ایک زخم بہتّر برسوں سے رس رہا ہے۔ وہ زخم جو ملک سے انصاف کو چاٹ گیا۔ وہ زخم جو نظام سیاست میں جمہوریت کو چاٹ گیا۔ وہ زخم جو امن و امان میں قانونیت کو چاٹ گیا۔ وہ زخم جو نظام ریاست میں انسانیت کو چاٹ گیا ہے۔ یہ زخم بے حسی کا وہ زخم ہے‘ جو ہماری یادداشت کو برسوں سے لاحق ہے اور ہم ضمیر کے بوجھ سے ستائے ہوئے لوگ اس زخم کو پالنے پر اکتفا کیے بیٹھے ہیں۔ سانحہ ساہیوال کے ملزمان کو بری کیے جانے کے بعد ماں جائے کا بیان اسی پرانے زخم کی عنایت ہے۔ گولیوں سے چھلنی جوان بھائی کا لاشہ اٹھا کر دن کی سفید روشنی میں وہ بیان دیتا ہے کہ ''ہم مطمئن ہیں‘ تسلی کر لی ہے، بھائی خلیل‘ معصوم بچی اور بیوی کا قتل ایک حادثہ تھا، ہمیں اداروں پر اعتماد ہے‘‘۔ یہ ویسا ہی کرب زدہ اطمینان اور بے وقت اعتماد ہے جو ننھے فرشتوں کو زمین کے حوالے کرنے کے بعد ان بد نصیب مائوں کو دان ہوا ہے۔ یہ ویسا ہی اطمینان ہے، جو معصوم ننھی جانوں کے بھاری تابوت اٹھانے والے والد کو بخشا گیا ہے۔ ان سے ملیے جا کر‘ اداروں پر اعتماد کے ایسے ہی تسلی بخش جملے ان کی زبان سے بھی جاری ہوں گے‘ مگر سسکیوں کے ساتھ‘ آہوں کے ساتھ اور بے شمار آنسوئوں کے ساتھ۔ خیر یادداشت پہ لگا بے حسی کا یہ گھائو اتنا گہرا ہے کہ اگر ذرا سا کھرچا تو پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم کے دن دہاڑے قتل سے دوسرے وزیر اعظم کی پھانسی تک... ایک وزیر اعظم کی جلا وطنی سے دوسری وزیر اعظم محترمہ بے نظیر کے قتل تک... ملک کے دو لخت ہونے سے کارگل کی جنگ تک اور سانحہ بلدیہ ٹائون میں اڑھائی سو افراد کے زندہ جل جانے سے ماڈل ٹائون سانحہ تک... نظامِ سیاست کو، ریاست کو اور قانون کو بھی شرم سے سر جھکانے پڑیں گے۔ سو جانے دیجیے‘ یادداشت کے اس زخم کو آب حیات پلا کر بس عقل کا ماتم کیجیے۔ جہاں ملک کے وزرائے اعظم فراموش ہو گئے‘ وہاں ساہیوال میں قتل ہونے والا خلیل کیا چیز ہے۔ مگر اب کی بار انسانیت کا جنازہ جس دھوم سے نکالا گیا ہے‘ وہ ضمیر پر کبھی کبھی پڑنے والے وقت کے تھپیڑوں کے نشان تک بھی دھو ڈالے گا۔
لاہور کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے شہریوں کی ہلاکت کے مقدمے میں سی ٹی ڈی اور ایلیٹ فورس کے اہلکاروں صفدر حسین، احسن خان، رمضان، سیف اللہ حسین اکبر اور ناصر نواز کو شک کی بنیاد پر مقدمے سے بری کر دیا ہے۔ فیصلے میں یہ باور کرایا گیا کہ استغاثہ ملزمان کے خلاف الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے۔
عینی شاہدین، میڈیکل، ڈیجیٹل‘ شناخت پریڈ‘ مقتول خلیل کے بیٹے عمیر کا بیان‘ فوٹو گرامیٹک ٹیسٹ‘ فرانزک رپورٹ، وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے حکم پر اس واقعے کی تحقیقات کے لیے بننے والی جے آئی ٹی اور لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر اس واقعے کی جوڈیشل انکوائری، تمام کے تمام شواہد کے حصول اور ملزمان کی شناخت میں ناکام رہے۔ اور تو اور عدالت کا فیصلہ کہتا ہے کہ دیگر گواہوں کی طرح اس وقوعہ میں زخمی ہونے والے گواہ بھی ملزموں کی شناخت نہیں کر سکے۔
اب یہاں یادداشت کو ذرا تکلیف دیجیے... جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کے روبرو محمد عمیر ولد محمد خلیل کا تحریری بیان کچھ یوں تھا کہ انیس جنوری کو وہ، ماں نبیلہ، پاپا خلیل، بڑی بہن اریبہ اور دو چھوٹی بہنیں منیبہ اور ہادیہ صبح تقریباً آٹھ بجے سفید آلٹو گاڑی میں نکلے‘ جسے ہمارے ہمسائے انکل ذیشان چلا رہے تھے۔ جب ہماری گاڑی ساہیوال قادر آباد کے قریب پہنچی تو پیچھے سے اچانک کسی نے ہماری گاڑی پر فائرنگ کی اور گاڑی فٹ پاتھ سے ٹکرا کے رک گئی۔ پولیس کے دو ڈالے تیزی سے گاڑی کے پاس آ کر رکے۔ ان میں سے چند نقاب پوش پولیس اہلکاروں نے فوری فائرنگ کر کے انکل ذیشان کو مار دیا۔
کچھ دن بعد بچے کی اس گواہی کو حکومت نے ذہنی دبائو کا نام دے کر سائیڈ پر رکھ دیا۔
یادداشت کو ایک بار پھر تکلیف دینے پر معذرت، فرانزک رپورٹ نے پولیس اہلکاروں کے بیانات کو مکمل طور پر رد کیا‘ جس کے مطابق پولیس وین پر فائرنگ ہلاکتوں سے پہلے نہیں‘ بعد میں ہوئی۔ کسی موٹر سائیکل سوار نے دور سے نہیں بلکہ ایک ڈیڑھ فٹ کے فاصلے سے خلیل اور اس کی بیوی کو مارا۔ کل تک وکیلِ استغاثہ اور خلیل کے بھائی جلیل کا بیان یہ تھا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے‘ انہیں دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ آج وہ ملزمان کے بری ہونے پر اداروں پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے مطمئن ہیں اور وہ بھی مطمئن ہیں جنہیں جان اللہ کو دینے کا احساس بہت ہے۔
محض شک کا فائدہ دے کر ملزمان کو بری کرنے کی خبر جس روز ہمارے اخباروں میں شہ سرخی بنی‘ اسی روز ایک دو کالمی خبر نصرت جہاں قتل کیس کی چھپی‘ جو بنگلہ دیش کی اعلیٰ عدالت میں سنا جا رہا تھا۔ اس مقدمے میں استاد پر جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام لگانے والی نصرت جہاں رفیع کو جلا کر قتل کرنے کے جرم میں 16 افراد کو سزائے موت سنا دی گئی۔ یہ بنگلہ دیش کی عدالت کا انصاف ہے۔ اور ہمارا وتیرہ یہ ہے کہ یہاں جمہوریت کا قتل بھی ہو تو قتل کرنے والوں کو سلامی پیش کی جاتی ہے۔ خیر یہ معصوم جانوں کا ایک مقدمہ تھا جو ریاست نے لڑا اور ریاست نے جیتا۔ ایک اور مقدمہ ریاست جس کی پیروی کر رہی تھی‘ وہ عدالت کی کسی الماری میں پڑا اپنی آخری سانسیں گن رہا ہے۔ وہ اس ملک کے سابق صدراور سابق مطلق العنان کا ہے‘ جنہیں عدالتوں نے درجن بھر سے زائد بار پیش ہونے کا حکم دیا‘ مگر ان کا مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ اور بالآخر یہ مقدمہ ہی اپنی موت آپ مر گیا۔ ایسا ہی ہونا تھا۔ جس قوم کی یادداشت کو بے حسی کا مہلک مرض لاحق ہو‘ وہاں مقدمات کی پیروی ایسی ہی ہوتی ہے۔ ہم اس مرض کے پرانے اسیر نہ ہوتے تو جسٹس نسیم حسن شاہ کے بھٹو کے عدالتی قتل پر اعتراف کے بعد بہت نہ سہی‘ کچھ تو سدھر گئے ہوتے۔ اب ریاست کے روبرو ایک اور امتحان آ کھڑا ہوا ہے۔ ایک طرف ملک کے تین بار منتخب وزیر اعظم کی علالت ہے‘ اس کی سیاست ہے، مقدمات ہیں اور سیاست کا ماضی ہے۔ اور دوسری طرف قانون اور قانون کی تشریح۔ میاں صاحب علیل ہیں، خدا انہیں صحت یاب کرے، ہم تہہ دل سے دعا گو ہیں۔ ہماری ریاست چونکہ آج تک بھٹو کے عدالتی قتل کا قرض نہیں چکا پائی‘ سو اب کی بار ہر وہ قانونی رکاوٹ عبور کرنے کے لیے تیار ہے‘ جو میاں صاحب کی علالت کے ذمہ دار ہونے سے ریاست کو بچا سکے۔ مریم کو رات گئے اپنے والد محترم سے ملنے کی اجازت دی گئی۔ ان کی تیمارداری کے لیے ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ میاں صاحب چوہدری شوگر ملز کیس سے بری ہو گئے۔ میاں صاحب کو راتوں رات بیرون ملک علاج کی اجازت بھی مل گئی۔ یہ سب کسی این آر او کے نتیجے میں نہیں بلکہ ریاست کی خصوصی رحم دلی اور ماضی کا ازالہ کرنے کی صورت میں ممکن ہوا ہے۔ رہا قانون کا معاملہ تو اس کے تقاضے کسی اور مقدمے میں کسی اور وقت پورے کر دیے جائیں گے۔ یہاں ریاست کا قانون بھی ریاست کی طرح من موجی ہے۔ ممکن ہے مولانا صاحب کے آزادی مارچ سے پہلے میاں صاحب جیل سے آزاد ہو جائیں۔ مولانا صاحب کی فلائٹ اسلام آباد پہنچ پائے یا نہ پہنچ پائے‘ میاں صاحب کی فلائٹ کے ہیتھرو ایئر پورٹ پر لینڈ ہونے کے امکانات زیادہ قوی ہیں۔ سو اپنی یادداشت کو زیادہ چھیڑنے کی ضرورت نہیں۔ زخم ابھی ہرا ہے اور اسے ہرا ہی رہنے دیجیے‘ ورنہ یہ ضمیر کو جگا سکتا ہے۔ اور اگر ریاست کا ضمیر جاگ گیا‘ تو ریاست کے لیے مجرموں کا دفاع کرنا مشکل ہو جائے گا۔