دھرنا بھی تو اک طرزِ سیاست ہے کہ جس میں
کرسی کو گنا کرتے ہیں بندہ نہیں گنتے
پہلے آزادی اسکوائر کا دھرنا کسی رسم مایوں کی شکل اختیار کر گیا جس میں شام کے وقت خوب رونق ہوتی اور دن میں کرسیاں اور دریاں گاتیں : '' آؤ گے جب تم او ساجنا انگنا پھول کھلیں گے ‘‘ لیکن اب حالت یہ ہے کہ اس دھرنے کی شکل اس منڈپ جیسی ہو گئی ہے‘ جس میں کہہ دیا گیا ہو ''یہ شادی نہیں ہو سکتی‘‘، بارات واپس چلی گئی ہو اور خوشیاں منانے والے ایسے بیٹھے ہوں کہ جیسے فیض نے آ کر کان میں پھونکا ہو ''اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کر لو۔ اب یہاں کوئی نہیں، کوئی نہیں آئے گا‘‘۔ اور ایک قلب مضطرب بار بار پوچھتا ہے ''پھر کوئی آیا دل زار؟ اور جواب آتا ہے: ''نہیں کوئی نہیں، راہرو ہو گا‘ کہیں اور چلا جائے گا ‘‘ جبکہ اس صورتحال میں سونامی کی لہر کا کوئی متلاشی گاتا ہے: '' نہ تو آئے گی‘ نہ ہی چین آئے گا‘ میرے آنگن کی ہری بیلوں کا پتہ پتہ سوکھتا جائے گا‘‘۔ آزادی اسکوائر کے دھرنے کے ساتھ بُرا یہ بھی ہے کہ یاران سیاست ہوں یا ریاست سب اسی کو زیر بحث لا رہے ہیں کیونکہ کینیڈا سے اترے انقلاب کو پارلیمان نے اجنبی کہہ دیا‘ ورنہ اس میں پھڑکتی لو تو کم از کم ہے ‘روشنی کا سیلاب چاہے نہ ہو۔
کپتان کا دھرنا تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کیونکہ دنیا کامیاب ترین معرکوں کے ساتھ ساتھ ناکام ترین کاوشیں بھی یاد رکھتی ہے۔ نشان عظمت اور عبرت دونوں یاد رکھے جاتے ہیں۔ اس کی آسان اور تازہ مثال فٹ بال ورلڈ کپ سیمی فائنل سے ملتی ہے۔ جہاں جرمنی کے سات گول یاد رہیں گے‘ وہیں برازیل بھی اس ہزیمت کو بھلا نہیں سکے گا۔ اگر دنیا کو شارجہ کے چھکے کے حوالے سے جاوید میاں داد یاد ہیں‘ تو چیتن شرما کو کون بھول پایا ہے۔ اگر مائیکل جیکسن کی شہرت کوئی بھلا نہیں سکتا‘ تو اسی گلوکار نے الزامات کے بار تلے جس ذلت کا سامنا کیا‘ اسے کون فراموش کرسکتا ہے؟ میاں صاحب کا ایٹمی دھماکے کر کے دنیا بھر کی سرخیوں میں جگہ پانا اگر ناقابل فراموش ہے تو معاہدہ کر کے جدہ جانا کیسے تاریخ کے اوراق سے مٹ پائے گا؟
کپتان 30 اکتوبر 2011ء کے جلسے میں تیسری قوت بن کر ابھرے اور 2013ء میں ووٹوں کی تعداد نے انہیں دوسری بڑی سیاسی قوت بنا دیا۔ یہاں سے کپتان کی کامیابی کا سفر آگے بڑھنا چاہیے تھا‘ مگر یہ ہو نہ سکا اور اب یہ عالم ہے کہ دھرنا دھرا رہ گیا ہے۔ کپتان نے سیاست میں بہت جلدی بہت بڑی کامیابیاں حاصل کر لیں اور ان بڑی کامیابیوں کو عظیم کارناموں میں بدلنے کا موقع ضائع کر دیا۔ بڑی کامیابیاں کم وقت میں مل جائیں تو ایسا اکثر ہوا کرتا ہے۔ انسان دوڑنے کے بجائے اڑنے کی دھن میں لگ جاتا ہے۔ میری رائے میں (جو بالکل غلط بھی ہو سکتی ہے) کپتان نے اتنا کامیاب ہو جانے کے بعد سیاست کے امور نہیں سیکھے۔ آج کپتان اور ان کی ٹیم کو سیکھنے کی ضرورت ہے۔
انہیں سیکھنا ہو گا‘ میاں شہباز شریف سے جنہوں نے پنجاب میں خصوصی طور پر بس لاہور ہی بدلا تھا مگر ''سیاہ ست‘‘ تو عوام کو کبھی اتنا بھی نہیں دے پائی تھی۔ اسی لیے وہ اس جزوی کامیابی سے پاکستان جیت گئے۔ کپتان کو سیکھنا ہو گا طرز تخاطب، زمان پارک میں اپنے پڑوسی اعتزاز احسن سے۔ کپتان اور اعتزاز احسن‘ دونوں کی مادر علمی ایک ہی ہے۔ دونوں نے جوانی میں کرکٹ بھی کھیلی۔ دونوں نے برطانیہ جا کر اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کی مگر وہی اعتزاز احسن جب شعلہ بیانی کرتے ہیں تو شعلہ و شبنم کا امتزاج مخالف کو جلاتا بھی ہے اور ''بھگوتا‘‘ بھی ہے مگر کپتان جب تقریر کرتے ہیں تو بڑے بڑے پنڈت کچھ اس انداز میں معافیاں دیتے ہیں کہ یہ تقریر عوام کے لیے تھی لہٰذا جانے دیجیے۔
کپتان کو احتجاج سیکھنا ہے‘ تو متحدہ سے سیکھیں‘ جن کا احتجاج مثالی ہوتا ہے۔ جلسے میں جب کام کرنے کی باری آتی ہے تو ایم این اے اور ایم پی اے اپنے ہاتھ سے کام کرتے ہیں۔ کارکنوں کو دھول، دھوپ اور بارش میں چھوڑتے نہیں۔ میں نے 25 دسمبر 2011ء کے جلسے میں‘ جہاں جاوید ہاشمی کپتان کی ٹیم کا حصہ بنے‘ خود کوریج کے دوران دیکھا کہ ایونٹ آرگنائز کرنے والی ایک بڑی کمپنی کے کارندے کام کر رہے تھے اور پیسہ بول رہا تھا جبکہ متحدہ کے جلسے میں کارکن کے ساتھ ایم این اے، ایم پی اے اپنے ہاتھ سے کام کرتے ہیں۔ بیجز بنانے کا معاملہ ہو یا شرکا کے لیے کھانے کے باکسز تیار کرنے کا یا پھر تھکے ہارے کارکنوں کے ساتھ سڑک کنارے فٹ پاتھیا بننے کی بات‘ سوشل میڈیا ایسی تصویروں سے بھرا پڑا ہے کہ کیسے متحدہ کے عوامی نمائندے عوامی ہیں اور دھرنا تو ضرور سیکھنا چاہیے۔ الطاف حسین صاحب لندن میں زیر علاج رہے اور متحدہ دھرنے پر تھی۔ بغیر کسی نوٹس کے وہاں شرکا تھے‘ قائدین تھے اور وہیں تھے‘ کوئی اپنے گھر نہیں گیا۔ فریش ہونے کو نزدیک ترین اللہ کے گھر میں سہولت تھی یا دوستوں کی رہائش پر۔ تمام چینلوں کے بڑے بڑے اینکرز رپورٹرز دھرنے میں خود آئے۔ فرشی نشست کا مزہ لیا اور اگر کوئی سٹوڈیو سے نہیں ہلا تو دھرنے کے شرکا بھی وہیں تھے۔ ڈی ایس این جی پہنچی اور وہ خود جا کر میک اپ کرا کر سٹوڈیو میں نہیں بیٹھے۔ ایم کیو ایم کو چھوڑیے یہ کام تو آپ اپنے نئے نئے ''برادر کبیر‘‘ سے بھی سیکھ سکتے ہیں‘ جو جمے رہے‘ ڈٹے رہے اور یہ باتیں دہرا دہرا کر دھرنے کے آغاز میں انہوں نے آپ کا تمسخر بھی اڑایا۔
کپتان‘ میں چاہتا ہوں کہ آپ میدان سیاست کے یہ تمام گر سیکھیں اور ضرور سیکھیں کیونکہ آپ سیاست کی متعفن فضا میں تازہ ہوا کو جھونکا بن کر آئے تھے۔ آپ نوجوانوں کے رول ماڈل ہیں۔ ان کو سکھائیں۔ ان کے لیے ناقابل ستائش مثالیں قائم مت کریں۔ اب بھی بہت کچھ بن سکتا ہے‘ بچ سکتا ہے۔ بچا لیں تو بہتر ہے کیونکہ 12 مئی 2013ء کو میں نے فیس بک پر اپنا سٹیٹس اپ ڈیٹ کرتے ہوئے لکھا تھا: ''کوئی بات نہیں آئی کے‘ ووئی ول ون ناٹ امیجیٹلی بٹ ڈیفینیٹلی‘‘ اور اب نوبت یہ ہے کہ آج میں یہ کالم لکھ رہا ہوں۔ میری کوئی حیثیت نہیں مگر آپ کی ٹیم ٹوٹ رہی ہے۔ بہت سے نوجوان ٹوٹ رہے ہیں۔