پھولوں کے جنازے

سانحہ پشاور پر اتنا کچھ لکھا گیا ہے لیکن پھر بھی دل کی بھڑاس نہیں نکل پارہی ۔تین دن کا قومی سوگ ختم ہو گیالیکن دل پھر بھی غمزدہ ہے ۔معصوم بچوں کا بہیمانہ قتل اور ان کے والدین کا دکھڑا بھلائے نہیں بھولتا ۔ ہر وہ شخص جس کے سینے میں دل ہے اور وہ دل پتھر نہیں ہوا وہ اس واقعے سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ملکی میڈیا نے اس واقعے کی رپورٹنگ میں انتہائی احتیاط برتی اور بہت سے ایسے حقائق اور تصاویر منظر عام پر نہیں لائے جو کسی بھی طرح معصوم بچوں اور ان کے والدین کے لیے دل آزاری کا باعث بنتی یا عام فرد کے لیے بھی نفسیاتی طور پر مضر اثرات مرتب کر سکتی تھیں یا سکیورٹی رسک تھیں۔لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس مقتل میں میڈیا کا جو بھی نمائندہ یا فورسز کا کوئی اور اہلکار گیا،وہ اشکبار واپس آیا۔ رپورٹرز بولتے ہوئے گنگ ہو گئے، کیمرہ مین مقتل کی تصویر کشی کرتے ہوئے روتے رہے۔ میرے سینئر کیمرہ مین شاہین گردیزی نے بتایا کہ انہوں نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں بہت سے ایسے واقعات کی عکسبندی کی لیکن پشاور اسکول کی شوٹنگ کے دوران ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے ،آنکھیں نم نہیںہوئیں بلکہ آنسوئوں کی ایسی جھڑی لگی جو رک نہ پائی۔وہ تصاویر جو حادثہ کے فوراً بعد فوجی جوانوں نے کیمرہ بند کیں وہ اب سوشل میڈیا پر جاری ہو چکی ہیں لیکن ان تصاویر کو دیکھنا آسان کام نہیں ،اس کے لیے آہنی اعصاب کی ضرورت ہے ۔میں نے کچھ تصاویر فیس بک پر پوسٹ کیں تو فوری طور میرے ایک دوست کا پیغام آگیا جنہوں نے خدا کا واسطہ دے کر کہا کہ میں یہ تصاویرہٹا دوں اور میںنے ایسا ہی کیا ۔واقعی ان تصاویر میںکسی مذبح کا منظر تھا۔مائوں کے معصوم لعل اپنی اسکول یونیفارم میں ملبوس گولیاں لگنے پر ایک دوسرے کے اوپر گرے اور اسی حالت میں جنت کو پرواز کر گئے۔کچھ نے دروازے پر لپکنے کی کوشش کی ہو گی تو وہ کمرہ جماعت کی دہلیز پر ہی ڈھیر ہوگئے۔ ایک پھول کے دماغ میں گولی پیوست تھی ۔حقیقت یہ ہے کہ یہ منظر تو تصاویر دکھا رہی ہیں لیکن قیامت صغریٰ کا اصل منظر اس سے بھی زیادہ دلدوز ہو گا جس کو لفظوں میں قید کرنا بہت مشکل ہے۔ہماری رپورٹنگ ٹیم نے بتایا کہ نہ صرف اسکول کے آڈیٹوریم بلکہ اس سے متصل بلاک میں واقع دیگر کلاس رومز بھی مقتل بنے۔کمرہ جماعت کو جانے والا برآمدہ اور ارد گرد بھی جا بجا خون بہتا دکھائی دیا ۔اس بلاک میں دہشتگردوں کو جو بھی دکھائی دیا، وہ ان کی گولیوں کا نشانہ بنا ۔دیگر کلاس رومز جو مرکزی بلاک سے دور تھے صرف وہاں پر موجود طلبا ہی اس سانحے سے بچ سکے۔اسکول کے ایک کمرے میں تو لگتا تھا کہ وہاں طاقتور بلاسٹ کیا گیا۔ کمرے کی چاروں دیواریںاور چھت آگ لگنے کے باعث سیاہ ہو گئیں ۔ یہاں جو کچھ بھی تھا یا جوکوئی بھی تھا وہ بھی خاکستر ہو گیا ۔یہی وجہ ہے کہ ا سکول کے دالان میں ایک ڈھیر ایسا بھی تھا جہاں بچوں کے ہاتھ، انگلیاں اور دیگر انسانی اعضاء اکٹھے کیے گئے تھے ۔اس ڈھیر سے بمشکل ہی کوئی انسانی شناخت ہوسکتی تھی۔ 
یہ تو تھا وہ منظر نامہ جو حقیقی مصلحت کے تحت ملکی میڈیا پر سامنے نہیں لایا گیا ،لیکن اس سانحے کے بعد قوم جس خوف اور بے یقینی کی کیفیت سے دوچار ہے ،وہ بھی ایک حساس معاملہ
ہے۔ دہشتگردوں پر کاری ضرب کا فیصلہ کر لیا گیا ۔ پھانسی گھاٹ فعال ہو گئے ۔سزا یافتہ دہشتگردوں کے ڈیتھ وارنٹ جاری ہو گئے ۔جلاد طلب کر لیے گئے ہیں ۔اب صورتحال یہ ہے کہ زخمی حملہ آور بدلہ لینے کے مواقع ڈھونڈ رہا ہے۔ اسکول حملے کے اگلے ہی روزاسلام آباد پولیس نے ایک نوٹیفیکیشن جاری کیا کہ بچوں کو اسکول لے جانے والی گاڑیوں میں بم نصب کرنے کی کوشش ہو سکتی ہے۔ پولیس نے تمام گاڑیوں کے کوائف طلب کر لیے۔ایک تھریٹ الرٹ جاری ہوا کہ دہشت گرد آرمی کے زیر اہتمام چلنے والے دیگر شہروں میں قائم اسکولوں پر ایسا ہی حملہ کر سکتے ہیں ۔ایک اور الرٹ جاری ہوا کہ کچھ دہشت گرد لاہور شہر میں داخل ہو گئے اور ان کا آئندہ ہدف اب لاہور میں کوئی سوفٹ ٹارگٹ ہو سکتا ہے۔پھر حساس اداروں نے ملک بھر کی جیلوں پر ممکنہ حملے کے خدشات سے بھی آگاہ کیا۔حساس اداروں نے بتا دیا کہ زخمی دشمن پلٹ کے وار کر سکتا ہے ،اسی لیے اس وقت ملک بھر میں سکیورٹی ہائی الرٹ ہے۔سکیورٹی الرٹ پہلے بھی بہت جاری ہوئے، حملے بھی ہوئے لیکن اب کی بار قومی صورتحال مختلف ہے۔اب دشمن کو دشمن مان لیا گیا ہے اور
قوم دہشت گردی کے خلاف یکجا ہے۔قربانی دینے کے بعد حوصلے بھی جوان ہیں ۔میں اسکول حملے میںزخمی ہونے والے بچوں کی باتیں بار بار سنتا ہوں ۔ وہ بچے موت کے منہ سے نکلے لیکن ان کی باتوں میں خوف کی بجائے ایک حوصلہ مند اعتماد نظر آیا۔کوئی موت کے منہ سے بچ نکلے تو اوسان کھو بیٹھتا ہے لیکن آفرین ہے ان بچوں پر ،جن کے حوصلوں نے اپنے بڑوں کو بھی حوصلہ دے کر مثال قائم کر دی۔یہ تمام زخمی بچے مجھے مکمل طور پر حوصلہ مند دکھائی دیئے۔یہ مکمل طور پرکمپوزڈ تھے۔میں ان کی ریکارڈنگ بار بار سنتا ہوں اور ان کے حوصلے کی داد دیتا ہوں۔ذر اایک زخمی بچے کے الفاظ سنیے، جو ہسپتال کے بستر پرلیٹے لیٹے زخمی حالت میں کس عزم کا اظہار کر رہا تھا۔،،میرا بس چلے۔ میں بڑا ہو کرانشاء اللہ ان کو تباہ کر دوںگا۔ان کی نسلیں تباہ کر دوںگا۔ میں انہیں چھوڑوںگا نہیں۔ایک ننھا لڑکا جو ابھی موت کے منہ سے نکل کر آیا اور حملہ آوروں کی گولیوں سے مضروب بھی ہوا ،اسے تو ٹروما کی کیفیت میں ہونا چاہیے تھا،لیکن وہ ہسپتال کے بستر پر دشمن کو للکار رہا ہے ۔ ایک چھوٹے لڑکے کے منہ سے نکلی یہ بڑی بات مجھے بہت بھلی لگی۔ہمارے بڑے حکمران جو ماضی میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی پر مخمصے کا شکار رہے ہیں، اب انہیں اس ننھے لڑکے کی بڑی بات سے ہی کوئی سبق سیکھنا چاہیے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں