اوئے تینوں کیہ پتہ …

ان دنوں مجھے اٹھارویں صدی کی دلی بے طرح یاد آ رہی ہے ۔ 1707ء میں اورنگ زیب کیا مرا ،ہر خاص و عام ، ملکی و غیر ملکی پر یہ راز کھل گیا کہ سلطنتِ مغلیہ کے شوکت و دبدبے کی اوقات ایک شاندار حویلی کے فلمی سیٹ سے زیادہ کچھ نہیں ۔اس فلمی سیٹ پر بادشاہ روزانہ دربار لگاتا تھا۔احکامات صادر کرنے کی اداکاری بھی ہوتی تھی۔کورنش بجالاتے حکام ان احکامات پر عمل درآمد کے کاغذی ثبوت بھی پیش کرتے تھے لیکن قلعے کے اندر کا حال چاندنی چوک کا بزاز بھی جانتا تھا۔
میواتی رہزنوں کے جتھے جب چاہتے دلی میں لوٹ مار کرکے جنگلوں کو پلٹ جاتے اور روتا پیٹتا فریادی جب قلعے کی زنجیرِ عدل ہلاتا تو بادشاہ بھی اس کے ساتھ آسمان کی جانب دیکھتے ہوئے دعائے خیر کے لئے ہاتھ بلند کردیتا۔ٹھگوں کے گروہ دلی کی طرف جانے یا دلی سے آنے والے سوداگروں کے قافلے لوٹنے کے بعد سوداگروں کا گلا گھونٹ دیتے ۔
اندرونِ دلی بغاوت ہو جاتی تو قابو پانے کے لئے بادشاہ کسی مراٹھا سردار سے درخواست کرتا ۔کسی غلام قادر روہیلے کو بادشاہ کی شکل اچھی نہ لگتی تو وہ اس کی آنکھیں نکال کر اسی کی ہتھیلی پر دھرتے ہوئے کسی اور کو تخت پر بٹھا کر روہیل کھنڈ روانہ ہوجاتا۔
کسی نادر شاہ کو مخبری ہوجاتی تو سینکڑوں کوس کا سفر طے کرتا ہوا دلی کی فصیل تک آن دھمکتا ۔کوئی محمد شاہ بادشاہ شہر سے باہر آ کر حملہ آور کا استقبال کرتا اور نادرشاہی سپاہ کے ہاتھوں اپنے ہی شہریوں کے قتلِ عام کو دیکھتے ہوئے سرپہ بندھے شاہی پٹکے کے کونے سے ماتھے کا پسینہ صاف کرتے ہوئے ایک زرد مسکراہٹ لبوں پر سجائے نادرشاہ کی طرف دیکھتا اور نادرشاہ اسے اپنا بھائی بنانے کا اعلان کرتے کرتے اپنی دستار سے محمد شاہ کی دستار بدل لیتا کہ جس میں کوہ نور ہیرا چھپا ہوتا۔اور پھر محمد شاہ سے حکمیہ درخواست کی جاتی کہ آپ اس سنہری کرسی پر تشریف رکھئے تاکہ میں تختِ طاؤس کے ٹکڑے کروا اونٹوں پر لدوا ایران لے جاسکوں۔اور پھر ایک دن انگریز آ گئے ۔
ایک منظم دبدبے کا دوسرا نام ریاست ہے ۔دبدبہ ختم ریاست ختم۔اس کے بعد آپ کو اجازت ہے کہ پنجر کو جب تک چاہیں ریاست کہتے سمجھتے رہیں۔مگر ریاست اکثر اتنی سخت جان ضرور ہوتی ہے کہ ایک دم قتل نہیں ہوتی۔کبھی جنگلی کتوں کا غول اس کے پیچھے لگ جاتا ہے اور ریاست ہانپ جاتی ہے ۔پھر کوئی بھیڑیا ٹانگ کا بوٹا لے اڑتا ہے اور ریاست اس بھیڑئیے کا تعاقب کرنے میں وقت ضائع کرنے کے بجائے ٹانگ پر پٹی باندھ لیتی ہے ۔پھر اس لنگڑاتی ریاست پر درختوں سے لٹکتے بندر اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر کود پھاند شروع کردیتے ہیں ۔کبھی سر پہ دھپ لگا دیا۔کبھی کسی نے ناک پر کاٹ کھایا تو کبھی کسی نے گلے میں جھولتے ہوئے بھنبھوڑڈالا ۔جب ریاست بے دم ہو کر بیٹھ جاتی ہے تو لگڑ بگے اردگرد چکر کاٹنے لگتے ہیں۔ریاست اپنے وجود کا پتہ دینے کے لئے دم ہلاتی رہتی ہے ، ڈکراتی ہے ، کبھی کبھی خوفناک آوازیں بھی نکالتی ہے ۔مگر لگڑ بگے خوب جانتے ہیں کہ ان کا کچھ نہیں بگڑ سکتا۔حتیٰ کہ وہ مرحلہ آجاتا ہے کہ جب گدھ بھی نڈر ہو کر ریاست کے پنجر پر نیچی پرواز شروع کردیتے ہیں اور ریاست سوائے پتھرائی آنکھوں سے دیکھنے کے کچھ نہیں کرپاتی اور پھر وہ وقت آجاتا ہے جب ان آنکھوں کو بھی پپوٹے ڈھانپ لیتے ہیں۔
ہر ریاست پر کسی نہ کسی وقت برا وقت ضرور آتا ہے ۔مگر جو ریاستیں پہلے جھٹکے یا حادثے کے بعد ہی احتیاط و پرہیز کی حکمتِ عملی اپنا لیتی ہیں وہ نہ صرف بچ جاتی ہیں بلکہ ایک صحت مند طویل العمری سے بھی لطف اندوز ہوتی ہیں۔ جو ریاستیں ہر چھوٹے موٹے جھٹکے یا حادثے کو ''رب دی جو مرضی‘‘ کہہ کر آگے بڑھ جاتی ہیں یا ''مٹی پاؤ ‘‘ کا ورد اپنا لیتی ہیں ان کی قدرتی قوتِ مدافعت رفتہ رفتہ اس قدر کمزور ہوتی چلی جاتی ہے کہ ایک وقت آتا ہے جب بدامنی کا معمولی سانزلہ اور سازش کا ہلکا سا بخار بھی جان لیوا ثابت ہوتا ہے ۔ان حالات میں ریاستیں بھلے نہ بھی مریں مگر اپاہج ضرور ہوجاتی ہیں ۔
کچھ اپاہج ریاستوں پر تو عالمی برادری ترس کھا کر مدد وغیرہ کرتی ہے تاکہ وہ پھر سے اپنے پاؤں پر کھڑی ہوجائیں لیکن اکثر اپاہج ریاستوں کا معقول علاج معالجہ کرنے یا کروانے کے بجائے ان کے ورثا ان ریاستوں کو ریڑھے پر بٹھا کر بھیک مانگنے نکل پڑتے ہیں اور جب انہیں اس تن آسانی میں مزہ آنے لگتا ہے تو پھر اسے مجبوری کے درجے سے اٹھا کر پیشے کے طور پر اختیار کرلیتے ہیں۔
اس وقت آپ جو کچھ بھی دیکھ رہے ہیں یہ اصل بیماری نہیں بلکہ جسم پر وقتاً فوقتا ابھرنے والے پھوڑے ہیں جو ریاستی رگوں میں دوڑنے والے خون کی آلودگی کی شدت کا پتہ دیتے ہیں۔ان پھوڑوں کے علاج کا کوئی فائدہ نہیں ۔کل کو اور نکل آئیں گے ۔مگر کیا کریں کہ یہ ریاست اور اس میں رہنے والے سب کے سب خود تشخیصی اور سیلف میڈیکیشن پر ایمان رکھتے ہیں۔یہ بیس کروڑ لوگ نہیں بیس کروڑ ڈاکٹر ہیں جن میں سے کوئی کسی کی تشخیص سے متفق نہیں۔جب کسی ریاست میں سب کے سب سیانے ہوں تو سیانے مریض کا علاج بہت مشکل ہے ۔اب شاید ایک ہی طریقہ ہے ۔سب سے پہلے دماغی علاج ہو تاکہ ذہنی طور پر روبصحت ہونے کے بعد یہ کسی موثر اور جدید جسمانی علاج پر آمادہ ہوسکیں۔ورنہ یہ سب یہی چیختے چیختے مرجائیں گے کہ اوئے بوہتی بکواس نہ کر ۔تینوں کیہ پتہ ، میں اصل گل دسنا واں ...
( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجئے )

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں