کرکٹ کے میچ کے دوران میدان میں موجود امپائر جب فیصلہ نہ کر سکیں توپھر فیصلہ تھرڈ امپائر کرتا ہے ۔ یہ امپائر فیلڈ میں تو نظر نہیں آتا لیکن موجود ہوتا ہے ۔عمران خان اور قادری صاحب کا تھرڈ امپائر بھی شخصی نشاندہی نہ ہونے کے باوجود اپنی جگہ موجود ہے ۔ خان صاحب نے جب تھرڈ اپمائر سے متعلق بیان دیا توبات سپریم کورٹ تک جا پہنچی۔ درخواست گزاروں نے شکایت کی کہ عمران بار بار یہ دعویٰ کر کے ڈرا رہے ہیں کہ تھرڈ امپائر کی انگلی کھڑی ہو جائے گی یعنی نواز شریف آئوٹ ہو جائیںگے۔جج صاحبان نے جب عمران خان کے وکیل حامد خان سے پوچھا کہ یہ تھرڈ امپائر آخر ہے کون۔ تو وکیل موصوف کا ہنستے ہوئے جواب تھا عمران خان وضاحت کر چکے ہیں ،تھرڈ امپائر سے ان کی مراد اللہ میاں ہے۔یہ منطق بالکل ایسی ہی تھی کہ جیسے کوئی عاشق نا مراد اپنے جنون یعنی عشق مجازی کو عشق حقیقی سے تعبیر کرے اور دنیا والوں کی سنگساری سے بچ جائے۔محترم وزیراعظم نواز شریف صاحب بھی اس تھرڈ امپائر سے بخوبی واقف ہیں لیکن اس کا نام لینے سے بالکل اسی طرح گریزاں ہیں جیسے عمران خان نے اس کی شناخت چھپائی۔حالانکہ وزیر اعظم اور ان کی حکومت اور رہنما بخوبی جانتے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے دھرنوں کی صورت میں ان پر جوقہر نازل ہوا
ہے ، ا س کے پیچھے کون سے عوامل ہیں لیکن حالات کی ستم ظریفی دیکھیے کہ قومی اسمبلی کے ایوان میں نواز شریف صاحب نے بس اتنا ہی کہا کہ اس بات پر بحث ہونی چاہیے کہ یہ (دھرنے) کب ٗ کیسے اور کیوں شروع ہوئے ۔''اظہار بھی مشکل ہے ،چپ رہ بھی نہیں سکتے ٗ مجبور ہیں اْف اللہ ٗکچھ کہہ بھی نہیں سکتے‘‘۔28اگست کو محترم وزیر اعظم نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے ملاقات کی اور موجودہ بحران کے حل کے لیے ان سے سہولت کار کا کردار ادا کرنے کو کہا ۔اس بات پر حکومت کو اتنی تنقید کا سامنا کرنا پڑا کہ الامان۔سب نے قرار دے دیا کہ آرمی چیف کو سیاسی معاملات میںکردار ادا کرنے کا کہہ کر جمہوری قوتوں نے اپنے آپ کو پھر ان کے پاس گروی رکھ دیا ،جن کا سیاست میں کوئی کردار نہیں ۔16گھنٹے بعد حکومت کو خیال آیا کہ اس خبر کی تردید کرنی چاہیے ۔ وزیر اعظم نے اسمبلی میں آکر وضاحت کی کہ انہوں نے قطعاً فوج سے کوئی کردار ادا کرنے کی درخواست نہیں کی۔الزام پھر پاک فوج پر آگیا کہ انہوں نے خود سے کیسے مداخلت کر لی، اس لیے پھر فوج کے ترجمان نے وضاحت
کی کہ حکومت نے بحران کے حل کے لیے سہولت کار کا کردار ادا کرنے کا کہا تھا۔اس فوجی بیان کے بعد وزیر اعظم پر الزام آنے لگا کہ انہوں نے اسمبلی کے اندر کھڑے ہو کر جھوٹ کیوں بولا ۔پھر وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان فوری منظر عام پر آگئے اور مزیدوضاحت کی کہ فوجی ترجمان کا بیان حکومت کے خلاف نہیںاور ان کی مشاورت سے جاری ہوا ہے۔ذرائع نے بتایا کہ فوجی ترجمان کا بیان تو صرف اطلاع دینے کے لیے حکومت کو بھجوایا تھا ،ورنہ فوج کو
کوئی بیان جاری کرنے کے لیے کسی منظوری کی ضرورت نہیں ہوتی۔فوج کے کردار کا ایشو ایک پنگ پانگ کھیل(Ping Pong Game) بن کر رہ گیا ۔ کبھی حکومت ذمہ داری فوج پر ڈالتی اور کبھی فوج حکومت پر۔ فوج کوخود سے مداخلت کا اختیار نہیں اور حکومت اختیار ہوتے ہوئے بھی بے اختیار رہنا چاہ رہی ہے۔حکومت کا بحران کے حل کے لیے فوج کو کردار ادا کرنے کی دعوت دینا موجودہ تناظر میں بالکل ایسے ہی ہے جیسے میر نے کہا تھا ؎
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
وزیراعظم بھی دوا انہی سے مانگ رہے ہیں جن کے سبب بیمار ہوئے ہیں ۔عطار کا لونڈا ہو یا تھرڈ امپائر۔ان کی کھل کر شناخت کوئی بھی نہیںکرتا۔کوئی ان کا نام نہیں لیتا۔مجھے 18 جولائی 1993ء کا دن یاد آرہا ہے ۔ اس دن بھی نواز شریف کو تھرڈ امپائر نے ہی آئوٹ کرایا تھا اور وجہ یہ تھی کہ معاملات کے حل کے لیے خود نواز شریف نے ہی تھرڈ امپائر کو اپیل کی۔انہوں نے اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان سے سینگ پھنسا لیے ۔ غلام اسحاق خان نے ان کی حکومت بر طرف کر دی ۔ نواز شریف سپریم کورٹ سے اپنی حکومت کی بحالی کا حکم لے آئے لیکن صدر مملکت سے لڑائی اور کشیدگی بڑھتی ہی گئی ۔معاملہ کے حل کے لیے تھرڈ امپائرکو بلایا گیا اور تھرڈ امپائر نے انگلی کھڑی کر دی اور یوں تھرڈ امپائر کے فیصلے کے تحت نواز شریف کو استعفیٰ دینا پڑا۔آج بھی دھرنے والے نواز شریف کے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہے ہیں اور تھرڈ امپائر کی انگلی سے ڈرا رہے ہیں ۔نواز شریف صاحب کیا کریں ۔غلط اپیلوں پر آئوٹ بھی نہیں ہونا چاہتے اور تھرڈ امپائر سے رجوع کرتے بھی ہیں اور نہیں بھی۔ریکارڈبتاتا ہے کہ ان کی تھرڈ امپائروں سے کبھی نہیں بنی ۔کبھی نیشنل سکیورٹی کونسل پر جھگڑا رہا توکبھی کارگل کی جنگ وجہ عناد بنی۔اس دفعہ بھی وہی پرانی بیماری لاحق ہوئی ہے ۔اس دفعہ بیماری زیادہ طاقتور ہے ۔تھرڈ امپائر سے ویسے ہی وہ ڈرے ہوئے ہیں ۔ ''کبھی ہاں کہتے ہیںاور کبھی ناں ‘‘پھر بھی مجبور ہو کراسی سے دوا لے رہے ہیں جس کے سبب بیمار ہوئے ہیں۔داغ دہلوی کا مقطع اس صورتحال پر صادق آتا ہے ؎
عذر آنے میںبھی ہے اور بلاتے بھی نہیں
باعث ترک ملاقات بتاتے بھی نہیں
زیست سے تنگ ہو اے داغ تو جیتے کیوں ہو
جان پیاری بھی نہیں جان سے جاتے بھی نہیں