اپنے گھر کی خواہش ہر شخص کی ہوتی ہے جس کی تکمیل کے لیے وہ ساری زندگی سیونگ کرتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 90لاکھ گھر وں کی کمی ہے۔ اس کمی میں سالانہ 3لاکھ کے حساب سے مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ لاہور شہر کو 17لاکھ گھروں کی کمی کا سامنا ہے۔ اس میں 62 فیصد لوگ لوئر انکم‘ 25 فیصد مڈل انکم اور باقی 13 فیصد مڈل اور ہائر انکم گروپس کے لوگوںکی ضرورتیں شامل ہیں۔ موجودہ حکومت نے اس اہم مسئلہ کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے اپنے 5سالہ دورِ حکومت میں 50لاکھ گھر لوگوں کوکم قیمت پر دینے کا اعلان کیا ہے۔ یہ ایک مشکل ٹارگٹ ہے‘مگر جب انسان کی نیت ٹھیک ہو اور کچھ کرنے کا جذبہ بھی ہو تو مشکل ترین مسئلہ بھی حل ہو جاتا ہے۔ بہتر ہو گا کہ 50لاکھ گھروں کے وژن کو5سالہ دور میں عملی جامہ پہنانے کے لیے اسے دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ 25لاکھ یونٹس کا ٹارگٹ چھوٹے گھر، اپارٹمنٹس یا فلیٹس کی صورت میں حاصل کیا جائے جبکہ باقی 25لاکھ کا ٹارگٹ3مرلہ اور 5مرلہ کے پلاٹس کی صورت میں حاصل کیا جانا چاہیے تا کہ لوگ اپنی مرضی سے اپنی پسندکا گھر بنا سکیں۔ گھروں کی تعمیر کے لیے ان کو ایچ بی ایف سی اور دوسرے مالیاتی اداروں سے کم شرح سودپرہائوسنگ لون کی سہولت دی جائے‘ جو 20 سال کی آسان اقساط میں واجب الادا ہو۔ اس وقت حکومتی سطح پر ایل ڈی اے ہائوسنگ اینڈ فزیکل پلاننگ ڈیپاٹمنٹ اور کنٹونمنٹ جیسے ادارے شہر میں ہائوسنگ سکیمز بنا کر لوگوں کو پلاٹ مہیا کررہے ہیں‘ جبکہ ا یل ڈی اے پلاٹ فراہم کرنے والا سب سے بڑا ادارہ ہے۔ اس نے اب تک 47 سکیمیں تیار کیں‘ اور تقریباً 1 لاکھ 30 ہزار پلاٹ ڈویلپ کیے‘ لیکن ان میں صرف 20 ہزارپلاٹس 3اور 5 مرلہ کے تھے جوکم انکم والے گروپس کیلئے تیار کیے گئے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ماضی میں کم آمدنی والے لوگوں کی ہائوسنگ کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے خاطر خواہ کام نہیں کیا گیا۔ ایل ڈی اے کی آخری سکیم 17 سال قبل 2001 میں ایل ڈی اے ایونیو کے نام سے شروع کی گئی مگر کئی سال گزر جانے کے باوجود ایکوزیشن اور کئی دوسرے قانونی مسائل کی وجہ سے ابھی تک مکمل نہیں ہو سکی۔ سینکڑوں الاٹی ابھی تک خوار ہو رہے ہیں۔ دوسری بڑی سکیم 2012میں ایل ڈی اے )سٹی( کے نام سے شروع کی گئی مگر Acquisition کیلئے سرمایہ نہ ہونے اور کئی دوسرے مسائل کی وجہ سے فیصلہ کیا گیاکہ ایکوزیشن کے معاملے کوآئوٹ سورس کر دیا جائے اورپرائیویٹ ڈویلپمنٹ پارٹنرز کے ذریعے زمین حاصل کی جائے۔ اس فارمولے کے تحت جو زمین ایل ڈی اے کو ڈویلپمنٹ پارٹنرز کے ذریعے منتقل کی جاتی ہے‘ اس کا 31 فیصدفائلوں کی صورت میں ڈویلپمنٹ پارٹنرز کو دیا جاتا ہے‘ جو ان فائلوں کو مارکیٹ میں فروخت کر کے مزید زمین حاصل کرتے اور ایل ڈی اے کے نام منتقل کروا دیتے ہیں۔ اس سکیم کے تحت تقریباً 19000 کنال زمین ایل ڈی اے کو بغیر کوئی معاوضہ دیئے منتقل ہو گئی۔ یہ شہر کی سب سے بڑی سکیم ہے جو ابتدائی طور پر 58000 کنال پر مشتمل ہے‘ لیکن رقبے کو مزید بڑھانے کی گنجائش موجود ہے۔ اس سکیم میں تقریباً45000 پلاٹ ڈویلپ ہونے ہیں‘ مگر یہ سکیم بھی مختلف وجوہ کی بنا پر ابھی آگے نہیں چل پا رہی۔ اگر یہ سکیم مکمل ہو جاتی ہے تو ایل ڈی اے کے پاس شہر کی ترقیاتی کاموں کو آگے بڑھانے کے حوالے سے اگلے 15 برسوں کیلئے وسائل پیدا ہو جائیںگے اور45000 پلاٹس اور ہزاروں اپارٹمنٹس بنانے کیلئے سکیم میں مہیا کیے گئے اپارٹمنٹس سائیٹس کا رقبہ بھی دستیاب ہو جائے گا۔ حکومت کو اس پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔
دوسری طرف پرائیویٹ سکیٹر ہے‘جو پلاٹ اور گھر فراہم کرنے کا ایک بڑا سورس ہے‘لیکن مختلف بے ضابطگیوں کی وجہ سے پلا ٹ اور گھر ڈلیور کرنے میں عوام کا اعتماد حاصل نہیں کر سکا ہے۔ اس وقت پورے لاہور ڈویژن میں منظور شدہ ہائوسنگ سکیمز کی تعداد 377ہے‘جن میں پلاٹوں کی تعداد تقریباً 2لاکھ ہے‘ مگر موقع پر مکمل پلاٹس کی تعداد بہت کم ہے۔ منظور شدہ سکیموں میںجو مختلف قسم کی بے ضابطگیاں دیکھنے میں آئیں‘ ان میں ملکیت سے زیادہ پلاٹوں کی فروخت، منظور شدہ سکیم پلان میں ردوبدل، پارکوں اور قبرستانوں کو رہائشی و کمرشل پلاٹوں میں تبدیل کرنا، رہن شدہ پلاٹوں کی فروخت، ڈویلپمنٹ کا مقررہ وقت پر مکمل نہ ہونا، ایل ڈی اے کو دی گئی پبلک بلڈنگز سائیٹس کی غیر قانونی فروخت جیسے سنگین مسائل شامل ہیں۔ ان وجوہ کے باعث ہزاروں الاٹی اپنے پلاٹوں کا قبضہ لینے کے لیے سالوں سے مارے مارے پھر رہے ہیں اور ان کی شنوائی نہیں ہو رہی۔ ان سب بے ضابطگیوں کے باوجود پرائیویٹ سکیٹر ابھی تک پلاٹوں کی فراہمی کے لیے اہم رول ادا کر رہا ہے‘ اور ایسی بھی ہائوسنگ سکیمز موجود ہیں‘ جنہوں نے قانون کی پاسداری کی اعلیٰ قسم کا انفراسٹرکچرڈویلپ کیا۔ مگر دوسری طرف غیر قانونی ہائوسنگ سکیمز کا کاروبار بھی عروج پر ہے‘جن کی تعداد لاہور ڈویژن میں 562تک پہنچ چکی ہے۔ غیر قانونی ہائوسنگ سکیمز‘ جو بغیر کسی ملکیت کے فروخت کر دی جاتی ہیں‘ فراڈ کی بدترین قسم ہے‘ جس میں ڈویلپرکی ملکیت چند کنالوں پر مشتمل ہوتی ہے جس پروہ سکیم کا دفتر کھول کر پُر کشش اشتہارات دے کر سینکڑوں پلاٹوں کی بکنگ کر لیتے ہیں‘ اور اربوں روپے لوٹ کر فرار ہو جاتے ہیں۔ ان میں کچھ ہائوسنگ سکیمیں ایسی بھی ہیں‘ جن کے پاس زمین کی ملکیت تو ہوتی ہے‘ مگر وہ ایل ڈی اے کے سخت رولز اورمنظوری کے مشکل ترین طریقہ کار سے بچنے کے لیے غیر قانونی سکیمیں بنانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایسی سکیموں کو قانونی دھارے میں لانے کے لیے منظوری کے طریقہ کارمیں آسانیاں پیدا کی جانی چاہئیں۔ اس سے تقریباً 1 لاکھ پلاٹس قانون کے دھارے میں آجائے گے اور ان سکیموں میں پلاٹوں کے خریدار‘ جن میں زیادہ ترغریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں‘کو قانونی تحفظ کے تحت نقشہ پاس کروانے کا حق مل جائے گا‘ اوروہ مالیاتی اداروں سے قرضہ بھی لے سکیں گے۔ لوگوں کوان بے ضابطگیوں اور فراڈ سے بچانے کے لیے ایل ڈی اے کو کچھ اہم اقدامات بھی کرنے ہوں گے تاکہ سادہ لوح افراد ان کے چنگل میں نہ پھنسیں۔ غیر قانونی ہائوسنگ سکیم کی میڈیا میں پبلسٹی پر مکمل Ban ہونا چاہیے‘ منظور شدہ سکیموں میں فائلوں کی خرید و فروخت پر پابندی‘ اور ہر فروخت شدہ پلاٹ کی ٹرانسفر منظور شدہ پلاٹوں میں دیئے گئے پلاٹ نمبر کے ساتھ بذریعہ ہ رجسٹری لازمی ہونی چاہیے تاکہ ڈویلپر پلاٹ کی لوکیشن کو بدل نہ سکے۔ اس طرح ڈویلپر اپنی ملکیت سے زیادہ رقبہ کی فروخت بھی نہیں کر سکے گا۔ ایل ڈی اے پابند ہو کہ وہ سکیم پلان کی کاپی پٹوار خانے میں بھی بھجوائے تاکہ کوئی فرد اور انتقال اس کے برعکس جاری نہ ہو سکے۔ ایسا کرنے سے اوپن سپیسزاور قبرستان وغیرہ کے رقبہ کی غیر قانونی فروخت اور استعمال کو روکا جا سکتا ہے۔ ضروری ہے کہ غیر قانونی سکیم کی صورت میں ریونیوریکارڈ میں ٹرانسفر پر پابندی ہو اور منظورشدہ سکیم کے باہر بڑے بورڈ پرمنظور شدہ سکیم پلان کا نقشہ آویزاں کیا جائے‘ جس میں سکیم کی تمام تفصیلات درج ہوں تاکہ خریدار کو اپنے پلاٹ کے قانونی سٹیٹس کے بارے میں علم ہو اور وہ دھوکا نہ کھائے۔ ایل ڈی اے میں سپیشل کاوئٹر کھولاجائے جو لوگوں کو فون یا انٹرنیٹ پر سکیم اور پلاٹ کے قانونی سٹیٹس کے بارے میں آگاہ کر سکے۔ سکیم کی منظوری سے پلاننگ پرمیشن حاصل کرنے تک کے طریقہ کار میں آسانیاں پیدا کی جائیں اور دی گئی درخواست کو صرف ماسٹر پلان کی روشنی میں چیک کرنے تک محدود کر دیا جائے تاکہ کسی بھی علاقے میں زمین خریدنے سے پہلے خریدار کو اس بات کا علم ہو کہ جو زمین وہ خرید نے جا رہاہے ‘وہ ماسٹر پلان سے متصادم نہیں۔ اس موقع پر ملکیت کے کاغذات بینک اکائونٹ کی تفصیل مانگنا مناسب نہیں۔ اس سے سکیم کی منظوری کے پروسیس میںتیزی پیدا ہو گی۔ سرکاری زمین پر صرف غریب اور متوسط طبقہ کے لیے جو3اور5مرلہ پلاٹس پر مشتمل ہائوسنگ سکیمز بنائی جانی چاہئیں‘ اس کے لیے پرائیویٹ لینڈبھی Acquireکی جا سکتی ہے اورپرائیویٹ سیکٹرزکو اس طرف مائل کرنے کے لیے چھوٹے پلاٹوں والی ہائوسنگ سکیمز کے رولز میں اوپن سپیس کو 7 فیصدسے کم کر کے 5 فیصد، سڑکوں کی چوڑائی کو 30فٹ سے کم کرکے 20فٹ‘ پبلک سائیٹس ایل ڈی اے کو ٹرانسفر نہ کرنے جیسی رعایتیں دی جائیں تاکہ یہ پلاٹس کم قیمت پر غریب اور متوسط طبقے کو دیئے جاسکیں۔ ایل ڈی اے ہائوسنگ سکیم 2014 نوٹیفکیشن کے بعد ایل ڈی اے تمام ڈویژن یعنی لاہور ،قصور، شیخوپورہ، ننکانہ میں ہائوسنگ سکیمز منظور کرنے
(باقی صفحہ 11 پر)
کا اختیار رکھتا ہے ‘لہٰذا ان تمام شہروں میںلوگوں کی سہولت کے لیے ایل ڈی اے کے دفاترکھول دینے چاہئیں تاکہ لوکل ڈویلپر کو اپنے کاموں کے لیے لاہور میں آ کر دھکے نہ کھانے پڑے اور وہاں پر تعینات ٹائون پلانرکو سکیم کی منظور ی رولز اور ماسٹر پلان کی روشنی میں دینے کااختیار ہو۔ اس سے غیر قانونی ہائوسنگ سکیمز کا رجحان‘ جو چھوٹے شہروں میں بہت زیادہ ہے‘ کم ہو جائے گا۔ فلیٹوں کی تعمیرکی حوصلہ افزائی کے لیے موجودہ بلڈنگ ریگولیشنز میں بھی نرمی کی جائے۔ موجودہ اپارٹمنٹ بلڈنگز کی اونچائی کو 80فٹ سے 120فٹ اور فلور ایریا ریشوکو بھی1:4سے بڑھا کے1:6کر دیا جائے۔ اس کے علاوہ 5 مرلہ کے پلاٹوں پر آگے اور پیچھے اوپن سپیس چھوڑ کر ہر پلاٹ پر 3عدد رہائشی یونٹس کی اجازت بھی دے دی جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو چھت میسرآسکے۔ ان تمام اقدامات کی وجہ سے جہاں وزیراعظم کے وژن کو عملی جامہ پہنانے میں آسانی ہو گی‘ وہاں تعمیر سے منسلک 17مین انڈسٹریز کو بھی تقویت ملے گی‘ جس سے شہر کی گروتھ ریٹ اور معاشی سر گرمیوں میں اضافہ ہو گا۔ اس کے علاوہ ہزاروں لوگوں کے لیے روزگارکے مواقع پیدا ہوں گے۔ اس ماڈل کو اگر پورے پاکستان میں نافذالعمل کر دیا جائے تو وزیر اعظم کا 50 لاکھ گھروں اور 1 کروڑ نوکریاں مہیا کرنے کا ٹارگٹ حقیقت میں تبدیل ہو جائے گا۔