام۔ مگر کہنے کو سینیٹ چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہوئی ہے۔ یہ سیاست کی کرشمہ سازی ہے کہ خان صاحب اپنے تئیس اراکین کو جماعت سے اس لیے علیحدہ کر دیتے ہیں کہ ان پر وفاداریاں بدلنے کا شبہ تھا‘ مگر آج حکومت کی جھولی میں اپوزیشن کے نو اراکین بلا واسطہ اور پانچ بالواسطہ آن گرے تو ضمیر جاگنے کا صیغہ استعمال ہوا۔ بلاول بھٹو صادق سنجرانی صاحب کو سلیکٹڈ اور پلانٹڈ چیئرمین کہہ رہے تھے۔ یہ سوال تو انہیں اپنے والد محترم سے پوچھنا چاہے کہ ایک زیرک سیاست دان اور معتبر چیئرمین رضا ربانی کی قربانی دے کر انہوں نے صادق سنجرانی کو سلیکٹ کیوں کیا یا کرایا؟ اب صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک ہارس ٹریڈنگ کے باعث ناکام ہوئی ہے تو یہ اپوزیشن کے عدم اعتماد کا نتیجہ ہے یا اسے ریاست بمقابلہ ریاست کی جنگ کا خلاصہ کہا جائے؟ مختصر یہ ہے کہ سسٹم ناکام ہوا ہے‘ جمہوریت ناکام ہوئی ہے‘ اصولوں کی سیاست، نئے پاکستان کا خواب اور تبدیلی ناکام ہوئی ہے۔
کل تک اپوزیشن کی دو بڑی جماعتیں خفیہ رائے شماری (سیکرٹ بیلٹنگ) کے حق میں تھیں، تو آج خاموشی سے بک جانے والوں کے خلاف آہ و بکا کیوں؟ جیسے اٹھارہویں ترمیم میں آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ نہ نکالنا بعد میں ان کے لیے وبال جان بنا، الیکشن ایکٹ میں ترامیم کے دوران خفیہ رائے شماری کو جاری رکھنے کا نتیجہ بھی آج انہی جماعتوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔
خفیہ رائے شماری کو آسٹریلین رائے شماری کے نام سے بھی جانا جاتا ہے‘ جس میں ووٹر کا نام اس لیے صیغہ راز میں رکھا جاتا ہے کہ ووٹر کو نہ خریدا جا سکے اور نہ ہی بلیک میل کیا جا سکے۔ خفیہ رائے شماری کا اہم ترین مقصد سیاسی راز داری کا تحفظ ہے۔ یہ سسٹم امریکا اور برطانیہ میں اٹھارہویں صدی سے رائج ہوا۔ پاکستان میں خفیہ رائے شماری سپیکر، ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کے انتخاب میں بھی استعمال ہوتی ہے۔ فائدہ یہ ہے کہ اس طرح ہائوس کے کسٹوڈین کے لیے جانبدار ہونے کا جواز ختم ہو جاتا ہے۔ وہ یہ جانے بغیر کہ کس نے اس کے حق میں ووٹ ڈالا، اور کس نے خلاف کسی بھی قسم کی تفریق سے مبرا ہو جاتا ہے۔
بد قسمتی سے سیاسی راز داری، پوری آزادی اور اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ کاسٹ کرنا ہمارے سیاسی نظام کے لیے خطرناک ثابت ہو رہا ہے۔ شاید سیکرٹ بیلٹنگ کا طریقہ کار ہمارے لیے موضوع ہی نہیں۔ یہاں ضمیر کا بھائو بڑے آرام سے لگایا جا سکتا ہے۔ کبھی مجبوری‘ کبھی دھونس دھمکی... اور کبھی بریف کیس ضمیر کے فیصلوں کا تعین کرتے ہیں۔
صادق سنجرانی کے معاملے میں اگر حکومت ہار بھی جاتی تو اتنا بڑا نقصان نہیں تھا جتنا کہ اپوزیشن کی سیاست کو پہنچا ہے۔ ایک بڑی کاوش کے بعد مولانا صاحب اپوزیشن کو متحد کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ تمام اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے لیے سر جوڑا تو سینیٹ کے چیئرمین کو ہٹانے کا فیصلہ ہوا۔ اپوزیشن کے چونسٹھ اور حکومت کے چونتیس اراکین کے فرق کے ساتھ ہدف کا حصول آسان بھی تھا اور یقینی بھی اور یہ واحد نکتہ تھا جس پر اپوزیشن متفق نظر آئی‘ وگرنہ مذہب کو سیاست میں استعمال کرنے، سڑکوں پر احتجاج اور حکومت گرانے پر تمام حزب اختلاف کی جماعتوں کی اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد تھی۔ سینیٹ کے چیئرمین کو ہٹانے پر اتفاق اپوزیشن کے اتحاد اور پاور شو کی گارنٹی تھا... جو کہ لا حاصل رہا۔ شکست خوردہ اپوزیشن کے لیے ایک بار پھر سیاسی جنگ کا آغاز مشکل ترین مرحلہ ہو گا۔ دوسرا اہم ترین نکتہ، سیاسی جانشینوں کی سیاست سے متعلق ہے جن کے جوش‘ حکومت کے ہوش اڑانے والے تھے۔ نئے خون میں ٹھاٹھیں مارتا یہ سیاسی ولولہ سیاسی نا پختگی ثابت ہوا۔ دما دم مست قلندر کی کال دینے والے بلاول بھٹو کے پہلے والد محترم گرفتار ہوئے، پھر بجٹ پاس ہوا، اور اب چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کا خواب ادھورا رہ گیا۔ ایوان بالا میں تبدیلی کی تحریک اور تحریک کے ناکام ہونے تک جمہوریت کی خدمت کب اور کس نے کی؟ کیا اپوزیشن جماعتوں نے جنہوں پاور شو کے لیے اس تحریک کا آغاز کیا یا پھر حکومت نے جس نے اپنی دھاک بٹھانے کے لیے اپوزیشن کے چودہ اراکین کے ضمیروں کو زبردستی زندہ کیا۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ اب کی بار ضمیر جگانے کے لیے پیسہ نہیں کچھ اور استعمال کیا گیا۔ اب یہ با اصول سیاست کی بے اصولیاں ہی ہیں کہ صادق سنجرانی صاحب کے حق میں ضمیروں کو جگانے کا کام حکومت کی طرف سے ہوا اور سلیم مانڈوی والا کے حق میں ضمیروں کو ووٹ نہ ڈالنے پر آمادہ اپوزیشن نے کر لیا... اہل سیاست کے جمہوری ہونے کا معاملہ بھی اتنا ہی لچک دار ہے جتنا کہ سیاست کے اصول۔ بوقت ضرورت سیاست دان جمہوری ہوتا... اور ضرورت پڑنے پر تھوڑا سا غیر جمہوری تڑکا لگایا جاتا ہے۔ پرانے پاکستان میں بھی اصول اور جمہوریت کا معاملہ یہی تھا اور نئے پاکستان میں بھی اس روایت کو اسی شد و مد کے ساتھ برقرار رکھا گیا ہے۔ سیاست میں اس دہرے معیار کا تعین بینچوں کی مناسبت سے کیا جاتا ہے۔ اپوزیشن بینچوں پر ممکن ہے جمہوریت، جمہوریت کا شور زیادہ سنائی دے۔ حکومتی بینچ موقع محل دیکھ کے اصولوں کو جمہوریت یا پھر مصلحت سے نتھی کر سکتے ہیں۔ سیاست کی یہ برادری دہری اذیتوں کی وہ گرفتار مسافر ہے جہاں غیر سیاسی دخل اندازی نے ان مسافرانِ سیاست کے پاؤں تو شل کر دئیے ہیں مگر بے اصولی کا شوق نہیں جاتا۔