مقبوضہ کشمیر پر مودی سرکار کے جبری تسلط کی کوششیں بارآور ثابت نہیں ہورہیں۔ مقبوضہ وادی میں کرفیو کو لگے ایک ماہ ہونے کو ہے۔ لاٹھی گولی کی سرکار سری نگر کی گلی کوچوں میں دہشت پھیلا رہی ہے ۔سینکڑوں کی تعداد میں کشمیری نوجوان قابض بھارتی فوج کی بربریت کے نشانے پر ہیں۔ ان کے خلاف مہلک ہتھیار استعمال کیے جارہے ہیں۔ مجبور اور محکوم کشمیری معذور کئے جا رہے ہیں۔ کشمیری خواتین ‘بچے‘ بوڑھے اور نوجوان حق ِخود ارادیت کے لئے گھروں سے باہر نکل رہے ہیں‘ صدائے احتجاج بلند کررہے ہیں اور آزادی کے حصول کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں۔مقبوضہ وادی کا رابطہ دنیا کے دیگر حصوں سے منقطع کیا گیا ہے اور صورتحال اتنی سنگین اور کشیدہ ہو چکی ہے کہ مودی سرکار نے اپوزیشن رہنما راہول گاندھی اور دیگر کو بھی سری نگر ایئرپورٹ سے باہر نہیں نکلے دیا۔ یہ شاید بھارت کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ سری نگر میں مرکزی سیاسی قیادت کو بھارتی فوج نے تشدد کا نشانہ بنایا۔مودی سرکار بدستور ایک انجانے خوف میں مبتلا ہے اور عالمی ذرائع ابلاغ مسلسل مقبوضہ کشمیر کی کشیدہ صورتحال اور وہاں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف لکھ رہے ہیں اور دنیا کو خبردار کر رہے ہیں۔ اگر عالمی برادری اور عالمی طاقتوں نے مداخلت نہ کی اور اپنی ذمہ داری ادا نہ کی تو پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی جنگ چھڑ سکتی ہے‘ جس میں ہزاروں نہیں لاکھوں لوگ مارے جائیں گے۔ عصرحاضرکے ہٹلر نریندر مودی‘ اُن کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول اور وزیر خارجہ بیرونی دورے پر ہیں اور عالمی رائے عامہ کو اپنے حق میں بدلنے کے لیے کوششوں میں مصروف ہیں ۔تمام تر دعووں اور تعلقات کے باوجود مودی سرکار دنیا کو یہ باور کروانے میں مسلسل ناکام ہے کہ مقبوضہ کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ ہے اور مقبوضہ کشمیر کے خصوصی درجہ کو ختم کرنے کے اقدام کو دنیا تسلیم کرلے ۔
بھارت کے دوست ممالک اور دنیا کی بڑی طاقتوں میں سے کسی ایک نے بھی بھارت کے اس اقدام کو تسلیم نہیں کیا۔سکیورٹی کونسل کے بند کمرے کے اجلاس سے لے کر'' جینوسائیڈ واچ‘‘ کی رپورٹ تک‘ تمام ممالک سے ایک ہی آواز آرہی ہے کہ بھارت کشیدگی ختم کرے اور اپنے رویے پر نظرثانی کرے۔جی سیون کے اجلاس کے موقع پر نریندر مودی اور امریکی صدر ٹرمپ کے درمیان ہونے والی ملاقات میں بھی مسئلہ کشمیرسرفہرست رہا اور پریس کانفرنس کے دوران میڈیا کی طرف سے مودی اور صدر ٹرمپ سے مسئلہ کشمیر پر سوالات پوچھے گئے۔مقبوضہ وادی کا خصوصی درجہ ختم کرنے کے اقدام کے بعد مودی نے امریکی صدر ٹرمپ کے سامنے عالمی ذرائع ابلاغ کے روبرو تسلیم کیا کہ کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ ہرگز نہیں اور یہ کہ مسئلہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان دوطرفہ معاملہ ہے اور یہ بھی تسلیم کیا کہ وہ پاکستان کے ساتھ تمام تنازعات باہم مل کر حل کرنے کے خواہاں ہیں۔ صدر ٹرمپ نے بھی واضح کیا کہ مودی سے کشمیر کے معاملے پر بات ہوئی ہے۔ صدر ٹرمپ نے مودی کے دوغلے پن کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر کشمیر دو طرفہ معاملہ ہے تو پھر اتنے عرصے میں حل کیوں نہیں کیا گیا؟صدر ٹرمپ نے کہا کہ بہتر ہوگا کہ پاکستان اور بھارت مل کر باہم کشمیر کا تنازعہ حل کرلیں‘ ورنہ وہ اس مسئلہ پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور وہ اس سلسلے میں دستیاب رہیں گے۔
مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر بھارت پر جو عالمی دباؤ سامنے آرہا ہے‘ وہ نوے فیصد سے زیادہ غیر مسلم حکمرانوں کی طرف سے ہے۔سکیورٹی کونسل کے بند کمرے کے اجلاس میں چین ‘امریکا‘برطانیہ‘روس سمیت کئی ممالک بھارتی مؤقف کی بجائے پاکستان کے ساتھ نظر آئے اور مظلوم اور مجبور کشمیر یوںکے دکھ درد میں شریک ہوئے۔ صدر ٹرمپ مسلسل وزیر اعظم عمران خان اور مودی کے ساتھ رابطے میں ہیں اور مسئلہ کشمیر کو زندہ رکھے ہوئے ہیں ‘جبکہ چین اورروس نے پاکستان کے ساتھ کندھے کے ساتھ کندھا ملا کر چلنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ برطانیہ مقبوضہ وادی میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور ظلم و ستم پر تحقیقات کا مطالبہ کر رہا ہے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں اور ذرائع ابلاغ بھی مسلسل مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر بھارت کے مخالف اور کشمیریوں کے حق میں آواز اٹھا رہے ہیں‘ تاہم ستم ظریفی کا عالم یہ ہے کہ بااثر مسلم حکمرانوں اور مسلمان ریاستوں کی جانب سے مودی سرکار کے خلاف مؤثر آواز سننے کو نہیں ملی‘ بلکہ گجرات کے مسلمانوں کے قتلِ عام سے شہرت پانے والے نے اسلامی ریاستوں کا رُخ کیا اور متحدہ عرب امارات اور بحرین سے ایوارڈ وصول کیے ۔عرب حکمرانوں اور مسلم ریاستوں کے ان اقدامات کو پاکستان اور ہندوستان کے سوشل میڈیا میں بھرپور کوریج مل رہی ہے اوراس پر پاکستان میں خاصاجذباتی پن دیکھنے کو مل رہا ہے ۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مقبوضہ کشمیر سے پیدا ہونے والی صورتحال سے کچھ حقائق واضح ہوگئے ہیں اور پاکستان پر یہ حقیقت بھی عیاں ہوگئی ہے کہ اسے اپنا وزن خود اُٹھانا ہے اور دورِ جدید میں ریاستی فیصلے مذہبی تعلق کی بنیاد پر نہیں کئے جاتے بلکہ اپنا مقدمہ صرف اور صرف میرٹ پر لڑنا ہوگااور خاص طور پر اپنی معیشت کو مضبوط کرنا ہوگا۔عرب ریاستوں کے گلے شکوے بھی اپنی جگہ ہیں‘عرب سفارتکار یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ سعودی عرب نے یمن تنازعہ کے وقت پاکستان سے فوجی امدادما نگی‘پاکستان نے انکار کر دیا‘سعودی عرب اور قطر کے تنازعے میں بھی پاکستان نے خود کو غیر جانبدار رکھا۔ تاہم عرب دوست ممالک پاکستان کے ساتھ سو فیصد ناراضگی کے متحمل نہیں ہوسکتے‘ لیکن وہ اپنی معیشت اور سرمایہ کاری کے لئے بھارت کو ایک بڑی منڈی کے طور پر دیکھتے ہیں ‘جو ایک حقیقت بھی ہے ۔جبکہ اب مسلم دنیا کے حکمرانوں اور ریاستوں کے مابین برادر اسلامی ملکوں کی گردان کا بیانیہ دم توڑ چکا ہے۔ یمن‘ عراق‘ مصر‘ لیبیا‘ افغانستان‘شام‘فلسطین‘میانمار ایسے تنازعات اور خوفناک حقائق ہمارے سامنے ہیں ‘لیکن مسلم امہ اس میں کردار ادا کرتی نظر نہیںآئی اورنہ آج مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر نظر آرہی ہے جبکہ ایک بڑی اقتصادی منڈی ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کے قاتل نریندر مودی ہمارے مسلم حکمرانوں کی آنکھوں کا تارا بن چکا ہے۔بات تو سچ ہے‘ مگر بات ہے رسوائی کی۔
وزیراعظم عمران خان نے بھی اپنے قوم سے خطاب میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کو یہ جنگ خود ہی لڑنی ہے اوراب عمران خان نے دنیا کو بھی خبردار کیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کا تنازعہ عالمی ہے ‘ اگر اسے حل کرنے کے لئے دنیا نے اپنا مثبت کردار ادا نہ کیا تو پھر جنگ کے علاوہ کوئی آپشن نہیں رہ جائے گا اور پاکستان اس جنگ کو جیتنے کے لیے آخر حد تک جائے گا۔وزیر اعظم عمران خان نے واضح کیا کہ دنیا یہ نہ بھولے کہ پاکستان اور انڈیا دونوں ایٹمی قوتیں ہیں اور دنیا بھر کے سوا ارب مسلمان اقوام متحدہ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ دنیا صرف اپنی اقتصادی منڈیوں کو بڑھانے کی فکر نہ کرے بلکہ 80 لاکھ کشمیریوں کی مدد کرے۔ہم وزیراعظم عمران خان اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمرجاویدباجوہ سے بھی عرض کریں گے کہ وہ اپنی سفارتکاری کو جارحانہ انداز میں آگے بڑھائیں اور مسلم حکمرانوں اور عالمی برادری کو اپنے ساتھ ملانے کے
لیے بھر پور کوشش کریں۔
وزیراعظم عمران خان‘ جنرل قمر جاوید باجوہ‘وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ریٹائرڈ سینئر پارلیمنٹیرینز پر مشتمل وفود دنیا بھر کے دارالحکومتوں میں جائیں اور مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سے دنیا کو آگاہ کریں۔سکیورٹی کونسل کے بند کمرے کے اجلاس میں پاکستان کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھی‘ اس لیے اس حمایت کو لے کر آگے بڑھنا ہوگا۔ادھرامریکہ افغانستان میں ہر صورت کامیاب بیانیے کے ساتھ نکلنا چاہتا ہے اور پاکستان افغانستان کے معاملے سے ایک معقول فائدہ حاصل کر سکتا ہے۔پاکستان کی سول و عسکری قیادت میری دانست میں ایک مؤثر ڈیل کر سکتی ہے۔پاکستان کو اپنی روایتی سوچ بدل کر بدلتے ہوئے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ‘ صرف اور صرف اپنے قومی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے بات کرنی چاہیے۔افغانستان امریکہ کے لیے بہت اہم ہے اور یہ خطہ بھی‘ اور پاکستان اس خطے اور افغانستان کے مسئلے کا اہم کھلاڑی ہے۔بند کمرے اور بیک ڈور ڈپلومیسی کے ذریعے بہت کچھ ہو سکتا ہے۔دشمن کے دشمنوں سے دوستی اور دوست کے دشمنوں سے دشمنی ہر جگہ ملتی ہے‘ آؤٹ آف دی باکس‘کثیر الجہتی اورخفیہ سفارتکاری کے ذریعے اپنے کارڈ استعمال کریں تو بڑے سے بڑا اور مشکل سے مشکل ہدف بھی حاصل ہو سکتا ہے۔ایٹم بم سے بھی زیادہ خطرناک ہتھیار منظم جدوجہدہے‘ اگر یہ جدو جہد ریاست ِپاکستان استعمال کرے تو اس سے ناقابلِ یقین حد تک مثبت نتائج حاصل ہوں گے۔