دھرنے میں کس نے کیا کھویا کیا پایا؟ مولانا کے اسلام آباد سے جانے سے کیا حکومت کے لیے خطرات ٹل گئے ہیں یا دھرنے کے آفٹر شاکس دھرنے سے زیادہ خطرناک ہوسکتے ہیں ؟ کیا حکومت دھرنے کے نتیجے میں مضبوط ہوئی یا کمزور؟ کیا عمران خان کی وزارتِ عظمیٰ اور پارلیمنٹ پانچ سال پورے کرپائیں گے یا پھر دونوں کو ہی قبل از وقت جانا ہو گا؟ یا یہ کہ صرف عمران خان کو جانا ہوگا اور پارلیمنٹ اپنی مدت پوری کرے گی ؟ یہ وہ سوالات ہیں جوسب کے ذہنوں میں گونج رہے ہیں۔مولانا وزیراعظم سے استعفیٰ لینے اور ان کی حکومت گرانے کا یک نکاتی مطالبہ لے کر میدان میں اُترے تھے‘ انہیں اس وقت بھی بڑی سیاسی جماعت پیپلزپارٹی کی حقیقی حمایت حاصل نہیں تھی‘ مسلم لیگ (ن) البتہ دو کشتیوں میں سوار تھی‘ ایک گروپ مولانا کے ساتھ تھا اور دوسرا گروپ دوسری جانب معاملات طے کرنے میں لگا ہوا تھا ‘جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مولانا بھی ناراض ہوگئے اوران کے معاملات بھی تاحال پھنسے ہوئے ہیں۔البتہ پیپلزپارٹی سوائے بلاول کی ایک تقریر کے‘ جو انہوں نے کنٹینر پر کی ‘ دوبارہ نظر نہیں آئی۔ پھر مولانا نے اپنے پلان بی کی حمایت کے لیے رہبر کمیٹی کے ذریعے حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی‘ لیکن بڑی اپوزیشن جماعتوں نے مولانافضل الرحمن کا ساتھ دینے سے صاف انکار دیا۔حکومت کی مذاکراتی ٹیم اور رہبر کمیٹی کے درمیان مذاکرات ناکام ہوئے تو حکومت کی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کی قیادت کو میدان میں اتارا گیا۔چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویزالٰہی کی کاوشیں بھی مولانا کو دھرنا ختم کرانے میں اہم رہیں۔
مولانا نے دھرنے کے بارہ روز میں ہر طرح کی دھمکیاں دیں‘ لاشیں اٹھانے کی خوفناک تصویر کشی کی گئی‘ اداروں کو دھمکایا گیا‘ حساس موضوعات کو چھیڑا گیا‘مذہبی کارڈ بھی کھیلا گیا‘پاور پلیئرز کو للکارا گیا ‘لیکن سوائے پی ٹی آئی کے سب نے صبراور نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا اور ہر الزام کا جواب دلیل کے ساتھ مولانا کو دیا گیا۔شہباز شریف اور پیپلز پارٹی نے بھی جلتی پر تیل کا کام نہیں کیا۔مولانا آخری وقت پر بھی دھرنا وفاقی دارالحکومت میں برقرار رکھتے ہوئے پلان بی پر جانا چاہتے تھے‘ لیکن عین وقت پر چوہدری شجاعت اور پرویز الٰہی نے مولانا کے گھر جا کر ان کے کان میں کوئی ایسی بات کی کہ مولانا نے فوری طور پر اپنا ارادہ بدلا اور دھرنا ختم کرنے کا اعلان کردیا۔مولانا اور چوہدری صاحبان کی ملاقاتیں تاحال جاری ہیں‘ جو حکومت کے لیے ہرگز اچھی نہیں ہیں۔
مولانا کا دھرنا ختم ہو چکا ہے‘ لیکن وہ خود اسلام آباد میں موجود ہیں اور مطمئن دکھائی دیتے ہیں۔دھرنے کے اُٹھ جانے پر وزراشادیانے بجارہے ہیں۔ان کی یہ خوشی فی الوقت درست بھی ہے ‘لیکن اس خوشی اور مولانا کے دھرنے کے ختم ہونے میں پی ٹی آئی کا کوئی کمال نہیں ہے ‘بلکہ یہ خوشی بڑی اپوزیشن جماعتوں ‘خاص طور پر پیپلزپارٹی‘ کی مرہون منت ہے‘ جن کے اصولی موقف‘ سیاسی پختگی اور جمہوریت پر گہرے یقین نے دھرنے اور جتھے کے ذریعے حکومت گرانے کے طریقہ کار کی شدیدمخالفت کی اور پارلیمنٹ کے معاملات پارلیمنٹ کے اندر پارلیمنٹ کے ذریعے ہی حل کرنے پر مُصر رہیں۔ دوسرا کریڈٹ پاور پلیئرز کو جاتا ہے‘ جنہوں نے تمام طعن وتشنیع کے باوجود اپنا وزن اپوزیشن کے پلڑے میں نہیں ڈالا۔
آزادی مارچ سے کافی عرصہ پہلے مولانا نے سپہ سالار سے ملاقات بھی کی اور مولانا نے خود ہی اس ملاقات کے بارے میں اپنے ہم خیال اور قریبی دانشوروں کو آنکھیں گھما گھما کر آگاہ کیا۔مولانا نے سپہ سالار سے حکومت کے خلاف مدد مانگی اور انہیں آمادہ کرنے کی کوشش کی لیکن سپہ سالار نے اس ملاقات میں مولانا کو ایسا کوئی بھی قدم اٹھانے سے باز رہنے کا کہا جس سے ملک عدم استحکام کا شکار ہو اور ایسی صورتحال سے دشمن ممالک فائدہ اٹھائیں۔سپہ سالار نے جمہوریت کے ساتھ غیر متزلزل وابستگی اور اپنے آئینی کردار پر قائم رہنے کا عزم کیا۔مولانا کی یہ ملاقات بالکل اسی نوعیت کی تھی جیسا کہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری نے اپنے دھرنوں کے دوران اس وقت کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف سے ملاقات کرکے نواز حکومت گرانے کے لیے مدد مانگی تھی لیکن جنرل راحیل شریف نے بھی ایسی کوئی مدد کرنے سے نہ صرف انکار کردیا تھا بلکہ ماورائے آئین کوئی قدم اٹھانے کی بھی نفی کردی تھی۔ جس کے بعد مایوس ہوکر علامہ قادری نے دھرنا سمیٹ دیا تھا اور پورے ملک میں پھیلنے کا پلان بنایا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ وہ سیاست سے ہی ریٹائر ہوگئے۔جنرل باجوہ کے انکا ر کے باوجود مولانا فضل الرحمن کی ملاقات مولانا کو اپنے حتجاج کا پروگرام ملتوی کرانے میں ناکام رہی۔مولانا اور سپہ سالار اس ملاقات کے مندرجات کے امین ہیں‘ اگر وہ لب کشائی نہیں کررہے تو پھر اس بارے میں زیادہ قیاس آرائی مناسب نہیں۔
دوسری جانب گیم چینجرشہباز شریف نے انتہائی خاموشی اور برق رفتاری سے جو کْچھ حاصل کیا تھا اسے کسی کی نظر لگ گئی اور شریف فیملی کے سوشل میڈیا پر جشن ِفتح کے پیغامات نے ان سنسرز کو بھی آن کردیا جن کی پہنچ سے دور یہ معاملات کامیابی کے قریب پہنچے تھے۔ رہا سہا کام خواجہ آصف کی قومی اسمبلی میں اس تقریر نے کردیا جس میں انہوں نے وسط مدتی انتخابات کی نوید اور حکومت کو خطرے کا طعنہ دے مارا۔ اس تقریر کے بعد عمران خان نے اپنے معتمد خاص اور ان کی سفارش پر تعینات ان کے دستِ راست افسر کی بے خبری پر ان کی اچھی خاصی ڈانٹ ڈپٹ کی۔جس کے بعد وزیراعظم نے حتمی طور پر معاملات اپنے ہاتھوں میں لے لیے اور جو کچھ کرسکتے تھے وہ انہوں نے کردکھایا اور مزید کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔عمران خان کو بھی ان کے'' چوہدری نثار‘‘ مشورہ دے رہے ہیں کہ آپ بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ نہ دیں اور گرم پانیوں اور آگ کے گولوں کے قریب نہ جائیں‘ لیکن عمران خان فرنٹ فٹ پر جارحانہ کھیل کھیلنا چاہتے ہیں‘ تاکہ وہ اپنا ووٹ بینک اور اپنا بیانیہ برقرار رکھتے ہوئے آئندہ الیکشن لڑ سکیں۔ عمران خان صاحب کو جاری سیاسی کھیل کا اندازہ ہوچکا ہے‘ اس لیے وہ اب مزید وزن اٹھانے کے موڈ میں نظر نہیں آتے ‘یہاں تک کہ اگر نئے مینڈیٹ کے لیے جانا پڑے تو وہ اس کے لیے بھی تیار نظر آتے ہیں۔ مولانا ‘پیپلزپارٹی‘ مسلم لیگ (ن) اور خاص طور پر خواجہ آصف کا بیک وقت مطمئن نظر آنا اور ڈی جی آئی ایس پی آر کا یہ کہنا کہ پاک فوج کسی پارٹی کے ساتھ نہیں ہے اور ہر جمہوری اور آئینی حکومت کے ساتھ ہوتی ہے‘ سے بہت کچھ واضح نظر آ رہا ہے۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ آنے والے دو سے چار ماہ کے دوران ایسی سیاسی ڈویلپ منٹس ہوسکتی ہیں کہ جن سے پہلا چیلنج عمران خان کی وزارت عظمیٰ کو ہو سکتا ہے‘ کیونکہ وزارت عظمیٰ محض نو ووٹوں کے قلیل اور بیگانے سہارے پر کھڑی ہے۔چوہدری شجاعت حسین کے بیانا ت معنی خیز بھی ہیں اور پیغام بھی۔دو اتحادی جماعتوں کے الگ ہونے سے نو ووٹوں کا فرق ختم ہوجاتا ہے اور کھیل اپوزیشن کے پاس جا سکتا ہے‘ لیکن دوسرا خطرہ خان صاحب کا جارحانہ مزاج ہے‘ جس کی وجہ سے وہ خود بھی نئے انتخابات کی طرف جاسکتے ہیں۔دھرنے اور نواز شریف‘ دونوں نے شک کا بیج بو دیا ہے‘ اس کی آبیاری کتنی جلد ہوسکتی ہے اس کا انحصار پاور پلیئرز کے موڈ پرہے اور کم سے کم تمام اپوزیشن جماعتیں وسط مدتی انتخابات پر متفق نظر آتی ہیں جو کہ ایک جمہوری اور سو فیصد آئینی مطالبہ ہے۔ عمران خان اپنی وزارت عظمیٰ کے پانچ سال پورے کرلیں تو یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا سیاسی معجزہ ہوگا۔