مؤرخ اب کی بار سیاست کی تاریخ لکھے گا تو جمہوریت کے گزشتہ تیس سالوں کا ذکر شاید کم اور اہل جمہور کے قومی اسمبلی میں گزرے آج کے بارہ منٹ کا تذکرہ سب سے زیادہ ہو گا۔ یہ بارہ منٹ جمہوریت کا خلاصہ بیان کریں گے۔ یہ اپنے طرز کی نئی تاریخ ہو گی۔ پارلیمنٹ کی بالادستی کا ذکر ہو گا مگر کسی اور انداز میں ۔ وزیر اعظم سروسز چیفس کو توسیع دینے کے مجاز ہوں گے۔ ملک کی کوئی عدالت اس اختیار پر سوال نہیں اٹھائے گی۔ یہ پارلیمان کا متفقہ فیصلہ ہے۔ یہ حکومت وقت کی وہ پہلی ترمیم ہے جو اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں کو بغِیر کسی شرط کے قبول ہے۔
یہ بارہ منٹ سیاست کی تاریخ میں اس لیے بھی اہم ترین ہوں گے کہ ان چند منٹوں میں میاں صاحب کا بیانیہ دفن ہوا‘ پیپلز پارٹی کی کم و بیش شناخت اور کسی کی خود داری۔ ذرائع بتاتے ہیں‘ میاں صاحب نے لندن میں اپنی جماعت کے چند سینئر رہنمائوں سے قرآن پر حلف لیے کہ کوئی بات یہاں سے باہر نہیں نکلے گی۔ بات تب تک تو چھپی رہی، جب تک خواجہ آصف کی طرف سے، غیر مشروط حمایت کا اعلان نہیں ہوا‘ مگر کل رات ایک نجی بیٹھک میں نون لیگ کا ایک دل جلا، بھڑک اٹھا‘ چند ہفتے قبل یہ طے ہوا تھا کہ نون لیگ حمایت تو کرے گی مگر شرط ہو گی کہ فقط موجودہ آرمی چیف کو توسیع دی جائے گی‘ آئندہ آنے والے سربراہان توسیع کے مجاز نہیں ہوں گے۔ مگر ان بارہ منٹوں نے نہ صرف ووٹ کی عزت کو دفن کر دیا بلکہ مریم نواز کے جلسوں میں لگنے والے اینٹی خلائی مخلوق نعرے بھی زمین برد ہو گئے۔ نون لیگ کے اس دل جلے کے جذبات اتنے مجروح تھے کہ ایک ہی سانس میں بولا کہ حمایت کی اس کرم نوازی کے عوض گارنٹی دیتا ہوں کہ چند دنوں میں مریم نواز بھی ہیتھرو ایئرپورٹ پر نظر آئیں گی؛ اگرچہ خبر ہے کہ مریم نواز کو کسی نے یہ خبر ہی نہیں دی کہ ان کی جماعت غیر مشروط حمایت کرنے والی ہے۔ ابھی چند روز میں چند وزرا ٹی وی پروگراموں میں اس تاثر کو اسٹیبلش بھی کرتے نظر آئیں گے کہ مریم صاحبہ میاں صاحب کے اس تاریخی یُو ٹرن سے بالکل بے خبر تھیں۔ نجی محفل کے اس دل جلے نے مزید کہا کہ انہوں نے جب غیر مشروط حمایت کی تصدیق کرنے کے لیے سلمان شہباز کو فون کیا تو جواب ملا ''صبح سے گالیاں پڑ رہی ہیں‘ کہو اگر کچھ نیا ہے تو‘‘۔ بہت اصرار کرنے پر جواب ملا: یہ جو بھی ہوا ہے میاں صاحب کا فیصلہ ہے۔ کچھ رنجشوں کو کم کرنے اور کہیں تعلقات کو بہتر کرنے کے لیے۔ گڈ ول میں یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔ سلمان شہباز نے ایک اور سینئر رہنما کو بتایا کہ مشرف دور میں میاں صاحب دس سال کے لیے جلا وطن ہو گئے تھے‘ اب ممکن ہے یہ دورانیہ پندرہ سال ہو۔
ان بارہ منٹوں میں جو سب سے اہم چیز زمین برد ہوئی‘ وہ پارلیمنٹ کی بالا دستی کا وہ نادر موقع تھا جو جسٹس کھوسہ نے بڑی حکمت سے اہل پارلیمان کے حوالے کیا تھا۔ پیپلز پارٹی‘ جسے سب سے زیادہ اعتراض ہی سلیکٹر پر تھا‘ نے یہ حمایت یوں طشت میں رکھ کر پیش کی‘ جیسے تابعداری سے کہیں زیادہ پارلیمنٹ کی بالا دستی بھاری پتھر ہو۔ تاریخ سے سبق سیکھنے والے میاں صاحب تو اب کی بار بھی تاریخ سے ہاتھ کر گئے۔ ان کے بیانیوں نے جی ٹی روڈ پر قدم بڑھائے مگر پیچھے مڑ کے دیکھا تو میاں صاحب خود جا چکے تھے اور رہا خودداری کا بھرم تو اہل سیاست نے اپنے اصولوں کے عوض چمڑی بچائی۔ اگر حقیقت اس کے برعکس ہے تو میاں صاحب نے یہ تاریخی یُو ٹرن لے کر جمہورت کی خدمت کی؟ سیاست کی؟ یا پھر گھٹنے دبائے؟ اور کس قیمت پر اور اہم سوال پارلیمنٹ کی بالا دستی اور جمہوریت کی راہ میں اب کی بار کون حائل ہوا؟
مسئلہ یہ نہیں کہ یہ بل آئین سے یا قانون سے متصادم ہے یا نہیں۔ نئے بل میں ممکن ہے کوئی ایسی تبدیلی نہ کی گئی ہو جو آئین میں موجود نہ ہو‘ مگر شکوہ بس اتنا ہے کہ اس بل کی منظوری میں بطور منتخب جمہوری نمائندے اپنی حیثیت کم اور مصلحت زیادہ استعمال کی گئی۔ نہ تو اس بل پر بحث ہوئی نہ کھول کر کسی نے پڑھنے کی زحمت کی۔ بس قبول کیا۔ سو مؤرخ ان بارہ منٹوں کا تجزیہ لکھے گا تو تحریر ہو گا کہ سالم پارلیمان نے باجماعت تابعداری کی نماز ادا کی۔ نصف پارلیمان نے وزیر اعظم منتخب کیا اور سالم نے مدت میں توسیع کا انتخاب کیا۔ واہ رے جمہوریت تیری کونسی کل سیدھی ہے؟
پیپلز پارٹی نے اپنے تئیں تجاویز دیں۔ نمبر ایک‘ آرمی ایکٹ میں ترمیم کے حکومتی بل سے توسیع کا معاملہ عدالت میں چیلنج نہ کرنے کی شق ہٹائی جائے۔ نمبر دو‘ پارلیمنٹ کو وجوہ بتانے کے بعد توسیع دی جا سکتی ہے لیکن دوبارہ تعیناتی نہیں کی جا سکتی۔ نمبر تین‘ وزیر اعظم کو پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی میں سروسز چیفس کی مدت ملازمت بڑھانے کی وجوہ دینا ہوں گی۔ بلاول بھٹو نے میڈیا کو بتایا یہ تجاویز وزیر اعظم سیکرٹریٹ بھجوائی بھی گئیں۔ مگر ذرائع بتاتے ہیں کہ قومی اسمبلی میں بل کی منظوری سے پہلے حکومتی نمائندوں اور پیپلز پارٹی کے ارکان کے درمیان اہم ملاقات ہوئی۔ فروغ نسیم اور پرویز خٹک نے پہلے پہل تو منہ زبانی سمجھانے کی کوشش کی کہ کوئی شرط یا کوئی ترمیم ممکن نہیں ہو گی یہی مسودہ فائنل ہو گا۔ جماعت نے کہا: ہمارا فیصلہ بھی سی آئی سی کی میٹنگ میں ہوا ہے‘ فیصلہ تو ہمارا بھی اٹل ہے۔ فروغ نسیم صاحب یہ کہہ کر نشست سے اٹھ گئے کہ چلیے ہم آپ کا فیصلہ اوپر بتا دیتے ہیں۔ بس یہی جملہ تمام ملاقات پہ بھاری پڑا‘ سو مسودے کی منظوری کے وقت پیپلز پارٹی بھی ہاتھ باندھے وہیں کھڑی تھی‘ جہاں نون لیگ تھی۔
جس نے غیر مشروط حمایت کا فیصلہ کیا وہ ملک سے باہر ہیں۔ جنہیں اس فیصلے کی وضاحت کرنی تھی انہیں ابھی باہر جانا ہے‘ سو ان کا ٹویٹر خاموش ہے۔ اور رہے اس ملک کے قائدِ حزبِ اختلاف تو وہ کچھ بولنے کی پوزیشن میں نہیں۔ نہ وہ تب بولے جب آئین شکن کے خلاف فیصلہ آیا، نہ اب انہوں نے کہیں جوش خطابت دکھایا ہے۔ ہاں البتہ خواجہ آصف سرد ہوائوں کی زد میں ہیں۔ خلائی مخلوق کے خلاف نعروں میں ہم آواز نون لیگ کے زیرک رہنما سوال اٹھا رہے کہ ہمیں بتایا جائے کہ ماضی میں ضیاالحق کی حمایت کرنے پر معافی مانگنے والے اب کارکنان کا خون گرمانے کے لیے اس بل کی حمایت پر بھی معافی مانگیں گے؟ جن کا بس نون لیگ کے پارلیمانی اجلاس میں چلا‘ انہوں نے وہاں دل کی بھڑاس نکالی۔ باقی نے بذریعہ ٹویٹس دل کا بوجھ ہلکا کیا‘ مگر خواجہ آصف اب تک کسی کو مطمئن نہیں کر پائے کہ اس کھلی حمایت کی قیمت کیا ہے؟ گڈ ول کا جیسچر دے کر میاں صاحب حاصل کیا کریں گے؟ نیا وزیر اعظم؟ نئی حکومت؟ نئے انتخابات؟ دل پر ہاتھ رکھ کوئی یہ بتائے کہ ایک ایسی حکومت جو سیم پیج سے بھی چند قدم آگے جانا جانتی ہو کون چاہے گا کہ اسے ہٹا کر ہٹ دھرمی کرنے والوں کو اقتدار میں پھر سے لایا جائے۔ سو اول الذکر آپشن بعید از قیاس ہے۔ باقی کا معاملہ میاں صاحب جانیں۔ کل تاریخ کا ایک اور باب تمام ہوا۔ جسٹس فخرالدین جی ابراہیم ہم میں نہیں رہے۔ جنرل ضیا کے دور میں انہوں پی سی او کا حلف اٹھانے سے انکار کیا۔ بی بی کے دور حکومت میں بی بی نے ایک مقدمے میں پرائیویٹ وکیل ہائر کیا تو فخرالدین جی ابراہیم نے بطور اٹارنی جنرل اصولوں کی خلاف ورزی پر استعفیٰ دے دیا تھا۔ مشرف دور میں بھی اپنے اصولوں سے پیچھے نہ ہٹے اور پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے صاف انکار کر دیا۔ 2012ء میں بطور چیف الیکشن کمشنر انہوں نے عہدہ سنبھالا۔ 2013ء کے انتخابات انہیں کی تعیناتی میں ہوئے‘ اور تحریک انصاف نے الیکشن میں دھاندلی کا دھاوا بول دیا تو فخرالدین صاحب فی الفور اپنا عہدہ چھوڑ دیا۔ کسی با ذوق انسان نے کل ایک جملہ تحریر کیا کہ قومی اسمبلی نے بارہ منٹوں میں یہ ایکٹ پاس کیا تو جج صاحب دنیا ہی چھوڑ گئے۔ شاید اپنے اصولوں پر ڈٹے رہنے کا باب ختم ہوا۔ اب شاید کوئی نہیں جو اپنے بیانے اپنے اصول پر ڈٹ جائے۔ یقین نہ آئے تو تین سو سترہ ممبران سے بھرا ایوان کھنگال لیں۔