شارٹ کٹ

ہمارے بیوروکرٹیس کو فارن ڈیپو ٹیشن پہ جانے کا بڑا شوق ہے۔ ہارورڈ میں کچھ دن گزار کر خود کچھ سیکھیں یا نہ سیکھیں لیکن گوروں کو کچھ گُر ضرور سکھا کر آ تے ہیں۔ ایک ایسے ہی ٹرپ کے لیے ایک بیوروکریٹ کی باری آئی، کہ وہ امریکیوں کو بتائیں کہ پاکستانی کس شعبے میں مہارت رکھتے ہیں۔ وہ لمحہ بھرکے لیے سوچ میں پڑگیا، پھر مسکرا کر بولا: ''جگاڑ‘‘ میں۔
جگاڑ اس فن کا نام ہے جس میں پاکستان کو اب ایک ڈگری بھی دے دینی چاہیے۔کچھ لوگ تو اس فن میں اتنی مہارت رکھتے ہیں کہ اس کو انجینئرنگ کا متبادل سمجھتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ گھر تو دیکھنے میں عالی شان وائٹ ہائوس کی کاپی لگتے ہیں‘ لیکن اکثر کی دیواروں میں سیم دکھائی دیتی ہے۔ پنڈی کے لڑکوں میں ایک جملہ بڑا عام ہے: ''کوئی جگاڑ لگا، کوئی فلم چلا‘‘ یعنی چھوٹی موٹی نااہلی پہ فوراً پردہ ڈالنے والے چھوٹے مو ٹے دھوکے۔ اس جگاڑ کے قصے عوامی رہنما شخ رشید بھی سناتے رہتے ہیں کہ اپنے زمانے میں جب ان کے بھر پور اصرار کے باوجود ان کو بجٹ نہ ملا تو ریلوے کی وزارت کچھ اللہ کے بھروسے پر اور کچھ جگاڑ سے کیسے چلاتے رہے۔ انہوں نے بڑی مہارت سے پرانا انجن نئے بوگیوں سے ویلڈ کرا کےCosmatic Surgery کر ڈالی‘ لیکن جب یہ وزارت ان کے بعد حاجی غلام احمد بلورکے پاس گئی تو ایک وقت آیا کہ انہوں نے ریلوے کے محکمے کو ہی ختم کرنے کا بیان دے دیا۔یہاں تک کہہ دیا کہ اب میں خود انجن بن کر ریل گاڑی کھینچوں، اس کے سوا میرے پاس کوئی اورحل نہیں ہے۔
یہی حال ہمارے ٹی وی چینلز کا ہے۔ میں نے پاکستان آ کر بڑی تیز رفتاری سے نوکریاں تبدیل کیں اور وہ اس لیے کہ اینکرزکی تنخواہ کے سوا بعض چینلز نے باقی کسی چیز پر پیسہ نہ لگانے کی قسم کھارکھی ہے۔ پاکستان میں میرا پہلے ٹی وی چینل کے ساتھ تجربہ کچھ اس طرح کا تھا کہ چینل کے سٹوڈیو کی چھت کی طرف میری نظر گئی تو میں دنگ رہ گئی کہ آموں کے خالی کریٹ میں ایلومینیم کے ورق کے ساتھ انرجی سیور لگا کے لائٹس بنائی گئی تھیں۔ لیکن ابھی تو میں نے کچھ دیکھا ہی نہیں تھا، اگلے چینل میںجِب (jib) کی فرمائش کرکر کے تھک کرٹیکنیکل سٹاف نے خود ہی جِب بنا لی جو اکثر لائیو پروگرام میں گر جاتی تھی (جِب ایک ایساآلہ ہے جس پر کیمرے کو رکھ کر حرکت والے شارٹ شوٹ کیے جاتے ہیں۔)
گھر میں چھوٹا موٹا دھوکہ تو چلتا ہی ہے۔ میری قریبی دوست کی شادی میری طرح کم عمری میں ہی ہوئی۔ وہ اپنے شوہر کو بتا بھی نہیںسکتی تھی کہ وہ کھانا پکانا نہیں جانتی۔ پہلے دن جب شوہر گھر واپس آیا تو اس نے سینڈوچ مختلف انداز سے کاٹ سجا کر پیش کیے۔ خاوند نے روز انہ دوپہرکا کھانا گھر پرکھانے کی عادت بنا لی۔ دو ہفتے تک ان خوشنما سینڈ وچ کا سلسلہ چلتا رہا، آخر کار شوہر کو کہنا پڑا کہ بیگم کچھ اور مل سکتا ہے کھانے میں، تو بیگم رو پڑیں!
