2010ء اگر یاد ہو تو آپ کو یاد آجائے گا کہ کیسا سیلابِ عظیم تھا جس نے تیس فیصد پاکستان کے دو کروڑ لوگوں کو زیرِ آب کردیا ۔یہ تباہ کاری دو مغربی دریاؤں سوات اور کابل نے دریائے سندھ اور کوہِ سلیمان کے چند شرارتی پہاڑی نالوں کے ساتھ مل کے مچائی تھی۔شکر خدا کا 2010ء میں چار مشرقی دریاؤں ( جہلم ، چناب ، راوی ، ستلج ) اور ان کے طفیلیوں نے تحریکِ آبی نافرمانی میں شمولیت اختیار نہ کی ورنہ سندھ اور پنجاب طوفانِ نوح ِ ثانی سے گزر جاتے ۔
اس بار مشرقی دریاؤں نے انگڑائی لی ہے اور خوش قسمتی سے مغربی دریائے کابل اور دریائے سوات تاحال آپے سے باہر نہیں ہوئے ۔دعا ہے کہ بوڑھا سندھو اس بار بھی یہ بوجھ سہارتا سہارتا سمندر تک چھوڑ آئے ۔ فطرت سے فطرت ہی نمٹے تو نمٹے ورنہ تو یہ کام بندے کی اوقات سے باہر ہے کیونکہ بندوں کو اور بھی زیادہ ضروری کام لاحق ہیں ؎
یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی
اگر سب ہی سیلاب کی پیش بندی ، بند سازی ، بچاؤ بحالی میں لگ گئے تو ملک کا نظم و نسق کون دیکھے گا ، لوڈ شیڈنگ کیسے مینیج ہوگی ، ترقیاتی منصوبوں کے ایم او یوز پر دستخط کون کرے ،کون آئے گا جائے گا ، نظریاتی سرحدوں کا کیا ہوگا ، دھرنا بریگیڈ سے مذاکرات کون کرے گا، آئین ، جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بالادستی کا مسلسل اظہار کیسے ہوگا اور وہ گنے جو چوسے ہی نہ جا سکے ان پر عدلیہ سے سٹے آرڈر کون لے گا۔
سیلاب تو آنی جانی شے ہے ۔آج متاثرین کی حقیقی مدد کی تو کل پھر آن دھمکے گا۔یہ بھی تو نہیں معلوم کہ متاثرین کا سیاسی و نظریاتی جھکاؤ کس جانب ہے ۔کہیں ہم سے امداد لے کر انہیں ہی ووٹ نہ دے ڈالیں۔میں اس قومی مصیبت کے موقع پر نہ تو کوئی دل لگی کررہا ہوں ،نہ بے پر کی اڑا رہا ہوں۔
میں نے اپنی آنکھوں سے 2005ء کے زلزلے اور 2010ء کے سیلاب میں ٹچی ذہنیت کو گھٹیا سیاست کی دھن پر ناچتے دیکھا ہے ۔کس طرح بعض متاثرہ علاقوں کے بے سرو سامانوں کے نام پر بھیجی جانے والی امداد کا ایک حصہ علاقہ معززین اپنے مصیبت زدہ وسیع تر خاندان اور حالی موالیوں کے لئے رکھ لیتے تھے ۔دوسرا حصہ اپنے حلقے کے ووٹروں کو اگلے انتخابی موسم میں احسان مند کرنے کے لئے ذخیرہ ہو جاتا تھا اور تیسرا حصہ فوری اصل مستحق متاثرین تک پہنچ پاتا تھا۔اس میں بھی نئے کمبلوں کی جگہ پرانے استعمال شدہ کمبل رکھ کے وزن پورا کرنے کی کوشش آخر دم تک جاری رہتی تھی۔
ہاں میں گواہ ہوں جب بٹگرام ہیلی پیڈ پر ایک کونسلر نے اپنے علاقے کی زلزلہ تباہ کاری کی دلدوز تصویر کھینچی تھی اور امدادی کاموں کے انچارج بریگیڈیئر نے اس کی داستانِ غم سے متاثر ہو کر وادی ِ کاغان کے زلزلہ زدگان کے لئے رسد لے جانے والے ایک ایم آئی سترہ ہیلی کاپٹر کے عملے کو ہدایت دی کہ اس فلائٹ کا آدھا سامان اس کونسلر کے گاؤں میں اتار دیا جائے ۔ میں بھی اس ہیلی کاپٹر میں کسی نہ کسی طور سوار ہوگیا تاکہ امداد کی تقسیم کا عمل دیکھ سکوں۔دریائے کنہار پر لگ بھگ پندرہ منٹ کی فلائٹ کے بعد ہیلی کاپٹر پارس کے قصبے سے آگے دائیں کنارے پر کونسلر کے گاؤں پر سرکل کرنے لگا،مگر اس گاؤں میں بظاہر نوے فیصد گھر کھڑے ہوئے تھے جبکہ اسی گاؤں کے مقابل دریا کے دوسرے کنارے پر نوے فیصد گھر ملبے کا ڈھیر بنے ہوئے تھے ۔ میں نے میاں کونسلر سے کہا ، سامان تو دوسرے کنارے پر اترنا چاہیے ۔تم اس کنارے پر کیوں اتروانا چاہتے ہو۔میرے کان میں کہنے لگا ۔وہ گاؤں مخالف برادری والوں کا ہے اس لئے ...میں نے جانے کیوں یہ بات ہیلی کاپٹر کے عملے کو بتادی اور ہیلی کاپٹر واپس بٹگرام کی طرف مڑنے لگا۔ کونسلر اور اس کے دو ساتھیوں نے درخواست کی کہ امداد دو نہ دو ہمیں تو نیچے اتار دو۔ہیلی کاپٹر کے عملے نے ایک دوسرے کو افسوسناک مسکراہٹ کے ساتھ دیکھا اور انہیں نیچے اتار دیا۔
ہاں میں نے 2010ء کے سیلاب میں مظفر گڑھ میں دیکھا کہ کس طرح تینوں امدادی کشتیوں نے سب سے پہلے علاقے کے ایک با اثر کے مویشیوں کو کنارے تک پہنچایا اور پھر پانی میں گردن گردن کھڑے ایک ہاری کنبے کو بچانے کے لئے کشتی بھیجی گئی ۔ جبکہ اسی با اثر کا ایک کارندہ کنارے پر پڑی چارپائی پر بیٹھا لٹے پٹے بے حالوں سے چالیس ہزار کی بھینس پانچ ہزار کیش پر اور چھ ہزار کی بکری آٹھ سو میں خرید رہا تھا۔
کیڑے پڑیں اس سیلاب میں اور جہنم میں جائیں سیلاب زدگان ، اور ان موئے دریاؤں کو بھی عین اس وقت ہی چھچھور پن دکھانے کی سوجھی جب ملک انقلاب کی کگر پر کھڑا آزادی کی بانہوں میں آنے کے لئے بس چھلانگ لگانے کو ہی ہے ۔
ہاں بہت دکھ ہوا یہ سن کر کہ جموں سے براستہ دریائے توی پہنچنے والے پانی نے نالہ ڈیک کے ساتھ مل کر سیالکوٹ میں تباہی مچا دی ، لیکن اس سے بھی زیادہ اہم مسئلہ یہ ہے کہ بلوچستان کے وزیرِ اعلیٰ ڈاکٹر مالک نے ایک سال پہلے کس طرح دھاندلی کرکے انتخاب جیتا۔میں ہیڈ تریموں کے سیلاب متاثرین کی حالتِ زار پر نہایت افسردہ ہوں لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ ہم سوئٹزر لینڈ کے لاکرز میں رکھی ہوئی لوٹ زدہ دولت واپس لانے کا مطالبہ نہ کریں۔ہماری دعائیں گوجرانوالہ کے گھٹنوں گھٹنوں پانی میں ڈوبے علاقوں کے ساتھ ہیں مگر یہ کس قدر سنگین بات ہے کہ چینی صدر کے دورے کی منسوخی کا الزام بھی اہلِ دھرنا کے سر منڈھ دیا گیا۔جھنگ کے سینکڑوں دیہات شدید خطرے میں ہیں مگر پارلیمنٹ کسی طالع آزما کے بالائے آئین عزائم کے بارے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنی رہے گی ۔گڈو اور سکھر بیراج سے اگلے پانچ روز میں سپر فلڈ گزرنے والا ہے لیکن عدالت پارلیمنٹ میں جھوٹ بولنے پر آئین کے آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ کے تحت آخر کب نواز شریف کے خلاف ازخود نوٹس لے گی۔
جی جی میں ابھی آپ کے لئے امدادی ٹرک بھجوا رہا ہوں بس یہ طے ہوجائے کہ سوئی کے ناکے سے کتنے اونٹ گزر سکتے ہیں۔ذرا سا صبر نہیں کرسکتے آپ ...ہلو ہلو ہلو...لگتا ہے لائن ڈراپ ہوگئی ...یا پھر کال کرنے والا بہہ گیا...
( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لئےbbcurdu.comپر کلک کیجئے )