"MBC" (space) message & send to 7575

کوئی اسد عمر کو چیف اکانومسٹ لا دے

ملک کے چیف ایگزیگٹو کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کی معیشت مستحکم ہو گئی ہے۔ معاشی استحکام کے لیے اقدامات اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ختم کرنے پر وزیر اعظم کی معاشی ٹیم کو مبارک باد ‘ مگر سٹیٹ بینک کی گزشتہ روز کی رپورٹ بتا رہی ہے کہ موجودہ لہر مہنگائی میں کمی کا امکان متاثر کرسکتی ہے۔معیشت سست‘ روپے کی قدر‘ زرمبادلہ ذخائر میں اضافہ‘ شرح سود 13.25 فیصد برقرار ہے۔''وابستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ ‘‘۔
خدا کرے جیسا وزیر اعظم فرما رہے ہیں‘ ایسا ہی ہو اور اس مستحکم معیشت کے مثبت اثرات غریب عوام کو دیکھنا نصیب ہوں۔خدا کرے کہ تاجروں کی پریشانی معیشت مستحکم ہونے کے بعد کم ہو جائے اور صنعتکاروں کی بے چینی اور بے یقینی کا تاثر بھی زائل ہو جائے۔ خدا کرے کہ معیشت کا یہ استحکام سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کر دے‘مگر کیا یہ ممکن ہے کہ جس ملک میں روزِ اول ہی سے گروتھ پالیسی موجود نہ ہو اس کا مسلسل قرضہ جاتی انحصار ختم ہو جائے گا؟یہ تو طے ہے کہ اگر ہم نے کبھی آئی ایم ایف سے پیچھا چھڑانا ہے تو ہمیں اپنی برآمدات بڑھانا ہوں گی‘ لیکن کامرس‘انڈسٹری‘پروڈکشن سرمایہ کاری ‘ ٹیکسٹائل ایک ہی وزارت کے ماتحت‘ یوں کہیے کہ معیشت کی 30 فیصد گروتھ ایک ہی وزارت کے حوالے کرنا اس بات کی علامت ہے کہ ایکسپورٹس یعنی برآمدات ہماری ترجیح نہیں۔
بحیثیت ِصحافی جب میں نے اپنے ملک کی ایکسپورٹ پروموشن اور انڈسڑی کی بحالی سے متعلق کسی بھی قسم کی پالیسی سے متعلق جاننے کی کوشش کی تو تشویش ہوئی کہ کیوں اب تک حکومت نے ان اہم شعبوں سے متعلق کوئی تحریری پالیسی نہیں بنائی۔ ایک ایسے ماحول میں جب حکومت کی اپنی صفوں اور اپوزیشن میں سیاسی اختلاف سر اٹھا چکا ہے‘ جس نے سیاسی ماحول کو خاصا چارج کر رکھا ہے‘ان تمام ایشوز پر اتفاق رائے کیسے ہوگا؟نہ تو رزاق داؤد کی اپنی وزارت میں کوئی ٹریڈ اکانومسٹ موجود تھا اورنہ ہی پلا ننگ کمیشن میں کوئی چیف اکانومسٹ موجود ہے۔ کیا ہمارا تمام تر انحصار ڈی ایم جی افسران کی قابلیت پر ہے؟
میں نے بہت سے حکومتی نمائندوں اورمعیشت پہ گہری نظر رکھنے والے ماہرین سے جاننے کی کوشش کی کہ آخر موجودہ حکومت کے پاس طویل مدتی سرمایہ کاری کے لیے کیا پلاننگ ہے‘ کیا حکمت عملی ہے؟ جدید دور میں 100 سے زائد ممالک نے اپنی ٹرنسفارمیشنل انڈسٹری پالیسی بنا رکھی ہے‘ لیکن ہمیں نہیں معلوم کہ ہم نے اپنی انڈسٹری کو کہاں سے کہاں لے جانا ہے اور کہاں تک لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ کل تک جو ڈی ایم جی افسران شپنگ دیکھ رہے تھے وہ آج کامرس دیکھ رہے ہیں۔ مسئلہ یہاں پلاننگ نہ ہونا بھی ہے‘ جبکہ احتساب بھی نہیں ہوتا۔ میاں صاحب ہوں یا خان صاحب‘سبھی اپنی پرفارمنس کو ٹارگٹ سے نتھی تو کرتے ہیں‘ لیکن نہ تو ان ٹارگٹس کی کوئی دستاویزات موجود ہوتیں ہیں نہ کوئی پلاننگ کی جاتی ہے اور ٹارگٹ حاصل نہ ہونے پر کوئی جواب طلبی بھی نہیں کی جاتی ۔یوکے کی مثال ہمارے سامنے ہے ‘بجٹ ٹارگٹس اپوزیشن اورحکومت کے مابین زیر بحث آتے ہیں‘ انہیں فریقین کے درمیاں ٹارگٹس طے کیے جاتے ہیں‘ ٹارگٹس کے حصول کے لیے وسائل فراہم کیے جاتے ہیں اور سب اکاؤ نٹ ایبلٹی کے ایک پراسس کے تابع ہوتے ہے۔ یہ محاسبہ کراؤن کورٹ میں چیلنج بھی ہو سکتا ہے۔ہمارے ملک میں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ نہ ٹارگٹس کے حصول پہ پوچھ گوچھ ہوتی ہے اور نہ ہی یہ معاملہ احتساب کے زمرے میں آتا ہے۔ نہ پلان اور نہ عمل درآمد کی کوئی پالیسی پبلک کے سامنے آتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ حکومت اپنے ٹارگٹس سے متعلق ایک وائٹ پیپر عوام کے سامنے پیش کرے‘مگر شو مئی قسمت کل کی طرح آج بھی ہمارا نظام ایڈہاک پہ چلتا ہے۔
اب ہم نے تین سال کے لیے آئی ایم ایف کا روزہ رکھ لیا ہے۔ افطاری کیا ہو گی؟ کوئی نہیں جانتا ۔مشرف کے دور میں جہانگیر ترین نے بحیثیت ِوزیر‘ ورلڈ بینک کی مدد سے سرمایہ کاری کی پالیسی ترتیب دی ‘جس کا ذکر ڈاکٹر اعجاز نبی نے اپنی کتاب میں کیا ہے۔ وہ دن اور آج کادن ‘ بہت سے سرمایہ کار بنگلہ دیش منتقل ہو گئے۔ ہمارے دوست چین نے ہائی آپریشن کاسٹ کی وجہ سے اپنی مینو فیکچرنگ میانمار ‘ ویت نام اور کمبوڈیا میں منتقل کر لی۔ حال ہی میں وزیر اعظم کے دورۂ چین میںچینی صدر سے درخواست کی گئی کہ چائنا اپنی صنعت کو ایتھوپیا‘ مصر اور دیگر جنوبی ایشیا کے ممالک میں منتقل کرنے کی بجائے پاکستان لائے‘ مگر یہاں بھی ہم اپنے سسٹم کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ افسرشاہی کی طرف سے رکاوٹیں‘ ریڈ ٹیپ ازم‘ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان عدم تعاون کی نذر ہمارا ایکسپورٹ پراسسنگ زون بھی ہو جاتا ہے اور سپیشل اکنامک زون بھی۔ انڈسٹریل سیکٹرکو بنیادی سہولتیں میسر نہیں‘ نہ ہی ماضی قریب میں کوئی بڑی انڈسٹری لگائی گئی ہے‘ نہ کوئی انفراسٹرکچر موجود ہے اور نہ ہی سرمایہ کاروں کو ٹیکس کی مد میں کوئی سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔ جہاں تک سی پیک کا معا ملہ ہے تو صرف چینی کمپنیوں کے لیے نہیںہر سرمایہ کا ر کے لیے اس میں مواقع موجود ہیں۔ پہلے ہمارا دعویٰ تھا کہ ہم نو اکنامک زونز بنائیں گے‘ پھر بات پانچ تک آگئی‘ اب اگر ایک بھی اکنامک زون بن گیا تو حکومت کی سب سے بڑی کامیابی گردانا جائے گا۔ان کی تکمیل میں رکاوٹ کیا ہے؟ نمبر ایک‘ زمین کا مسئلہ۔ نمبر دو‘سٹیٹ بینک اور سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن او ر دیگر کمپنیوں میں کمونیکیشن کا فقدان۔اور دیگر اخرجات کے لیے جیسا کہ زمین کی تیاری کے لیے پانی‘ بجلی کے بجٹ ہی مختص نہیں۔ صرف 25 فیصد اکنامک زون کو بجلی مہیا ہو رہی ہے‘ باقی ممالک سے موازنہ کریں تو انڈیا فی ایکڑ ایک روپیہ اور برطانیہ زمین تیار کرنے کے بعد انسینٹوز دیتا ہے۔
بہر حال سی پیک ایک نئے موڑ پر آن کھڑا ہوا ہے‘ جہاں امریکہ کی جانب سی پیک پر کھل کے تنقید کی جا رہی ہے اور پاکستان کو انتباہ یا تجارتی تعلقات بحال کرنے کی پیشکش کی گئی ہے۔ پاکستان اور چین کے درمیان اقتصادی راہداری کے 60 ارب ڈالرز مالیت کے کئی پراجیکٹس پر مشتمل منصوبے سی پیک کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے امریکی محکمہ خارجہ کی پرنسپل ڈپٹی اسسٹنٹ سیکرٹری ایلِس ویلز نے کہا ہے کہ سی پیک پاکستان کے نوجوانوں کو روزگار مہیا نہیں کرتا ‘ یہ پاکستانی کمپنیوں کو وہ سہولیات فراہم نہیں کرتا جو چینی کمپنیوں کو پاکستان ایک دہائی پہلے مہیا کرتا تھا اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور چین کے درمیان تجارت میں اتنا عدم توازن ہے۔ پاکستان خطے میں شروع ہونے والی اس معاشی دوڑ کا اگر حصہ بننا ہے تو اپنے معاشی نظام کو پاؤں پر کھڑا کرنا ضروری ہوگا ‘وگرنہ پاکستان کی معیشت کے لیے کیا غلط ہے‘ کیا صحیح ‘اس کا فیصلہ ہم نہیں دنیا کی باقی طاقتیں کریں گی۔
بہت سے لوگ (بشمول وزیراعظم) میکرو اکنامک استحکام اور نمو کے مابین فرق کو نہیں سمجھتے۔ آئی ایم ایف کا موجودہ پروگرام اْس استحکام کے حوالے سے ہے جو بیرونی ذرائع سے مزید قرض کے حصول میں معاون ثابت ہوتاہے۔شاید ہمیں اپنے اہداف کو مزید نمایاں کرکے کچھ اور بلند سطح پر لے جانا چاہیے۔ہماری سرمایہ کاری کی شرح جی ڈی پی کے 15 فیصد کے مساوی ہے‘ جبکہ ترکی اور انڈیا کی یہ شرح25 فیصدسے زائد ہے۔نوکریاں پیدا کرنے کے لیے ہمیں اپنی سرمایہ کاری کی شرح میں اضافہ کرنا ہوگا۔ اسی طرح ہماری برآمدات کی شرح جی ڈی پی کے 9.1فیصدکے مساوی ہے‘ جبکہ بنگلہ دیش اور انڈیا میں یہ شرح23فیصدکو چھو رہی ہے۔ وزیر اعظم کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ برآمدات کے فروغ کو بنیاد بنا کر نمو کی حکمت عملی کس قسم کی صلاحیتوں کی متقاضی ہے۔ 
رزاق داؤد جیسے کاروباری اور ہمارے بابو ابھی تک ان پرانے خیالات میں پھنسے ہوئے ہیں کہ برآمدات کو فروغ دینے کی بجائے درآمدات کو اعانت (سبسڈی) مہیا کی جائے۔ ہمیں چاہیے کہ اگلے برس کے لیے اپنی برآمدات کا ہدف تیس ارب (بلین) امریکی ڈالر مقرر کر کے سر جوڑ لیں کہ یہ ہدف کیسے حاصل کرنا ہے۔
تین بنیادی پیغامات:( 1) آئی ایم ایف پروگرام کی وجہ سے معیشت سکڑے گی اور اس کی پی ٹی آئی کو بہت بھاری سیاسی قیمت چْکانا پڑے گی۔ (2) وزیر اعظم کو اسد عمر کے ساتھ مل کر نمو کی ایسی حکمت عملی پر کام کرنا ہوگا جس کی بنیاد درآمدات اور صنعتوں کے فروغ پر ہو‘ کیونکہ بڑی پیداوار ی صنعتوں میں تیزی سے کمی آ رہی ہے۔(3) ہمیں ماہرین کی ایک ایسی ٹیم درکار ہے جو چین کے ساتھ صنعتی ساجھے داری کا فریم ورک تشکیل دے سکے۔کیا عاصم باجوہ یہ کام کر سکیں گے؟ ہمیں اس بحث میں الجھے نہیں رہنا کہ سی پیک اتھارٹی کا سربراہ ایک جنرل کو کیوں لگا یا گیا۔ہمارا مسئلہ دو وقت کی روٹی ہے‘ کس کے اختیار میں کیا ہے ؟یہ مسئلہ نہ تو عوام کا ہے اور نہ اب حکومت کا رہا ہے۔سو ہم امید کے شجر سے وابستہ ہیں۔ بھلے آپ بس اس شجر کو پانی پلاتے رہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں