ہم دن ہی منایا کرتے ہیں!

آپ اور میں برسوں پہلے ایک عظیم مسئلہ بنا دیے گئے تھے۔ انیس سو نواسی سے ہر سال دنیا بھر کے اربوں مسئلوں کا سالانہ بین الاقوامی دن اقوام متحدہ کے تحت منایا جا رہا ہے۔ گیارہ جولائی انیس سو ستاسی وہ دن تھا جب یہ طے ہوا کہ دنیا بھر کے مسئلوں کی تعداد پانچ ارب ہو چکی ہے۔ اس دن کچھ سیانے مسئلوں نے یہ طے کیا کہ وہ اپنے پیدا کردہ مسئلوں اور دنیا بھر کے مسئلوں کو یہ بتائیں گے کہ خدارا ہماری مشکلیں کم کریں۔ لیکن انسان کی فطرت میں سرکشی ہے‘ اسی لیے اب یہ مسئلے ہر گزرتے سیکنڈ کے ساتھ اپنا سفر آٹھ ارب کی تعداد کی طرف بڑھا رہے ہیں۔ دنیا کے معیاری وقت کا تعین کرنے والے یو ٹی سی کے مطابق یکم جون دو ہزار چودہ کی صبح نو بج کر اکیس منٹ پر دنیا کے مسئلوں کی اقوام متحدہ کے حساب سے تعداد 7,137,661,030 ہو چکی تھی۔ 
عام طور پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پوری دنیا کی آبادی بڑھتی ہی جا رہی ہے مگر کچھ ایسے ممالک بھی ہیں‘ جن کی آبادی میں اضافے کا رجحان منفی ہے۔ یوکرائن ان ملکوں میں سب سے آگے ہے‘ جس کی آبادی میں ہر برس اعشاریہ آٹھ فی صد کمی ہو رہی ہے اور 
اندازہ یہ لگایا جا رہا ہے کہ دو ہزار پچاس تک اس کی آبادی اٹھائیس فی صد کم ہو جائے گی۔ اس لسٹ میں یوکرائن کے بعد روس اور بیلاروس ہیں اور یونان تک پہنچتے پہنچتے یہ شرح صفر ہو جاتی ہے۔ اس لسٹ میں بیس سے زائد ممالک ہیں۔ ہم دنیا میں آبادی کے لحاظ سے بڑھتی ہوئی اقوام میں شامل ہیں۔ ہمارے اپنے ادارے کہتے ہیں کہ ہم اڑھائی فی صد سالانہ کی رفتار سے بڑھ رہے ہیں جبکہ اقوام متحدہ یہ کہتی ہے کہ پاکستان کی آبادی ایک اعشاریہ آٹھ چھ فی صد سالانہ کے حساب سے بڑھ رہی ہے۔ شاید یہی وہ وجہ ہے کہ ہماری مردم شناسی ہمیں مردم شماری سے روک رہی ہے۔ دو ہزار پچاس تک ہم تقریباً ساڑھے سینتیس کروڑ ہو جائیں گے۔ ہمارے ملک میں آبادی میں اضافے کے رجحانات کو گھر سے ہی پروان چڑھایا جاتا ہے۔ ہر گھرانے میں بزرگ اپنے بچوں اور پوتے پوتیوں کو یہ باور کراتے ہیں کہ اس تن سے جان تب تک نہیں نکلے گی جب تک
تیرے بچوں سے نہ کھیل لوں۔ دنیا بھر میں جب شادی کا دعوت نامہ چھاپا جاتا ہے تو وہ یہ اعلان کرتا ہے کہ یہ دو پیار کرنے والوں کے ملن کا جشن ہے آئیے! منائیے! جبکہ ہمارے ہاں شادی کا دعوت نامہ اللہ کے نام سے شروع ہو کر سیدھا ''شادی خانہ آبادی‘‘ کا اعلان کر دیتا ہے اور پھر خیر خواہ ہو یا بدخواہ صرف خوشخبری کا سوال کرتا نظر آتا ہے۔ ملنے والا ہو یا جلنے والا جتنے وقت میں یہ آنگن میں پھول کھلنے کا سوال داغنا شروع کر دیتے ہیں اتنے میں تو گملے میں بھی پھول نہیں کھلتا۔
یہ بات ہمارے عقیدے کا حصہ ہے کہ اولاد اللہ کی دین ہے۔ ہمارے معاشرے میں آبادی میں اضافے کی بات دو ہی طرح کے لوگ کرتے نظر آتے ہیں۔ ایک وہ جن کی گھریلو آبادی دیکھ کر آپ پریشان ہو جائیں اور دوسرے وہ جو امت مسلمہ کی تعداد میں اضافے کے لیے پریشان ہوں۔ پاکستان کی آبادی میں اضافے کی بہت سی وجوہ میں ایک بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ اس اضافے کو اچھا سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان اس مسئلے سے اس لیے بھی دوچار ہے کہ ہمارے ہاں آبادی کی بہبود کی ہر کوشش کو یہود و نصاریٰ کی سازش قرار دیا گیا ہے اور مسلمان یہود و نصاریٰ کی ہر سازش کو ناکام بنانا اپنا فرض اولین سمجھتا ہے۔ 
پاکستانیوں نے اپنے فکری قائد شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کے فلسفے کو بھی اس معاملے میں راہ نما اصول بنایا ہے ایسا لگتا ہے کہ اقبال نے انہی کے لیے کہا تھا کہ '' ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ ‘‘ اور اسی بنا پر ہم ملت کا مقدر بام عروج پر لے جانا چاہتے ہیں ۔ 
ہمارے پاک وطن میں جب جب بہبود آبادی کی وزارت نے اپنے منصوبوں کے پر پھیلائے تب تب ہماری آبادی میں اضافے کی رفتار تیز تر ہوتی گئی ۔ اس کی سیدھی سی وجہ محققین یہ بتاتے ہیں کہ ایسی کاوشیں ان مما لک میں کامیاب ہوتی ہیں جہاں شرح خواندگی بہترین ہو ورنہ یہ تمام مہمات '' کاؤنٹر پروڈکٹیو ‘‘ ہوجایا کرتی ہیں ۔ دنیا کے ان تمام ممالک میں‘ جہاں آبادی میںاضافے کا رجحان منفی ہے‘ شرح خواندگی کم از کم ستانوے فی صد کے لگ بھگ ہے ۔ 
اس مسئلے کے حل کے لیے اگر آپ کو پاکستانی حکومت کے خلوص کو پرکھنا ہو تو صرف یہ جان لیجیے کہ اب بہبود آبادی کی وزارت ہے ہی نہیں اور پچھلی حکومت کی نیک نیتی کا عالم یہ تھا کہ اس نے یہ وزارت فردوس عاشق اعوان صاحبہ کو سونپ رکھی تھی ۔ اس سے پہلے بھی ہمارے ملک میں اس محکمہ کا حال شاعر نے یوں بیان کیا تھا: 
اس کا گھر بچوں کی دنیا بن چکا ہے خیر سے
وہ جو خود بہبود آبادی کے کارندوں میں ہے 
سن لیا ہے جب سے مصرعہ حضرت اقبال کا 
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں