NNC (space) message & send to 7575

حکمرانوں کے غلط فیصلے

کورونا سے پہلے خبروں کی زینت افغانستان‘ لیبیا‘ شام‘ ایران‘ یمن‘ فلسطین اور مقبوضہ کشمیر کے بدامنی کے حالات اور وہاں پر بیرونی مداخلت اورریاستی ظلم وستم کے قصے تھے اور دنیائے سیاست میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ‘ نریندر مودی اور وزیرعظم عمران خان جگمگا رہے تھے اور دنیاپر حکمرانی کرنے والوں کو یہ گمان تک نہ تھا کہ سب کچھ آناًفاناً بدل جائے گا اور تمام سیاسی و معاشی طاقتوں کو اپنی اپنی بقا کی فکر پڑ جائے گی۔مگر کورونا کے بعد دنیائے عالم اس وقت ہیجان‘ اضطراب اور بدامنی کا شکار ہوچکی ہے۔ انفرادی‘ قومی اور عالمی معیشت کی شرح منفی میں جاچکی ہے۔ نہ ترقی پذیر ممالک کی معیشتیں کورونا سے محفوظ رہیں اور نہ ہی ترقی یافتہ ممالک کی۔صدر ٹرمپ کورونا سے پہلے اگلے انتخابات کی تیاری اور اسے جیتنے کے لیے نہ صرف مطمئن تھے بلکہ آئندہ کے منصوبوں سے بھی آگاہ کررہے تھے۔ کبھی وہ مودی سے جپھیاں ڈالتے اور ان کے زیرانتظام جلسوں سے خطاب کرتے اور کبھی عمران خان صاحب سے وائٹ ہاؤس میں ملاقاتیں کرتے اور انہیں اپنا قریبی دوست قرار دیتے ہوئے کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کررہے تھے۔ داخلی سیاست میں ٹرمپ نے سب کو آگے لگایا ہواتھا اور میڈیا کو بھی آڑے ہاتھوں لیتے تھے‘ جس کسی نے اختلاف کیا‘اسے عہدے سے برطرف کردیا گیا۔ یہ صدر ٹرمپ کا معمول تھا کہ وہ اپنے اداروں کی رائے اور اجتماعی دانش کو درخورِاعتنا نہیں سمجھ رہے تھے ۔جو منہ میں آتا بول دیتے ‘ یہاں تک کہ سپر پاور کا صدرعام صحافیوں کے سوالات کے جوابات دینے کے بجائے ان سے الجھتا نظر آتا۔ کورونا کی بیماری آئی تو اس کا تمسخر اڑایا ‘ تکبر اورخود سری کا اظہار کیا اور اسے چینی وائرس کہا۔ چین پر الزامات عائد کئے‘ کورونا پر سیاست کی‘ چینی لیبارٹریز کا عالمی معائنہ کرنے کا مطالبہ کیا۔ کورونا کو چین کی سازش قرار دیا اور ہر وہ حربہ استعمال کیا کہ کورونا کو بیماری کے بجائے چین کی سازش قرار دیا جائے۔ صدر ٹرمپ کو ان کے انٹیلی جنس ادارے بھی ایسا کہنے سے باز رہنے کا مشورہ دیتے رہے‘ لیکن ٹرمپ نے کسی کی نہ سْنی اور اپنا بے بنیاد بیانیہ جاری رکھا۔عالمی ادارہ صحت کو بھی الزام دیا اور اس کی ہدایات پر عمل کرنے کے بجائے اس پر پابندیاں عائد کردی گئیں‘ لیکن پھر یہ ہوا کہ سپرپاور امریکہ کورونا کی ایسی لپیٹ میں آیا کہ سب کے ہوش ٹھکانے آگئے۔ اس وقت امریکہ اموات میں سب سے آگے ہے ۔کورونا سے دنیا کی کل اموات کا بیس فیصد صرف امریکہ کا حصہ ہے۔ اسی طرح متاثرہ مریضوں کی سب سے بڑی تعداد بھی امریکہ کے حصے میں ہی آئی اور وہاں کا ہیلتھ سسٹم بھی جواب دے گیا۔ صدر ٹرمپ نے پوری کوشش کی کہ کورونا سے ناکامی کا الزام ان کی قیادت پر نہ آئے‘ مگرابھی کورونا کا عذاب جاری تھا کہ امریکہ میں ایک بے حیثیت سیاہ فام مزدور جارج فلائڈ کی پولیس افسر کے ہاتھوں ہلاکت نے پورے امریکہ کو ہی نہیں بلکہ برطانیہ اور یورپ تک کو اپنی لپیٹ میں لیا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے امریکہ سمیت متعدد ممالک میں نسلی فسادات پھوٹ پڑے۔ امریکہ میں نسلی تفرقے کی تاریخ سے نابلد صدر ٹرمپ نے صورتحال کی سنگینی کو ایک سٹیٹس مین کی طرح سنبھالنے کے بجائے ایک تاجر اورایک متکبر کی طرح طاقت سے مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی اور عوام نے طاقت کے استعمال کو مسترد کردیا اور کرفیو کو بھی توڑ دیا۔ عوام کو وائٹ ہاؤس جانے سے کوئی نہ روک سکا اور وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ کو بنکر میں پناہ لینے کے لیے جانا پڑا ۔پولیس اور فورسز نے گولی نہیں چلائی لیکن صدر ٹرمپ بدستور طاقت سے کچلنے کا حکم دیتے رہے‘ لیکن ان کے اس حکم کی کسی ادارے نے تعمیل نہ کی اور وزیردفاع نے فوج کے استعمال کی اعلانیہ مخالفت کی‘ پولیس چیف نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ صدر ٹرمپ اپنا منہ بند رکھیں اگر کوئی اچھا بول نہیں سکتے‘ متاثرین کے زخموں پر مرہم نہیں رکھ سکتے تو صرف خاموش رہیں۔ پولیس چیف نے صدر ٹرمپ سے کہا کہ یہ کوئی فلم نہیں ہے بلکہ حقیقت میں لوگ احتجاج کررہے ہیں۔
میں نے اپنے ربع صدی کے صحافتی تجربے میں کبھی یہ نہیں سنا کہ ایک پولیس افسر نے امریکہ کے صدر کے لیے ایسی زبان استعمال کی ہو ‘ مگرابھی ایک سیاہ فام کے قتل کا غصہ ٹھنڈا نہ ہواتھا کہ ایک اور واقعہ پیش آچکا ہے اورساری صورتحال میں امریکہ کے صدر غیر متعلق ہوچکے ہیں اور ریاستی ادارے اور ریاست کا خودکار نظام اپنا کام کررہا ہے کیونکہ ریاستوں کو ان کے ادارے‘ ان کا نظام چلاتا ہے ۔جس ریاست کے ادارے‘ انتظامی ڈھانچہ اورنظام عدل مضبوط بنیادوں پر کھڑا ہو وہ بڑے بڑے بحرانوں سے نکل جاتی ہے‘ وہ کسی فردِ واحد سیاسی حکمران یا فوجی قائد کی مرہون منت نہیں ہوتی‘ بلکہ یہ ریاستی ادارے ہوتے ہیں جو اپنا کام جاری رکھتے ہیں۔ فردِ واحد خواہ وہ منتخب ہویا غیر منتخب ‘وہ سیاسی ہو یا فوجی اس کے آنے جانے سے فرق نہیں پڑتا۔ ریاستی نظام کو جو اتھارٹی نہ سمجھ سکے اور عمل نہ کرے اور اجتماعی سسٹم کے برعکس اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ عمارت کھڑی کرنے کی کوشش کرے اور سالہا سال سے کام کرنے والوں اور اجتماعی دانش کے برعکس اپنے آپ کو عقلِ کل سمجھے تو پھر ایسے سیاسی و غیر سیاسی پرزے کو حکومتی اور ریاستی مشینری سے نکال دیا جاتا ہے۔ گو کہ اس پر وقت لگتا ہے لیکن بالآخر اس نکالنا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کورونا اور سیاہ فام کے قتل کے بعد امریکہ کے تمام سنجیدہ حلقے صدر ٹرمپ کے خلاف میدان میں اترچکے ہیں۔ دیکھتے ہیں آئندہ انتخابات سے پہلے صدر ٹرمپ اپنے آپ کو کس طرح دوبارہ متعلق کرتے ہیں اور آیا نظام ان کو دوبارہ قبول کرتا بھی ہے یا نہیں؟
صدر ٹرمپ کے دوسرے دوست نریندر مودی نے بھی ہر مسئلے کا حل طاقت کے نشے میں بڑے متکبرانہ انداز میں تلاش کرنے کی کوشش کی۔ زمینی حقائق اور انسانی نفسیات سے نابلد انتہا پسند مودی نے انسانوں کی نسل کشی اورریاستی دہشت گردی سے کشمیریوں کی آواز دبانے کی کوشش کی‘ کروڑوں نفوس پر مشتمل اقلیتوں کو انڈیا سے نکالنے کے لیے قومی رجسٹریشن کا متنازعہ قانون منظور کیا اور پورے ہندوستان میں آگ لگ گئی ۔ کورونا کو بیماری سمجھنے کے بجائے اسے مسلمانوں کی طرف موڑنے کی کوشش کی اور مقدمات قائم کئے ‘یہاں تک کہ حاملہ خواتین کو جیلوں میں ڈال دیا گیا اور عدالتیں ان خواتین کی ضمانتیں لینے کو تیار نہیں ہیں۔ مودی ہندوتوا‘ آر ایس ایس اور بی جے پی کے دہشتگردانہ نظریے پر عمل پیرا ہو کر انڈیا کو صرف ہندو کے لیے ریاست بنانا چاہتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کو لیتے لیتے چین کو وادی گلوان اور لداخ پر قبضہ کروا بیٹھے اور چینی فوجیوں کے ہاتھوں بھارتی فوجیوں کی ڈنڈوں ‘ جوتوں اور ٹھڈوں سے پٹائی کابدلہ نہ لے سکے۔ اب انڈیا کا نظام اور ریاستی ادارے وہاں کے اہلِ دانش اور دفاعی تجزیہ کار مودی پر برس رہے ہیں اور راج ناتھ اور امیت شاہ کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے ۔امریکی اداروں کے ذمہ داران بھارت کا دورہ کرکے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور نسل کشی کی تحقیقات کرنا چاہتے ہیں‘ لیکن ان کو ویزہ نہیں دیا جارہا۔ مودی کو ان کے دوست ڈونلڈ ٹرمپ بھی بچا نہیں پارہے اور ٹرمپ کی طرح مودی بھی اپنے ریاستی نظام میں غیر متعلق ہوچکے ہیں ‘ جبکہ بھارت میں سارے مسائل اور چین کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو بھی اس ساری صورتحال کا بغور جائزہ لینا چاہیے کہ کہیں ان کے ساتھ بھی تو ایسا نہیں ہورہا؟ اصلاح احوال کر لینی چاہیے ورنہ پولیٹیکل سائنس کے کچھ اصول بڑے واضح ہیں‘ جو آج تک تبدیل نہیں ہوسکے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں