وطن عزیز کے یوم دفاع کی مناسبت سے ایوانِ صدر اسلام آباد میں منعقدہ چھ ستمبر کو ایک پُروقار تقریب میں شرکت کا موقع ملا‘ صدرِمملکت ڈاکٹر عارف علوی کی طرف سے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ ‘پاک فضائیہ کے سربراہ ایئر چیف مجاہد انور خان‘ پاک بحریہ کے سینئر افسروں‘سینیٹ میں قائدِ ایوان سینیٹر ڈاکٹر شہزاد وسیم‘وفاقی وزر ا شبلی فراز‘ اعظم سواتی اور ڈاکٹر فہمیدہ مرزا سمیت سول‘ ملٹری بیوروکریٹس اور سفارتکاروں کو مدعو کیاگیاتھا ۔
اس بار یومِ دفاع کی تقریب ماضی سے ذرا مختلف تھی ‘کورونا کے باعث‘ ہمارے مسلح افوج کے ہیروز شہدا اور غازیوں کے اعزازات کی تقریب یومِ آزادی کے موقع پر نہیں ہوسکی تھی ‘جسے یومِ دفاع کے موقع پر منعقد کیاگیا۔ اس شاندار محفل کے حقیقی ہیروز اور مہمان دراصل شہدا کے گھر والے‘ مائیں‘ بہنیں اور شہداکی بیگمات بھی ‘جنہیں بیوہ کہنے اورلکھنے کودل نہیں چاہ رہا کیونکہ قرآن پاک میں اللہ تعالی کاارشاد ہے کہ شہدا کو مردہ مت کہو یہ زندہ ہیں لیکن تمہیں ان کا شعور نہیں۔ زیادہ اعزازات پاک فوج کے جوانوں کو دیے گئے جن میں سپاہی‘ حوالدار‘ صوبیدار اورلانس نائیک کیڈر کے جوان تھے جنہوں نے خیبر پختونخوا ‘پاک افغان سرحد اور بلوچستان میں ملک دشمنوں کے ساتھ لڑتے ہوئے اپنی جانیں وطن ِعزیز کا مستقبل محفوظ بنانے کی خاطر قربان کردیں اور پھر ان شہدا کی ماؤں‘ بہنوں‘ بچوں اور بیگمات کی ہمت قابل دیدتھی جو اپنے پیاروں کے بچھڑنے کا غم دل میں چھپا ئے ‘چہروں پر مسرت سجائے اعزازات لینے کے لیے ایوان ِصدر کے تقریب ہال میں موجود تھے۔ اعزازات حاصل کرنے والوں کی دوسری کیٹیگری پاک فضائیہ اور پاک بحریہ کے ان جوانوں اور افسروں کی تھی جو گزشتہ برس 27فروری کے ہیروزتھے۔ ازلی دشمن بھارت نے بالاکوٹ میں ایک بزدلانہ اور احمقانہ حرکت کی جس میں پاک سرزمین کے دو درخت اور ایک کوا کام آیا۔ پاکستان کی طرف سے پاک فضائیہ نے27فروری کو اس بزدلانہ کارروائی کا بھرپور جواب دیا‘ جس میں دشمن کے دو طیارے مار گرائے اورابھینندن گرفتار ہوا‘ جسے پوری دنیا کے سامنے واہگہ بارڈر پر انڈیا کو واپس کیاگیا۔ پاک فضائیہ کے پائلٹس کے ساتھ ان افسروں کو بھی اعزازت دیے گئے جنہوں نے پلاننگ کی اور دشمن کی ایسی کارروائیوں اور منصوبوں کو خاک میں ملایا جن کا دشمن نے سوچا ہواتھا ‘ مگر عمل پذیر کچھ بھی نہ ہوسکا۔ 27 فروری کے جارحانہ جواب کے بعد دشمن نے بہت کچھ کرنے کا سوچا لیکن پاک فضائیہ کی شاندار پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور شب و روز کیے گئے اقدامات اور فضائی مانیٹرنگ سے دشمن کو ایسا کرنے کی ہمت نہ ہوئی اور دشمن کو یہ تسلیم کرنا پڑا کہ اگر رافیل طیارے ہوتے تو پاکستان سے وہ شکست کا بدلہ لے سکتے تھے‘ لیکن الحمدللہ رافیل آنے کے بعد بھی دشمن صرف سوچ رہا ہے ‘لیکن پاکستان نے جو کرنا تھا وہ کردکھایا۔ پاک فضائیہ کے کارناموں کا تو پہلے ہی علم ہوچکا تھا اور جس طرح نشانے پر ہونے کے باوجود اس وقت کے آرمی چیف بپن راوت کو چھوڑ دیا گیا وہ بھی پاکستان کی میچور سوچ کا نتیجہ تھا‘ ورنہ آج بپن راوت کی چتا جل چکی ہوتی ۔صدر مملکت نے پاک بحریہ کے جوانوں اور افسروں کو بھی ستائیس فروری کے موقع پر شاندار کارکردگی اور دشمن کے عزائم خاک میں ملانے پر اعزازات سے نوازا گیا ۔بتایا گیا کہ دشمن نے کراچی بندرگاہ اور ہماری فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے کے لیے اپنی آبدوز روانہ کی‘ لیکن مکمل بحری نگرانی اور چوکس جوابی حرکت کی وجہ سے انڈین آبدوز ہمارے نشانے پر تھی‘ جو ایک لمحے میں تباہ کی جاسکتی تھی‘ جیسا کہ ماضی میں پاک بحریہ بھارت کو سبق سکھا چکی ہے‘ لیکن پاکستان نے اس موقع پر بھی اپنے جذبات کو قابو میں رکھا اور آبدوز کو فرار ہونے کا موقع دیاگیا۔ معلوم کرنے پر پتا چلا کہ پاکستان کا فیصلہ یہی تھا کہ دشمن جتنا نقصان کرے گا اس کے مطابق ہی جواب دیا جائے گا‘ اس لیے آبدوز کو‘ نشانے پر ہونے کے باوجود تباہ نہیں کیاگیا کیونکہ ہم اپنے دو درختوں اور ایک کوے کی موت کا بدلہ لے چکے تھے اور دشمن کا بتادیا گیا تھا کہ ایک کے بدلے تین میزائل داغے جائیں گے ۔
اسی نوعیت کی تقریبات جی ایچ کیو اور کورکمانڈرز ہیڈ کوارٹرز میں بھی منعقد ہوئیں ۔آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے جی ایچ کیو میں خطاب کرتے ہوئے ایک خطرے کا خاص طور پر ذکر کیا کہ ففتھ جنریشن اور ہائبرڈ وار مسلط کی جاچکی ہے اور اس سے ہم نمٹیں گے۔ آرمی چیف کا اشارہ سوشل میڈیا کے ذریعے چلائی جانے والی مہم کی جانب تھا‘ جس کے ذریعے پاک وطن میں کبھی پاک فوج ‘عدلیہ اور دیگر اداروں کے خلاف پروپیگنڈا کیاجاتا ہے اور کبھی مذہبی منافرت پھیلانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس سنگین صورتحال سے نمٹنے کے لیے ہمیں بطور قوم حکمت عملی اپنانا ہوگی اور ریاست کو ایسے عناصر کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرنا پڑے گی‘ ورنہ مفاہمانہ پالیسی مزید برباد کردے گی ۔
دوسری جانب سیاست کے میدان میں شدید اضطراب‘ لڑائی جھگڑوں اور الزامات کی بارش کے بعد کچھ ٹھہراؤ آنے کے امکانات پیدا ہوچکے ہیں۔ کراچی میں سیلاب اور شدید تباہی نے وفاق اور سندھ حکومت کو قریب آنے اور ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنے کے لیے فیس سیونگ کا ایک دروازہ کھول دیا ہے‘ جس سے کچھ فائدہ اٹھایا جاچکا ہے اور مزید اچھے کی امید ہے۔ آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کے لیے اسلام آباد راولپنڈی کے دورے بھی مفید ثابت ہوئے‘ آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد اور عمران صاحب کی حکومت گرانے کی جاتی امرا اور مولانا فضل الرحمن کی خواہش فی الوقت پوری ہوتی نظر نہیں آرہی۔ شہباز شریف کا زرداری صاحب سے کراچی میں جاکر ملاقات کرنے کا عمل بھی ان کے لیے فائدہ مند ثابت نہیں ہوا‘ البتہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور جنرل فیض حمید کے کراچی میں گزرے دو روز بہت اہم تھے‘ جن میں کراچی کے عوام‘ کاروباری طبقے‘ ریٹائرڈ جرنیلوں اور میڈیا مالکان سے براہ راست رابطوں سے عسکری قیادت کو کراچی کے حالات کو سمجھنے کا موقع ملا اور ایک بڑا پیکیج ترتیب دیا گیا۔آصف علی زرداری موقع غنیمت جانتے ہوئے کام کرچکے ہیں ‘اگر وفاق اور سندھ حکومت کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ قائم ہونے کے بعد بات آگے بڑھتی ہے تو پھر یہ خبر اور سیاسی میل جول جاتی امرا کے لیے اچھی نہیں ہوگی کیونکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے قومی دھارے میں آنے سے پارلیمان میں قانون سازی کا عمل شروع ہوجائے گا اور مسلم لیگ( ن) اپنے بیانیے کے ساتھ شورو غوغا کرتی رہے گی۔ آرمی چیف نے یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ خود کراچی پیکیج پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں گے۔کراچی پیکیج تین سال کے لیے ترتیب دیاگیا ہے اور موجودہ پارلیمانی سیٹ اپ کی مدت بھی تین سال ہی رہتی ہے‘ اس لیے توقع اور کوشش یہی کی جارہی ہے کہ موجودہ سیٹ اپ اپنی مدت پوری کرے۔ لگتا ہے جاتی امرا کے بیانیے کو قریب قریب کچھ ملنے والا نہیں اور شہباز شریف بھی اس کی نذر ہوجائیں گے ‘کیونکہ سابق ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کے الفاظ کہ کوئی فرد ادارے سے بڑا نہیں ہوتا اورکوئی ادارہ پاکستان سے بڑا نہیں ہے‘ اس لیے جو لوگ قانون کی گرفت میں آچکے ہیں اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں ریاست کا موڈ کیا ہوگا؟ فیصلہ اہل سیاست ‘ اہل تجارت اور اہل صحافت اور ارباب حل وعقد نے کرنا ہے کہ وہ کس حد تک اپنے آپ کو قانون کے تابع کرتے ہیں کیونکہ چوری اور سینہ زوری اب شاید بیک وقت نہ چل سکیں۔