ایک اچھی فلم یا ڈرامہ بنانے کے لئے سب سے پہلے ایک اچھی کہانی ‘ بہترین سکرپٹ رائٹر ‘جاندار پروفیشنل ہدایت کار ‘ اچھا پروڈیوسر ‘ سین فلمانے کے لئے اچھا سیٹ ڈیزائنر‘ماحول کی بہترین منظر کشی کے لئے اچھا لائٹ مین ‘ اچھا ڈانس ڈائریکٹر‘بوریت دُور کرنے کے لیے ایک آئٹم سانگ اورآئٹم سانگ پیش کرنے کے لیے گلیمر سے بھرپور پرکشش رومانوی چہرہ‘ سنسنی خیزی کیلئے ایکشن ڈائریکٹر ‘ہیرو کو بچانے اور نظروں کو دھوکا دینے کے لیے سٹنٹ مین‘ آنکھوں میں آنسو لانے اور پتھر دلوں کو موم کرنے کے لیے ماں کی ممتا کی شکل میں ایک ملکہ ٔجذبات اورمارکیٹنگ اور پروموشن کے لیے بڑے بڑے میڈیا ہاؤسز کی شراکت داری کی ضرورت ہوتی ہے۔یہ سب کْچھ میسر آ بھی جائے تو بھی فلم اور ڈرامے کے سپر ہٹ ہونے کی ضمانت نہیں دی جاسکتی ؛تاوقتیکہ انتہائی اچھے شہرت یافتہ نامور اداکاروں کی ایک ٹیم نہ مل جائے۔اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایسی فلمیں بالعموم بھاری بجٹ ہی سے بنتی ہیں‘ اس کے لیے عصر حاضر میں بڑے بڑے شوقین سرمایہ کاروں کی ضرورت پڑتی ہے‘ جو باآسانی میسر آجاتے ہیں۔
اس نوعیت کی فلمیں لالی وڈ ‘بالی وڈ اور ہالی وڈ میں بنتی رہتی ہیں اور سپر ہٹ ہو کر بڑا بزنس کرتی ہیں۔ اچھے‘ باوقار ‘ محنتی اور پروفیشنل فلمساز کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کی ہر نئی فلم ہر اعتبار سے پہلے سے مختلف ہو ‘اس کی کہانی‘ موضوع‘ مناظر اورموسیقی ناظرین کے لئے منفرد تفریح مہیا کرے اور فلم بین بوریت محسوس نہ کریں۔یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کی فلمی دنیا کے نامور ڈائریکٹر اورپروڈیوسر محنت اور جدت پر یقین رکھتے ہیں۔
ہاں البتہ اچھی رومانوی اور تاریخی داستانوں پر مشتمل فلمیں اور ڈرامے ہر دور میں نشر ِمکرر کے طور پربنتے رہتے ہیں اوران میں تبدیلی صرف اتنی ہوتی ہے کہ مناظر ‘اداکار ‘ موسیقی اور ڈائیلاگ تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔لیلیٰ مجنوں‘ ہیر رانجھا‘ سسی پنوں اور دیوداس ایسی فلمیں ہیں کہ یہ جب بھی بنائی جائیں تو فلم بین ہمیشہ لطف اندوز ہوتے ہیں۔اس کے برعکس کاہل‘ لیکن شاطر لوگ محنت جیسے نئے پنگوں میں پڑنے کی بجائے پہلے سے بزنس کرنے والی نامور فلموں کا سہارا لیتے ہیں اور چربہ فلمیں بنانے کو ترجیح دیتے ہیں۔یہ چربہ سازی کہانی‘موسیقی اور ایکشن سمیت تمام شعبوں میں کی جاتی ہے۔ فلمسازوں کو کوئی ڈر‘ خوف یا ندامت ہرگز نہیں ہوتی کہ چربہ ظاہر ہونے پر پکڑے جائیں گے یا مارکیٹ میں گندے ہو ں گے ۔ان کا مقصد بس کم خرچ کر کے زیادہ پیسہ کمانا اور مارکیٹ میں اپنی اجارہ داری برقرار رکھنا ہوتا ہے۔