حکومت وقت کی جانب سے مختصر عرصے میں ہونے والی چند غیر معمولی بیٹھکوں کا احوال اور ان میں غیر معمولی مماثلت ملاحظہ فرمائیں۔ نمبر ایک‘ قائمہ کمیٹی کی بیٹھک اور معاملہ ملک کی سب سے بڑی سرکار کی ملازمت میں توسیع کا‘ حکومت کی جانب سے مسودہ میز پر آیا... اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ نون نے بل کو دیکھتے ہی ہاتھ اٹھا کر غیر مشروط حمایت کا اعلان کر دیا۔ نہ کسی ترمیم پر اصرار کیا گیا اور نہ ہی مسودے کے کسی نکتے پر اعتراض اٹھایا گیا۔ اپوزیشن کی دوسری بڑی جماعت پیپلز پارٹی نے بھی اسی شانِ بے نیازی کو ہو بہو کاپی کیا‘ نہ کوئی تجویز پیش کی اور نہ ہی تردید۔ مولانا فضل الرحمن کی جماعت نے حمایت میں خاموش رہنے کو ترجیح دی۔ یوں غیر معمولی اتفاق رائے سے مدت ملازمت میں توسیع کا بل منظور ہو گیا۔
نمبر دو‘ وفاقی کابینہ کی بیٹھک کا مختصر احوال‘ ڈی جی اے این ایف میجر جنرل عارف ملک اجلاس کا حصہ تھے۔ ایک وزیر نے سخت لہجے میں سوال کیا: مقدمہ آپ نے بنایا‘ الزام وزیر اعظم پر آ رہا ہے؟ اس پر ڈی جی اے این ایف نے کہا کہ کیس بالکل سچا ہے۔ شہر یار آفریدی ذرا تیوری چڑھا کے بولے کہ ڈی جی اے این ایف نے ان کے سامنے‘ اپنے بچوں کی قسمیں کھائیں‘ ان کی قسموں کی وجہ سے انہوں نے معاملہ من و عن بیان کر دیا۔ وفاقی وزیر طارق چیمہ بولے کہ رانا ثناء اللہ کیس نا اہلی کے سوا کچھ نہیں۔ وزیر داخلہ نے آگے بڑھ کر کہا: اے این ایف کی جانب سے بنیادی تفتیشی سوالات کو ملحوظ خاطر ہی نہیں رکھا گیا۔ کچھ وزرا نے کہا کہ ہم جس وزیر اعظم کو جانتے ہیں وہ کسی پر ہیروئن کا الزام نہیں لگوا سکتے‘ گویا منشیات کے اس مقدمے میں۔ فی الحال قسموں کے سوا کوئی ثبوت نہیں۔ ان دو بیٹھکوں میں مماثلت کیا ہے؟ ایک بیٹھک میں اللہ کو جان دینے والے‘ اور اپنے بچوں کی قسمیں کھانے والے اپنے عہد سے مکر گئے اور اول الذکر بیٹھک میں 'ووٹ کو عزت دو‘ کے بیانیے والے اپنے اپنے بیانوں سے مکر گئے۔ قوم کے وسیع تر مفاد میں قومی اداروں پر سیاست سے باز رہنے کا جذبہ اپنی جگہ مگر سیاست قوم کے ساتھ کی گئی ہے۔ جس طرح قائمہ کمیٹی میں سیاسی جماعتوں نے مدت ملازمت پر سر نگوں کیے‘ کوئی کہہ سکتا ہے کہ جی ٹی روڈ پر خلائی مخلوق کے خلاف فیصلہ کن مہم مسلم لیگ نون کے قائد نے فقط ووٹ کو عزت دینے کے لیے شروع کی ہو گی۔ ایک بڑے ہجوم کے پہلو میں جا کر مارشل لائوں کی ناکہ بندی کا عہد کرنے والوں سے کوئی توقع کر سکتا ہے کہ آمروں کو گارڈ آف آنر بھی دیں گے‘ میڈیکل سرٹیفکیٹ بھی دیں گے‘ توسیع بھی دیں گے اور عدالتوں کے فیصلوں پر خاموش بھی رہیں گے۔ یہ تاریخ کا وہ باب ہے جس میں ناصرف حکومت بلکہ اپوزیشن کی تمام جماعتیں ایک قومی ادارے کے سربراہ کے تحفظ میں عدالتوں کے روبرو کھڑی ہیں‘ آمر کو سزائے موت سنانے کے جرم میں جج پر فاطر العقل قرار دینے کے حوالے سے‘ اور اب سربراہ کی ملازمت کے تحفظ کے معاملے میں۔ قائمہ کمیٹی سے پاس ہونے والے بل کے مطابق عدالتیں توسیع یا تقرری کے ضمن میں کوئی اعتراض اٹھانے کی مجاز نہیں ہوں گی۔ گویا آئین توڑنے والا کوئی مطلق العنان ہو یا مدت ملازمت میں توسیع چاہنے والا سروسز چیف‘ عدالتیں بالکل ویسے ہی خاموش رہیں گی جیسے پارلیمان۔ یہ بشمول اپوزیشن حکومت کی منشا ہے۔ چلیں حکومت تو 'بد نام ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا‘ کے فارمولے کے تحت سیم پیج پر لیٹ گئی۔ کیا تحفظ اور کیا توسیع‘ کیا معاشی ٹیم اور اقصادی ٹیم میں شمولیت‘ کیا داخلی اور کیا خارجی معاملات کی حوالگی‘ جانے دیجئے جو انگلی پکڑ کر چلے تھے‘ وہی تھامے‘ چار سال اور نکال جائیں گے مگر یہ جمہورت کے علم برداروں کو کیا ہوا؟ ہاتھ گریبان تک جاتے جاتے پائوں تک کیسے پہنچ جاتے ہیں؟ میاں صاحب سیاست کی تاریخ رقم کرنے کے لیے جنرل مشرف کے گریبان تک پہنچے۔ پھر بات ڈیل پر چلی گئی اور میاں صاحب وہ گریبان چاک نہ کر سکے۔ ملک واپس لوٹے تو ایک بار پھر ڈٹ گئے۔ خان صاحب اور علامہ قادری نے ڈی چوک میں سیاسی میلہ لگایا تو ہاتھ پھر پھسلا اور سیدھا جنرل راحیل شریف کے پائوں تک آ گیا۔ ڈان لیکس کا احوال تو سب کو از بر ہو گا۔ مشاہد اللہ اور پرویز رشید کی قربانی دے کر میاں صاحب نے ایک بار پھر اپنے اصولوں پر مصلحت کو فوقیت دی۔ سننے میں آیا تھا کہ سیاست کا نیا خون ہے‘ یہ اصولوں پر سمجھوتا نہیں کرے گا۔ ڈنکے کی چوٹ پر سیاست کرنے والے نئے خون بلاول نے پہلے پہل سندھ کی کرپشن پر آواز اٹھائی‘ پھر اسی سیاست کے رنگ میں رنگے گئے‘ کرپشن کے دفاع میں صف اول میں تھے۔ مریم نواز کا جوش خلائی مخلوق کی نفرت میں والد محترم سے کہیں زیادہ ٹھاٹھیں مارتا تھا۔ اب یہ ٹھاٹھیں مارتا سمندر ایسے ٹھہرے پانی میں بدلا ہے کہ کوئی سوشل میڈیا پہ طعنہ بھی مارے تو ارتعاش نہیں اٹھتا۔ کوئی ہلچل پیدا نہیں ہوتی۔ کوئی جنبش نظر نہیں آتی۔ ورنہ جب خلائی مخلوق کو ببانگِ دہل آڑے ہاتھوں لینے والے خواجہ صاحب میاں صاحب کا غیر مشروط حمایت کرنے کا پیغام میڈیا کو بتا رہے تھے‘ تو رسماً ہی سہی کوئی ٹویٹ تو آئی ہوتی۔ ابھی چند ہی ماہ قبل کی بات ہے مریم صاحبہ نیب کی حراست میں تھیں مگر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جارحانہ پالیسی برابر جاری رہی۔ وہ جب بھی نیب کی پیشی کے لیے آئیں‘ ان کے ہمراہ مسلم لیگ ن کا اینٹی اسٹیبلشمنٹ گروپ تھا۔ تمام تر رکاوٹوں کے باوجود اسٹیبلشمنٹ کے خلاف نعرے بازی کی گئی اور اپنے بیانیے پہ ڈٹے رہنے کا عزم دہرایا گیا۔ اب یہ یکایک خاموشی‘ سوال تو اٹھیں گے۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ چند دن قبل لندن میں میاں نواز شریف اور شہباز شریف کے زیر صدارت مشاورتی اجلاس ہوا تو تمام لیڈروں سے حلف لیا گیا کہ اس اجلاس کی کہانی باہر نہ نکلے۔ مشاورتی اجلاس میں شریک ہر رہنما نے قرآن پاک پر حلف دیا اور کارروائی شروع ہوئی۔ اور اجلاس کے بعد بس اتنا سننے میں آیا کہ میاں صاحب نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی غیر مشروط حمایت کا فیصلہ کیا ہے اور جماعت کے ان کارکنان کو خاموش رہنے کی ہدایت کی گئی ہے‘ جو کبھی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف نعرے بازی میں پیش پیش ہوا کرتے تھے۔ گو کہ خواجہ آصف صاحب کا شمار انہیں میں ہوتا ہے‘ مگر اس حمایت کا اعلان انہوں نے بھی کھلے دل کے ساتھ کیا۔
نظامِ سیاست کی حقیقت ڈنڈا اور ذاتی مفاد ہے جن کی تابع داری سیاست کی گھٹی میں شامل ہے۔ پھر کیا اصول اور کہاں کے اصول؟ ہم نے فوجی عدالتوں کے قیام پر غیر معمولی اتفاق رائے کی تاریخ رقم کی‘ آئِین شکن کے تحفظ‘ اور تحفظ پر خاموشی (نیم رضا مندی) کے فارمولے کے تحت تاریخ رقم کی۔ ہم نے بارہویں اور سترہویں ترمیم پر غیر معمولی اتفاق رائے سے کام لیا۔ در حقیقت قوم کا وسیع تر مفاد نعروں اور زبانی کلامی بیانوں سے آگے نہیں بڑھا۔ ایک چھوٹی سی مثال ہے‘ فاٹا کے لیے قومی اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کی نشستوں میں اضافے کی اس حکومت کی پہلی آئینی ترمیم تھی جو جولائی 2018 میں کی گئی‘ آج تک سینیٹ میں اتفاق رائے نہیں ہو پایا۔ صدر پاکستان سے ایک انٹرویو میں جب صدارتی آرڈی ننس کے متعلق سوال کیا گیا تو یہی توجیہہ انہوں نے پیش کی کہ جو کام پارلیمان کے کرنے کے ہیں وہ انہیں اہل پارلیمان کی عدم دلچسپی کے باعث بذریعہ آرڈیننس کرنے پڑتے ہیں۔
ایک طرف سیاست کی یہ تابع داری ہے اور دوسری طرف ہمارے اونچے خواب ہیں کہ اہل پارلیمان کا احتساب پارلیمنٹ میں ہو‘ ہم بطور پارلیمان‘ تمام اہم قومی ایشوز پر ایک پیج پر ہوں‘ کوئی ادارہ کسی ادارے سے دست گریبان نہ ہو۔ جب انصاف قسموں کا مرہون منت ہو‘ اصول تابع داری کے‘ سیاست مفاد کے‘ ادارے توسیع کے‘ اور حکومتیں اداروں کی مرہون منت ہوں تو خواب رضا ربانی جیسے زیرک سیاست دان دیکھیں‘ فواد چودھری جیسے دبنگ سیاستدان دیکھیں یا عام عوام‘ اس کی حیثیت ایک خواب سے زیادہ کچھ نہیں ہو سکتی۔