باتھ روم جائو تو کہیں نلکوں پر پٹی لگی ہوتی ہے توکہیںکھڑکیوں کے سوراخوں کے درمیان کاغذ ٹھسے ہوتے ہیں۔ اسی طرح گاڑی کو 'ٹو‘کرنے کے لیے اب کپڑے کے رسے کو میں نے استعمال ہوئے خود دیکھا ہے۔ یہاں تو معاشی مجبوری کا بہانہ چل جائے گا لیکن یہی جذبہ ہمیں حکومتوں اور اداروں میں بھی دکھائی دیتا ہے، جہاںمنصوبہ بندی پرکم اور Quick Fix کو ترجیح دی جاتی ہے۔ دیرپا حل پہ غور نہیں کیاجاتا۔
یہ جگاڑشادی کے پاکیزہ بندھن میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ میاں بیوی ایک دوسرے کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتے، لیکن پہلے بچوں کی لائن لگا دیتے ہیں، پھر بچوں کی خاطر ساتھ رہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ وہ اپنے ازدواجی رشتے کو بہتر بنانے پرمحنت کریں، وہ گھر سے باہردوستوں میں یا ناجائز رشتوں میں سکھ تلاش کرنے لگ جاتے ہیں۔ ایک اور عجیب روش یہ ہے کہ ہم اپنے کام کو وقت کم دیتے ہیں، مگر نتائج فوراً حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ موسیقی سیکھنے کی لگن میں سالوں ریاض اور استاد کی شاگردی پر فخرکیا جاتا تھا، آج کل نوجوان ایک گانا گا کر استاد بن جاتے ہیں۔ یہی رویہ زندگی کے ہر شعبے میں نظر آتا ہے۔ انگریزی کی مثل ہے Taking pride in your work" " ہم اپنے کام سے محبت کرنا بھول گئے ہیں، راتوں رات امیر بننے کا خواب دیکھتے ہیں۔ لمبی چو ڑی تحقیق کو چھوڑ کر سر سری نظر سے علاج کرنا چاہتے ہیں۔ مسائل کی تہہ تک پہنچنے کے بجائے شارٹ کٹ استعمال کرتے ہیں۔ سنا تھا، جلدی کے کام شیطان کے ہوتے ہیں۔ مالی پہلے مٹی کی خاصیت کو سمجھے بغیر بیج کا انتخاب نہیں کر سکتا۔ پانی کی صحیح مقدار، روشنی کی شدت کو مدنظر رکھ کر دن رات بیج کو سینچتا ہے تو گلوں میں رنگ آتا ہے۔
لوگ مجھ سے انٹر ویو میں پوچھتے ہیں کہ پاکستانی میڈیا اور بین الاقوامی میڈیا میں کیا فرق ہے، تو میرا جواب یہی ہوتا ہے کہ وہی فرق جو پاکستان کے ہر شعبے میں، ہر ادارے اور فنکشن میں ہے۔ خاص طور میری تبدیلی کی جماعت کے جلسوں میں یہ نمایاں نظر آتی ہے۔ آپ اس فرق کو حسب ذوق جنون یا تخلیقی آزادی یا Ingenuity کا نام تو دے سکتے ہیں لیکن اگر یہ چاہتے ہیں کہ مستقبل میں حالات بہتری کی طرف جائیں تو ماضی کے رہنمائوں کے اقوال پر عمل کرنا ہوگا۔
قائد اعظم نے مشرقی لباس، زبان اور اقدار اپنائے، لیکن مغربی معاشرہ جس ایک اصول کی بدولت کامیاب ہے، اس کو ہمارے لیے نصب العین بنا کے چلے گئے۔ ہم جناح کے پاکستان کی باتیں تو بڑی کرتے ہیں مگر ہم نے ان کے اقوال زریں یعنی ایمان، اتحاد، تنظیم کو پہاڑوں پر نقش کرنے اورمعاشرتی علوم کی کتابوں تک ہی محدودکر ڈالا ہے۔
افسوس! نہ ہم بحیثیت قوم اپنے اجتماعی مفاد کے لیے متحد ہوئے نہ ہمارا خدا پر ایمان مضبوط ہے، تب ہی حرام کی کمائی اپنے بچوں کو کھلاتے ہوئے ڈرتے نہیں ہیں۔ اور تنظیم تو ہمیں نزدیک سے چھو کر بھی نہیں گزری۔ اگر قائد اعظم محمد علی جناح کی ذات میں نظم و ضبط نہ ہوتا تو آج پاکستان ایک حقیقت نہ ہوتا۔ اگر وہ اپنے مقصد کی خاطر دن رات انتھک محنت نہ کرتے تو ہم آج آرام سے نہ سو رہے ہوتے۔ نظم و ضبط، لگن اورکا م سے عشق ہی انسان کو کامیاب کرتا ہے۔
تبدیلی کا آغاز اپنی ذات سے کیا جاتا ہے۔ جب انفرادی حیثیت میں انسان ڈسپلنڈ ہوجائے اور اپنے کام میں نمایاں کامیابی حاصل کرلے تو نہ صرف اپنے لیے بلکہ معاشرے کے لیے بھی ایک کار آمد ترین فرد بن جاتا ہے، جس سے معاشرے میں بھی بہتری آتی ہے۔
شارٹ کٹس کی تلاش میں انسان اکثر اپنا راستہ کھو بیٹھتا ہے۔کسی بھی انمول چیز کو حاصل کرنے کے لیے بڑے جتن کرنے پڑتے ہیں۔کسی بھی حسین مقام تک پہنچنے کے لیے کٹھن اور طویل سفر کرنا پڑتا ہے۔ ضرورت ایجاد کی ماں ہے، لیکن ایجاد میں اور جگاڑ میں فرق کرنے کی تمیز ہی ہم نہیں جانتے۔ ایجاد زندگی میں آسانی پیدا کرنے اور کارکردگی(Output)کو بڑھانے کے لیے کی جاتی ہے جبکہ جگاڑسے وقتی طور پر کام چلایا جا سکتا ہے، لیکن زندگی نہیں گزاری جاسکتی۔حتیٰ کے محبوب بھی کہتا ہے:
انہی پتھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آئو
میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں