سب سے بڑی اور حیران کن خبر یہ آئی کہ اہم ترین عرب ملک متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان ایک معاہدہ طے پاگیاہے اور دونوں ملکوں نے سفارتخانے کھولنے پر بھی اتفاق کرلیا ہے۔سادہ اور عام فہم زبان میں یہ کہا جائے گا کہ متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا ہے۔ اس سے پہلے دو مسلم ممالک مصر اور اردن کے اسرائیل سے اس نوعیت کے براہ راست مراسم تھے۔ابتدا میں یہ بتایا گیا کہ اسرائیل فوری طور پر توسیع پسندانہ رجحان کو ختم کردے گا اور مزید کسی علاقے پر قبضہ نہیں کرے گا‘ لیکن جلد ہی تل ابیب اور ابوظہبی کے اعلیٰ حکام نے ایسی کسی شرط کی تردید کردی اور یواے ای کے معاون وزیرخارجہ قرقاش نے بھی واضح کیا کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات غیر مشروط ہیں اور فلسطین بارے کوئی شرط عائد نہیں کی گئی۔ ادھر واشنگٹن میں صدر ٹرمپ کے داماد اور سلامتی امور کے مشیر نے میڈیا کو بتایا کہ اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیاں معاہدے کو کامیاب بنانے میں یواے ای کے ولی عہدمحمد بن زاید اورسعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے صدر ٹرمپ کے ساتھ مل کربہت کام کیا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ سعودی عرب نہ جانے کیوں ہچکچا رہا ہے حالانکہ ان کے درمیان بھی اتفاق ہوچکا ہے۔ پھر صدر ٹرمپ کے داماد نے خود ہی بتایا کہ فی الوقت سعودی عرب کے اسرائیل کے ساتھ ہونے والے معاہدے کو مخفی رکھا جائے گا۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے اس عمل کو ''step up cooperation‘‘ کی پالیسی کے تحت آگے بڑھائے گا ‘ خبر یہ بھی ہے کہ بحرین کا بھی اسرائیل سے معاہدہ ہوچکا ہے جس کا اعلان جلد کردیا جائے گا۔مراکش‘ کویت اور عمان کے بارے میں بھی ایسی ہی اطلاعات ہیں۔ مسلم اُمہ ‘ خاص طور پر عربوں اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی اور دشمنی کا ایک تاریخی پس منظر ہے‘ بنیادی جھگڑا آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ہے جسے اقوام متحدہ نے تسلیم کیا ہوا ہے۔ فلسطینیوں کے ساتھ بھی اسرائیل وہی بدترین سلوک کررہا ہے جو سلوک مقبوضہ کشمیر میں انڈیا کشمیریوں کے ساتھ کررہا ہے۔ عربوں اور اسرائیل کے درمیان جنگیں بھی ہوچکی ہیں اور افواجِ پاکستان نے ان جنگوں میں عملی حصہ بھی لیا ہے ‘ بدلے میں اسرائیل نے پاک بھارت جنگوں میں ہمیشہ بھارت کا ساتھ دیااور ایک موقع پر ہمارے ایٹمی پروگرام کو بھی اسرائیل نے انڈیا کے ساتھ مل کر نشانہ بنانے کا منصوبہ بنایا اور پھر ایسا بھی ہوا کہ امریکہ کے کہنے پر اسرائیل نے پاکستان کو عالمی فورمز میں ووٹ بھی دیا۔ اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی میں بھی یہی انڈرسٹینڈنگ تھی کہ اسرائیل کے بارے میں بھی باہم مشاورت سے فیصلہ کیا جائے گا‘ لیکن دنیا بدل رہی ہے اور مقامی اور عالمی تنظیموں کی افادیت ختم ہوتی جارہی ہے۔ جیسے جیسے ممالک انفرادی طور پر تگڑے ہوتے جارہے ہیں وہ اپنے فیصلے اپنے مفاد میں کر رہے ہیں اور کمزور ممالک اپنی مجبوریوں میں جکڑے ہوئے ہیں ‘یہی کچھ اسرائیل کے معاملے میں نظر آرہا ہے۔ مسلم دنیا باہمی اختلافات اور دشمنیوں میں اس قدر آگے بڑھ چکی ہے کہ اختلافات اور تنازعات کو ختم کرنے کے بجائے اغیار کا سہارا لے رہی ہے اور اپنے دشمن کے مخالف مسلم بھائی کو نیچا دکھانے کیلئے تمام حدیں پار کرجاتے ہیں۔ یہ رویہ عربی اورعجمی دونوں طرف ہے۔
پاکستان اور پاکستانی عوام کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہمدردی کے جذبات جلد ہی ابُل پڑتے ہیں۔ دنیا کے کسی حصے میں کسی کو کانٹا چبھے تو ہم سڑکوں پر نکل آتے ہیں ‘فوراً ان ملکوں کی حمایت کیلئے فوج بھیجنے کا مطالبہ کر دیاجاتا ہے۔ لیکن دنیا بدل رہی ہے‘ نئی صف بندیاں ہورہی ہیں ‘دوستیاں دشمنی میں اور دشمنیاں دوستی میں بدل رہی ہیں‘ پاکستان ان تمام تبدیلیوں سے بخوبی آگاہ ہے۔مل کر فیصلے کرنے کا وقت گزر گیا‘ پرائی لڑائیوں میں ہم نے اپنے دشمن بڑھائے اور اور جن بھائیوں کیلئے دشمنیاں مول لیں وہ جب تگڑے ہوئے تو پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔ پاکستان ان نئی دوستیوں کا ہرگز مخالف نہیں‘ سوال صرف یہ ہے کہ بدلے میں فلسطین کا تنازع حل ہوگا یا اس کو ادھورا چھوڑ دیاگیا ہے؟ جواب اوپر آچکا ہے‘اعتراض صرف سولو فلائٹ پر ہے۔
پاکستان میں بھی یہ بحث زور پکڑے گی اور مختلف قسم کی کہانیاں بیان کی جائیں گی ‘لیکن ہم اسرائیل کے اخبار ہارٹزمیں چھپنے والے ایک آرٹیکل کا سہارا لیتے ہیں‘ جس میں پاکستان اور اسرائیل کے درمیاں رابطوں ‘ ملاقاتوں اور ان کوششوں کا ذکر کیا گیاہے جو اَب تک اسرائیل اور بڑی طاقتوں کی طرف سے کی گئیں۔اس آرٹیکل میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیل کے پہلے وزیراعظم نے بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کوٹیلی گرام بھیجا اور مبارکباد دی لیکن پاکستان کی طرف سے کوئی جواب نہ دیاگیا۔ قائداعظم نے برطانیہ کی فلسطین پالیسی کی بھی ڈٹ کر مخالفت کی اور پاکستان نے اپنی آزادی کے پہلے سال ہی سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس منعقدہ اکتوبر 1947ء میں اسرائیل کی مخالفت شروع کی۔ پھر 80 ء کی دہائی میں پاکستانی عوام نے فلسطین لبریشن آرگنائزیشن میں شمولیت اختیار کی اسرائیلی اخبار کے مطابق ترکی میں 1998ء میں صدر رفیق تارڑ اور اسرائیلی صدر کے درمیان پہلا اتفاقی رابطہ بھی ہوا جبکہ وزیرخارجہ خورشید قصوری نے اپنے اسرائیلی ہم منصب سے فرانس میں ملاقات کی‘ جو پہلا عوامی سطح پر رابطہ تھا‘ جسے دونوں ملکوں نے تسلیم کیا۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مارچ 1986ء میں جنرل ضیاالحق نے PLO سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بارے کہا تھا۔
پرویز مشرف کے زمانے میں بھی کوششیں کی گئیں لیکن اسرائیلی اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ کوششیں کامیاب نہ ہو سکیں۔ہر دور کی مضبوط ترین اپوزیشن جماعتیں اور دائیں بازو کی سیاسی اور سب سے بڑھ کر مذہبی جماعتیں اور دینی طبقہ ڈٹ کر سامنے آگیا۔اسرائیلی اخبار کے مطابق حیران کن بات یہ ہے کہ بھٹو جیسے لبرل اور سیکولر لیڈر نے بھی اسرائیل کے معاملے میں دائیں بازو کی سیاست کی حمایت کی۔ اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 1994ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے غزہ کا دورہ کرنا چاہا لیکن جب ان کوبتایا گیا کہ اس کیلئے اسرائیل سے رابطہ کرنا پڑے گا تو محترمہ نے یہ کہہ کر دورہ منسوخ کردیا کہ وہ اسرائیل سے رابطہ نہیں کریں گی۔اسرائیل یہ بھی سمجھتا ہے کہ انڈیا بھی نہیں چاہتا کہ اسرائیل اور پاکستان کے درمیان دوستی ہو کیونکہ پھر اس کی دال نہیں گلے گی۔ اس رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیاگیا ہے کہ موجودہ وقت بہترین ہے کیونکہ مقبوضہ کشمیر کے معاملے میں پاکستان کے او آئی سی اور عرب ملکوں کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں‘ بالاکوٹ میں انڈیا کی سٹرائیک اور پانچ اگست کے اقدامات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیاہے کہ پاک انڈیا کشیدگی کے ماحول میں عرب ممالک نریندر مودی کو اعلیٰ ترین ایوارڈز دے رہے تھے اور انڈیا کے ساتھ بھاری سرمایہ کاری کا اعلان کررہے تھے جبکہ بھارتی وزیرخارجہ کو او آئی سی کے اجلاس میں بھی مدعو کیاگیا‘ پھر کوالالمپور سمٹ میں شرکت سے بھی پاکستان کو روکا گیا۔
تازہ ترین اطلاعات یہ ہیں کہ پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید اہم ترین دورے پر سعودی عرب میں ہیں جس میں باہمی مفادات کے تمام معاملات پر بات ہوگی۔ سعودی عرب کے پاکستان میں سابق سفیر ڈاکٹر علی عوادعسیری نے عرب نیوز میں اپنے تازہ کالم میں وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی پر ملبہ ڈالتے ہوئے کہاہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات مضبوط بنیادوں پر قائم ہیں اور دونوں ملکوں کے درمیاں کوئی تیسرا فریق آ کرخلل نہیں ڈال سکتا۔