ہاں؛ البتہ اتنا خیال ضرور رکھا جاتا ہے کہ چربہ فلم میں کْچھ ایسا نہ ہو کہ کوئی کاپی رائٹ کی بنیاد پر عدالت میں چلا جائے۔ایسی چربہ فلموں میں اکثر اوقات کہانی سے لے کر فلم بندی کے مناظر تک تبدیل نہیں کیے جاتے اور اکثر تو اداکار بھی وہی پرانے ہی ہوتے ہیں‘ فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ پہلے فلم اگر سندھ میں فلمائی گئی اور کراچی کے ہسپتال اور کراچی کی جیلوں میں ریکارڈنگ کی گئی تھی ‘تو نئے سکرپٹ اور چربے میں فلم بندی کے لیے لاہور اور راولپنڈی کے ہسپتالوں اور جیلوں کا انتخاب کیا جاتا ہے۔پرانی کہانی اور گھسے پٹے سکرپٹ کا سہارا لیا جاتا ہے۔
آج سے بیس پچیس سال پہلے یہ چربے کامیاب بھی ہوجاتے تھے اور فلم بین ان کو برداشت بھی کر لیتے تھے‘ کیونکہ ناظرین کے پاس تفریح کے مواقع نہ ہونے کے برابر تھے۔ماضی کے برعکس عصر ِحاضر میں لوگوں کوزندگی انجوائے کرنے اور ذہنی تفریح کے نت نئے مواقع میسر آچکے ہیں۔ سوشل اور الیکٹرانک میڈیا کے اس دور میں ملک کے طول و عرض میں پھیلے ناظرین میں شعور بھی بیدار ہوچکا ہے‘ جس کی بدولت اب چربہ کہانیوں ‘ڈبہ فلموں اور پرانی فلموں کو نئی پیش کرنے کے عمل کو عوام نہ صرف پسند نہیں کرتے ‘بلکہ اس پر شدید ردعمل بھی ظاہر کرتے ہیں۔اور اگر فلم دیکھنے کے دوران انہیں یہ شبہ بھی ہوجائے کہ یہ فلاں پرانی فلم کا چربہ ہے تو سینما ہال میں بیٹھے بیٹھے ہی ہوٹنگ شروع کر دیتے ہیں اور سینما ہال کی کرسیاں تک توڑ دیتے ہیں اورسینما مالک کو منافع کمانے کی بجائے لینے کے دینے پڑھ جاتے ہیں‘جس کی وجہ سے اب سینما مالکان چربہ فلمیں لینے سے کتراتے ہیں۔
ایک ایسی ہی چربہ فلم اس وقت سینما ہال میں نمائش کے لیے پیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ فلم سازوں کا خیال تھا کہ فلم بین بیس سال پہلے بننے والی فلم کو بھول چکے ہوں گے‘ لیکن توقع کے برعکس یہ فلم سینما ہال میں آنے سے پہلے ہی پکڑی گئی ہے۔ اور تو اورسنسر بورڈ نے ہی اس فلم کو روک لیا ہے اور بورڈکے تمام ارکان اپنی اپنی چمڑی بچانے کے لئے اس فلم کی منظوری نہیں دے رہے ۔ہر ممبر کی خواہش ہے کہ اس فلم کی منظوری اس سے بڑا دے دے اور فلم ساز پریشان ہے کہ اس کی ساری محنت رائیگاں چلی جائے گی۔
بیس سال پہلے ایک فلم بنائی گئی تھی‘ جس میں بھرپور سسپنس تھا‘ سنسنی تھی نامور اداکار کاسٹ کئے گئے تھے ‘فلمساز سے لے کر ڈائریکٹر‘ پروڈیوسر اور موسیقار نامور لوگ تھے اور اپنے دور کی مشہور و معروف فلمیں بنا چکے تھے ۔ مارکیٹ میں ان کی اجارہ داری تھی‘ سینما مالکان صرف ان کی بنی ہوئی فلمیں ہی اٹھاتے تھے ۔ کہانی کے مطابق‘ ایک جنگل میں دو ہاتھیوں کی لڑائی میں ایک ہاتھی پکڑا جاتا ہے ‘جنگل کا بادشاہ اسے گرفتار کرتا ہے‘ مقدمہ چلتا ہے اور ہاتھی کو سزا سنا کر جیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔ دوسرے جنگل کے شیر‘ گرفتار ہاتھی کے دوست سفارش کرتے ہیں اور بادشاہ سلامت کو ترس آجاتا ہے‘ معاہدہ ہوتا ہے کہ گرفتار ہاتھی جنگل چھوڑ جائے گا اور کسی دوسرے جنگل میں پناہ لے گا۔ پھر دس سال تک واپس نہیں آئے گا اس کے لیے جنگل کے شیر کے سامنے ہاتھی درخواست دیتا ہے کہ وہ بیمار ہے ‘اسے کسی دوسرے جنگل میں جا کر علاج کروانے کے لیے جانے دیا جائے۔بادشاہ سلامت انہیں دوسرے جنگل کے بادشاہوں کی ضمانت پر جانے دیتا ہے اور جنگل میں اپنی بادشاہت کو دوام بخشتا ہے۔نئی پیش کی جانے والی فلم اسی پرانی فلم کا چربہ ہے‘ سکرپٹ پرانا ہے‘ بادشاہت وہی ہے‘ ہاتھی وہی ہے‘ کہانی تھوڑی مختلف ہے ‘وہی ہاتھی پھر پکڑا گیا اور بند ہے‘ پھر دوسرے جنگل کے دوست بادشاہ سفارشی ہیں ‘بادشاہ ہاتھی کو چھوڑنا چاہتا ہے۔ اب بھی ہاتھی بیمار ہے‘ لیکن جنگل میں اب اس اکیلے کی رِٹ نہیں ہے ‘ ایک نیا کردار فلم کا سلطان راہی ڈٹ گیا ہے ‘کیونکہ اب جنگل میں بادشاہ'' مختارِ کل‘‘ نہیں ہے۔ اسے جنگل کے دوسرے بڑوں کی محتاجی ہے۔ سلطان راہی نے بڑھکیں مار مار کر جنگل میں اتنی مشہوری حاصل کرلی ہے کہ اس کے لوگ اسے پسپا ہونے نہیں دے رہے اور سوشل اور الیکٹرانک میڈیا کے بڑھتے ہوئے پراپیگنڈے نے کھیل خراب کردیا ہے۔سنسر بورڈ نے ہاتھ کھڑے کردئیے ہیں۔فلم کو کامیاب کرنے کے لیے ملکۂ جذبات کی ضرورت ہے۔
ملکی سیاست میں اس وقت نواز شریف سیاست کے گھنٹہ گھر بنے ہوئے ہیں۔ وہ بیمار ہیں اور علاج کی غرض سے لندن جانا چاہتے ہیں ‘عدالتیں انہیں ضمانت پر رہا کرچکی ہیں‘ ان کا نام ای سی ایل میں ہے اور وفاقی حکومت نے اس بارے میں حتمی فیصلہ کرنا ہے۔وزارتِ داخلہ‘ نیب ‘وفاقی حکومت اوروزارت قانون سمیت ہر کوئی چاہتاہے کہ وہ اس معاملے سے الگ تھلگ رہے اور اس سیاسی کمبل کا سارا وزن وزیراعظم پر ڈال دیا جائے۔ وزیراعظم عمران خان اب سمجھدار ہوچکے ہیں اور راج نیتی کو سمجھنے لگے ہیں‘ انہوں نے پرائیویٹلی بھی کچھ مشاورت کی ہے‘ جس کے نتیجے میں نواز شریف کا نام بدستور ای سی ایل میں ہے۔وزیرِداخلہ اعجاز شاہ اور چیئر مین نیب جسٹس جاوید اقبال نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلیںاور وزیر اعظم عمران خان کے پاس 14ماہ کا حکومتی تجربہ بھی ہے‘ اس لیے وہ اپنی سیاسی ساکھ خراب نہیں ہونے دیں گے۔