تین جون کو سڑسٹھواںقومی یوم بے وقوف سازی منایا گیا۔ یہ نون حکومت کا دوسرا قومی یوم بے وقوف سازی تھا ۔ الیکشن 2013ء سے پہلے عوام کو کچھ مہینوں تک روزانہ کی بنیاد پر ''بنانے ‘‘کے بعد نون لیگ کو یہ دن سالانہ بنیاد پر منانے کا حق ملا۔ یہ دن ملک بھر میں بغیر کسی جوش وجذبے کے منایا جاتا ہے ۔ دن کا آغاز وفاقی دارالحکومت میں 21توپوں کی سلامی کے بغیر ہوا کرتا ہے کیونکہ بجٹ کا زلزلہ اور زلزلے کے آفٹر شاکس ہر برس اتنے زوردار ہوا کرتے ہیں کہ کسی توپ کی ضرورت نہیں رہتی ۔ ہمارے ملک میں بجٹ کی مفصل تعریف یہ ہے کہ بجٹ ایک چھری ہے اور عوام خربوزہ ۔یہ چھری ہر بار وزیر خزانہ خربوزے پر پھیر دیا کرتاہے اور پھیکے خربوزے پر میٹھی چھری پھرنے کے بعد نمکین بحث سے خربوزے کی قاشوں پر نمک پاشی ہوا کرتی ہے کہ چھری عوام دوست ہے کہ نہیں ۔ جس طرح انتخابات میں ہارنے والے کو دھاندلی اور جیتنے والے کو مینڈیٹ نظر آتاہے بالکل اسی طرح بجٹ میں حکومت کو ''ثمرات‘‘ اور حزب اختلاف کو '' جمرات ‘‘ نظر آتے ہیں ۔
جب ہم چھوٹے چھوٹے تھے تو گلی محلوں میں کندھے پر اسمگل شدہ سامان کی دکان کپڑے میں باندھے پہاڑوں کا کوئی بیٹا وارد ہوا کرتا تھا ۔ کئی ہزار کی چیز ایک ہزار یا چند سو میں دے کر وہ خواتین خانہ کو چند لمحوں کی وہ خوشیاں دے جاتا تھا جو مال کی خرابی کے بعد سال بھر کے کوسنوں میں بدل جاتی تھیں۔ یہی حال بجٹ تقریر کا ہوا کرتا ہے ۔ اللہ کے نام سے شروع ہو کر اللہ اللہ پر مجبور کردینے والی تقریر مشکل حالات میں ولولوں کے اظہار کے بعد وہ چیزیں سمجھاتی ہے جو سمجھ میں نہیں آتیں ۔
اسحق ڈار کی تقریر کے بعد مزدور پریشان ہے کہ وہ ''وعدہ شدہ اضافے ـ‘‘کا کیا کرے ۔ مع اہل و عیال شمالی علاقہ جات کی سیر کرآئے ۔ گھر میں تھری ڈی اینڈروئڈ اسمارٹ ایل ای ڈی ٹی وی لگوائے ۔ فیشن بلیوارڈپر موجود کسی ڈیزائنر سے کوئی سوٹ سلوائے ۔ کسی پانچ ستارہ ہوٹل یا کلب کی ممبر شپ لے لے ۔ اپنی پرانی گاڑی بیچ کر بجٹ میں نئے ٹیکس سے مستثنیٰ نئی ہائبرڈ گاڑی امپورٹ کرلے ۔لوڈشیڈنگ کا توڑ کوئی چار کے وی کا جنریٹر خریدلے ۔ اپنے بچوں کو چار پانچ ہزار کے میٹریکولیشن والے اسکول سے اٹھاکر پندرہ بیس ہزار والے کیمبرج اسکول میں ڈلوادے۔ بیگم کو کوئی ڈائمنڈ جیولری سیٹ خرید کر دے دے یا پھر گھر میں ایک دو ملازم اور رکھ لے ۔مزدور طبقہ ان پیسوں کو قومی بچت اسکیم میں لگاکر کثیر منافع بھی کما سکتا ہے یا پھر اس اضافی رقم سے چالیس ہزار والے پرائز بانڈ کی پوری کاپی خرید کر کروڑوں کے انعام کی امید بھی کی جاسکتی ہے ۔ ان پیسوں کو وطن عزیز کا مزدور میوچل فنڈز میں لگا کر سرمایہ کاری بھی کرسکتا ہے ۔ ان تمام مفت مشوروں پر عمل کرنا یا نہ کرنا مزدور کی صوابدید ہے مگر اتنا اسے لازمی کرنا ہوگا کہ ایک گارڈ رکھ لے تاکہ اس کثیر رقم کو رہزنوںسے محفوظ رکھ سکے ۔
