سیاست کی منڈی میں جمہوریت کو لاحق خطرات‘ سیاسی تفرقات‘ اتحاد اور نظریات کا بیوپار بڑی دل جمعی سے کیا جاتا ہے۔ اس منڈی کی خاصیت یہ ہے کہ جمہوریت کا ریٹ لگانا ہو‘ سیاسی دبائو کا بھائو چڑھانا ہوں‘ حب الوطنی کی قیمت طے کرنا ہو یا ملک کا وسیع تر مفاد جانچنا ہو‘ تھوک کے دام خرید و فروخت ہوتی ہے۔ اس منڈی میں ایک بیوپاری ایسا ہے‘ جس کی دکان سب سے زیادہ چلتی ہے۔ اس کا مال دو صورتوں میں بکتا ہے۔ ایک ڈنڈے کے زور پر اور دوسرا جتھوں کے زور پر۔ ڈنڈے کے زور پہ سیاسی وفاداریوں کا سودا ہوتا ہے۔ بیوپاری مسند پر خود بیٹھتا ہے یا کسی بھی سیاسی قائد کو بٹھا دیتا ہے‘ دوسری صورت میں اپنے خلاف لگنے والے سیاسی نعروں کو بیچتا ہے۔ جمہوریت کو لاحق خطرات کو بیچتا ہے۔ اس وقت سیاسی آڑھت یا منڈی کا نقشہ یہ ہے کہ ملکی سیاست کے پانچ بڑے خاندان کنٹینر پر ہیں‘ جو جمہوریت بچا رہے ہیں یا اپنی بقا کے لیے کوشاں ہیں‘ واللہ اعلم‘ اور مشاق بیوپاری ان کے مقابل ہے جو حکومت بچا رہا ہے یا اپنی ساکھ واللہ اعلم۔ مگر اس بیوپار میں ہر گزرتا لمحہ موجودہ سیاست کی ہیئت بدل رہا ہے۔ مولانا صاحب نے حکومت اور اداروں کو دو دن کی مہلت دے رکھی ہے۔ اب اچھے بھلے زیرک سیاستدان ہیں مولانا صاحب۔ خوب جانتے ہیں‘ مہلت دینے کا کام جن کا ہے‘ انہی کو ساجے۔ مگر پھر بھی بضد ہیں کہ حکومت گرا کے دم لیں گے۔ ان کا ارادہ ہے کہ ملک کے منتخب وزیر اعظم مستعفی نہ ہوئے تو گھر سے گرفتار کر لیں گے۔ اب یہ مولانا اور کمزور وزیر اعظم کی جنگ تو ہے نہیں کہ ہم طے کر لیں کہ مولانا کے ارادوں کی پختگی وزیر اعظم کو اقتدار سے بے دخل کر دے گی‘ اور مولانا صاحب بڑے شوق سے فتح کا علم بلند کر سکیں گے۔ اب یہ جنگ منڈی کے سیاسی بیوپاریوں اور منجھے ہوئے غیر سیاسی بیوپاریوں کی جنگ ہے‘ جو وزرائے اعظم کو ایوانوں سے بے دخل کرنے کا تجربہ بھی رکھتے ہیں اور ایوان میں وزرائے اعظم کو داخل کرنے کا ہنر بھی جانتے ہیں۔ گو کے مولانا صاحب کی یہ جنگ کئی دہائیوں پر محیط ہے۔
مولانا فضل الرحمن اپنے والد کی وفات کے بعد جے یو آئی کے امیر چنے گئے تھے۔ ان کی دستار بندی پر پارٹی میں اختلافات پیدا ہوئے تو جے یو آئی دھڑوں میں تقسیم ہو گئی‘ لیکن عملی طور پر کوئی دھڑا بھی ملکی سیاست میں جم نہیں سکا‘ جس کا ذمہ دار وہ ہمیشہ سے اسٹیبلشمنٹ کو سمجھتے آئے ہیں۔
مولانا صاحب کو 1997 کے انتخابات میں شکست ہوئی۔ مولانا فضل الرحمن پارلیمنٹ سے باہر ہو گئے۔ انھوں نے اس شکست کا ذمہ دار میاں صاحب کے بجائے اسٹیبلشمنٹ کو قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ دھاندلیوں کے ذریعے ہم کو بار بار ہراتے رہو اور اخبارات کے ذریعے بدنام کرتے رہو‘ میڈیا ٹرائل کرو اور پھر یہ تاثر دو کہ قوم نے مولویوں کو مسترد کر دیا۔
مولانا فضل الرحمن نے ڈنکے کی چوٹ پر ایجنسیوں کی مخالفت کی۔ مقتدرہ کو آئین توڑنے‘ ملک سے کھلواڑ کرنے اور سیاست میں دخل انداز ہونے کی ممانعت کی۔ آج مولانا صاحب ایک بار پھر پارلیمنٹ اور سیاست‘ دونوں سے باہر ہیں جس کا ذمہ دار وہ مبینہ طور پر سلیکٹ ہونے والی جماعت کو کم اور سلیکٹرز کو زیادہ سمجھتے ہیں۔ اب کی بار مولانا صاحب یہ جنگ براہ راست لڑنے کے موڈ میں ہیں۔ ہمارے ذرائع بتا رہے ہیں کنٹینر پر چڑھنے سے پہلے مولانا فضل الرحمن اور سینیٹر غفور حیدری ایک اور اہم ملاقات کر چکے ہیں۔ ملاقات کے اس دورانیے میں بات تلخ کلامی اور پرفیوم کے تحفے تک تو پہنچی مگر بات بنی نہیں۔ تیور دونوں طرف چڑھے۔ مگر بیوپاری اپنا اپنا سودا بیچنے سے پیچھے نہیں ہٹے ۔
اس ملاقات اور مولانا صاحب کے ارادوں کو دیکھتے ہوئے لگ یوں رہا ہے کہ آڑھت یا منڈی میں اب باقی دو آپشنز موجود ہیں جن کا سکہ چلے گا۔ نمبر ایک‘ پانی سر سے گزرا تو مولانا صاحب سمیت تمام سیاسی کشتیاں لے ڈوبے گا۔ اور دوسرا منطق خالصتاً سیاسی ہے۔ آزادی مارچ کے سامنے اگر وزیر اعظم نے گھٹنے نہ ٹیکے تو پانچوں سیاسی جماعتیں اسمبلیوں سے مستعفی ہو سکتی ہیں‘ اور بات جنرل الیکشن کی طرف جا سکتی ہے۔ لیکن ایک نجی محفل میں بلاول بھٹو زرداری اس خدشے کا اظہار کر چکے ہیں کہ اگر انتخابات دوبارہ ہو بھی گئے تو پیپلز پارٹی کا سیاسی مستقبل کیا ہو گا؟ اور یہ حقیقت بجا ہے کہ نئے انتخاب سیاست کی طرز نہیں بدل سکتے۔ مہرے بدل سکتے ہیں پیادے نہیں۔ تو پھر جھگڑا کیا ہے؟
ہمارے ملک کی ستر سالہ تاریخ میں یہ کب ہوا کہ وزرائے اعظم سے استعفے سڑکوں پر لیے گئے ہیں اور لینے والے غربت کے ستائے عوام ہوں یا نظام سے اکتائی ہوئی سیاسی جماعتیں۔ اگر دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن غیر شفاف ہیں اور وزیر اعظم کسی اور کا انتخاب ہیں‘ تو کیسے مان لیا جائے کہ اٹھاسی سے دو ہزار تیرہ تک کے انتخابات میں نہ تو مقتدرہ کا عمل دخل تھا اور نہ ہی ذرہ بھر غیر شفافیت ہوئی۔ ہمارا نظام اگر 70 دہائیوں سے اتنا ہی تگڑا تھا تو اتنی کامیابی سے اسٹیبلشمنٹ دو ہزار اٹھارہ میں سیاسی اکھاڑے میں اتری کیسے؟ اگر نظام تگڑا نہیں تو ایک منتخب حکومت گرا کے دوسری پر بھروسا کیسے اور کیونکر ہو سکے گا۔
جہاں تک باقی جماعتوں کا قصہ ہے‘ ان حالات میں اے این پی اور جمعیت کا ایک دوسرے کے ساتھ چلنا بھی ایک فطری اتحاد ہے کیونکہ دونوں جماعتوں کا مرکز ایک ہی صوبہ ہے اور ایک ہی سیاسی جماعت کے ہاتھوں دونوں پارٹیاں متاثر ہوئی ہیں۔ شاید یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جس نے عوامی نیشنل پارٹی کو کھل کر اس مارچ میں شرکت کرنے پر مجبور کیا۔ سو اے این پی اپنی سیاسی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ پیپلز پارٹی اپنے بیانیے اور اپنے قائد کی رہائی کی جنگ لڑتی نظر آ رہی ہے۔ شہباز شریف صاحب کو لگتا ہے کہ وہ میاں صاحب کے بغیر چھ ماہ میں ملک چلا سکتے ہیں‘ اگر انہیں پھر سے موقع ملا تو۔ سو کنٹینر پر سب ایک تو ہو گئے مگر مقاصد جدا جدا ہیں‘ جن کا تعین وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ بدلتا رہا ہے۔ بنیادی طور پر یہ ہمہ جہتی احتجاج اپنی اپنی بقا کے لیے ہے۔ یہ سروائیول آف فٹسٹ کی وہ جنگ ہے‘ جس میں بشمول غیر سیاسی تمام سیاسی پنڈت شریک ہیں۔ جس کی آنکھ جھپکی‘ جو ذرا کمزور پڑے گا‘ وہ نگلا جائے گا۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ ایک طرف مولانا اپنی تمام تر کشتیاں جلا چکے ہیں‘ اپوزیشن سیاسی اور جمہوری حسب سے کنارہ کر رہی ہے تو دوسری جانب حکومت حکمت سے کام لینے کے لیے تیار نظر نہیں آتی۔ رہبر کمیٹی میں پارلیمنٹ سے مشترکہ استعفوں، ہائی ویز کی بندش اور اضلاع کی سطح پر احتجاج زیرِ غور ہے‘ لیکن ادھر حکومت کی کور کمیٹی والے 'کھیلن کو چاند مانگنے‘ کی مترادف بس یہی سوچے بیٹھے ہیں کہ حکومت ان کے ہاتھ سے نہیں جائے گی‘ دھرنوں کا یہ سلسلہ بس عارضی کھیل تماشہ ہے‘ جو ان کی حکومت نہیں گرا سکے گا۔ تحریک انصاف کے پاس ماسوائے اس خام خیالی کے‘ آپشن ہی کیا ہے۔ نہ تو تحریک انصاف خان صاحب کے متبادل کے طور پر کسی اور کو قبول کر سکتی ہے اور نہ ہی تحریک انصاف کا ووٹر یہ تبدیلی قبول کرنے کے لیے تیار ہو گا۔ اب اس سیاسی قیاس میں کوئی ایک فریق بھی ایسا نہیں جو سیاسی بصیرت سے کام لے اور معاملات کو معجزاتی طور پر سنبھال لے۔ اب حکومت آزادی مارچ کے بدمست ہاتھی کو عدالت کا راستہ دکھا رہی ہے۔ وہ اعلیٰ عدالت جس کے پاس تحریکِ انصاف کی قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے کے خلاف درخواست پڑی ہے۔ گویا آزادی مارچ کا ہاتھی سبھی اداروں کا بھرم اپنے پائوں تلے کچلنے کو تیار ہے۔
مگر وزیر اعظم کے علامتی پتلے کا جنازہ نکالنے والوں سے ہماری گزارش یہ ہے کہ اب کی بار اگر جمہوریت کا جنازہ نکلا تو بڑی دھوم دھام سے نکلے گا‘ جس کو کندھا دینے کے لیے بھی شاید کوئی اہلِ جمہور گھر سے نہ نکل سکے گا۔