سرکاری ملازمین اور قومی خزانے پر بوجھ پنشن والے بھی اس بار پریشان ہیں کہ ان کی زندگیوں میں دس فی صد کے اس اضافے سے جو ''دولت کا ڈار ‘‘ لگ گیا ہے ،اس پر وہ اپنی ''ڈاروں خوشیاں ـ‘‘کیسے چھپائیں ،وزیر خزانہ کو ''ڈاروں دعائیں ‘‘ کیوں نہ دیں کہ دس فی صد کے اس اضافے سے اب وہ مہنگائی کے جن کے سامنے خود ایک جن بن کر تن کر کھڑے ہوسکتے ہیں۔ عوام دوست عوامی حکومت نے عوام کی صحت کا خیال رکھتے ہوئے انہیں سگریٹ سے دور رکھنے کی خاطر اس پر ٹیکس بڑھادیا ہے ۔ کیا ہوا کہ اگر گھی تیل مہنگا کیا گیا ہے ؟ موبائل کال سستی
ہوئی ہے ،عوام پراٹھے موبائل فون کال پر پکا سکتے ہیں ۔ ان کمنگ کال پر پراٹھے بنائے جائیں اور آؤٹ گوئنگ کال پر سالن بنالیا جائے ،ایس ایم ایس پر چائے بنائی جائے اور تھری جی اور فورجی پر بیکنگ کی جائے ۔اس کے ساتھ ساتھ غریب عوام ٹیکس رعایت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بڑی کاریں خرید سکتے ہیں ۔ دال چاول کی خریداری کے وقت پرچون فروش اپنے اوپر لگنے والے ٹیکس کا بوجھ عوام پر منتقل کرے تو غریب عوام نہایت آسانی کے ساتھ پہلے سے ہی ارزاں نرخوں پر دستیاب گوشت خرید کر اسے منہ توڑ جواب دے سکتے ہیں ۔بجٹ میں غریب دوست اقدامات کرتے ہوئے گھر بنانے کے لیے دس لاکھ روپے قرضہ دیا جائے گا ۔ چالیس فی صد یعنی چار لاکھ کی گارنٹی حکومت دے گی اور چھ لاکھ کی گارنٹی غریب خود دے گا ۔اس گارنٹی کے لیے غریب کچھ ایکڑ زمین بطور ضمانت رکھواکر اطمینان سے یہ قرض وصول کرسکتا ہے ۔ اب اس سے زیادہ حکومت کیا کرے ۔ غریب آدمی کو میڈیکل الاؤنس کی مد میں بھی پورے ایک ہزار روپے دیے جائیں گے ۔ جس سے خط افلاس سے نیچے جینے والے اور خط افلاک کے نیچے مرنے والے جس بڑے کنسلٹنٹ کے پاس چاہیں،اپنا اور بیوی بچوں کا چیک اپ کرواتے پھریں ۔ ہوٹلز کی طرح پر تعیش میڈیکل سینٹرز میں محمود و ایاز ایک ہو جائیں ۔
غریبوں کے تمام مسائل تو اس بجٹ نے حل کردیے لیکن اشرافیہ کے لیے اس بجٹ میں کچھ بھی نہیں ہے ۔ بیرون ملک
سفر کرنے والے ان غریبوں سے جو اکانومی کلاس میں ستر اسی ہزار کا ٹکٹ اوسطا ًخریدتے ہیں ،ایک ہزار ایک سو ساٹھ روپے مزید لینا کتنا زیادہ ظلم ہے ساتھ ہی فرسٹ اور بزنس کلاس میں سفر کرنے والے مفلسوں، ناداروں، ضرورتمندوں اور مستحقین کی چیتھڑے نما جیبوں پر تین ہزار ایک سو ساٹھ کا ڈاکہ ڈالنا زیادتی نہیں تو اور کیا ہے اور تواور، ایف ای ڈی بھی بڑھادی گئی ہے ۔ان کی زندگیوں کو جہنم بنادیا ہے ۔حکومت نے شادی ہالز اور ہوٹلز میں ہونے والی تقریبات پر ٹیکس کو ختم کرنے کی بجائے صرف پانچ فی صد کی کمی کی گئی ہے ۔غریب ''نواز‘‘ حکومت نے کارپوریٹ ٹیکس میں بھی امیروں کے ساتھ ہاتھ کیا ، اسے تینتیس سے تین فی صد کرنے کی بجائے چھبیس فی صد پر ٹرخادیا ہے ۔ بجٹ میں صدر مملکت ، وزیر اعظم اوراشرافیہ کو بھی نہیں بخشا گیا ،اس بجٹ میں بھی ان کے ساتھ'' پہلے سا ظلم ‘‘ روا رکھا گیا ہے۔ کیا ہی زیادتی ہے کہ اب کی بار بھی وہ ٹیکس سے مستثنیٰ ہیں حالانکہ ان کا تو ٹیکس پر حق بنتا ہے ۔
بجٹ کی الف لیلہ کا ابھی ابتدا ئیہ ہی کھل سکا ہے ،جوں جوں اس کے صفحات تشریح کے ساتھ آسان ہوتے جائیں گے غریب کی زندگی آسان ہوتی جائے گی ۔ اپوزیشن کا تو کردار ہی مخالفت ہے،یہ پروپیگنڈا تو انتہائی بے بنیاد ہے کہ '' حق ڈار‘‘ کا حق مار کر سفید پوش '' عزت ڈار‘‘ کو حکومت نے '' تختۂ ڈار‘‘ پر لٹکادیا ہے ۔